Express News:
2025-06-10@23:53:09 GMT

موثر تقاریرکیسے لکھیں

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

زمانہ طالب علمی سے ہی مجھے شہر میں ہونے والے ادبی، سیاسی اور مذہبی مذاکروں، سیمینار اور اجتماعات میں شرکت کا شوق رہا ہے اور آج بھی ہے، اگر معاشی اور نجی مصروفیات کے باعث وقت کی کمی کا مسئلہ درپیش نہ ہو تو میں ان مختلف ادبی، سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے پروگراموں میں لازمی شرکت کرتا ہوں۔

ان پروگراموں میں شرکت کی بدولت نہ صرف میرے سماجی شعور میں اضافہ ہوا ہے بلکہ یہ پروگرام میری کردار سازی میں بھی معاون ثابت ہوئے ہیں۔ میں کیونکہ تجسس کا مارا آزاد سوچ کا حامل ہوں، اس لیے مجھے ہر مکتب فکر اور مختلف نظریات کی حامل تنظیموں کے پروگراموں میں شرکت کا موقعہ ملا۔

 میں گزشتہ 30 سال سے سیکڑوں مذہبی، سیاسی اور ادبی پروگراموں میں شرکت کر چکا ہوں، میرا یہ ذاتی مشاہدہ ہے کہ ان پروگراموں میں بہت کم یا چند ہی مقررین ایسے ہوتے ہیں جو موضوع کے مرکزی خیال کے اندر رہتے ہوئے تقاریر کرتے ہیں، اکثریت مقررین کی ایسی ہوتی ہے جو پروگراموں میں محض اپنی موجودگی کا احساس دلانے شریک ہوتے ہیں تاکہ ان کے سماجی رتبے میں اضافہ ہو سکے۔

ان پروگراموں اور اجتماعات عام کا مقصد معاشرے میں معاشرے کی رہنمائی کرکے مثبت تبدیلی لانا ہوتا ہے۔ ان افراد کے اس طرز عمل کی بدولت یہ تمام سرگرمیاں اپنی افادیت کھو دیتی ہیں یہ پروگرام علمی بانجھ پن کا شکار ہو کر غیر موثر ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مرکزی خیال کے اندر رہتے ہوئے تقاریرکیسے تحریرکی جائیں۔

 میری ذاتی رائے میں تقاریر میں سب سے پہلے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ آپ کا موضوع کیا ہے اور آپ اس موضوع کے متعلق کیا معلومات رکھتے ہیں۔ یہ بات واضح ہونے کے بعد آپ اپنے ذہن میں موضوع سے متعلق سوالات کا ایک خاکہ مرتب کریں۔

دراصل معلومات حاصل کرنے کے لیے ہم سوال کرتے ہیں، سوال کا جواب ملنے پرکئی سوال نکلتے چلے جاتے ہیں۔ سوالات کے 6 زاویے ہوتے ہیں کیا، کون، کب، کہاں، کیسے اورکیوں۔ ان سوالات کی بدولت ہم نامعلوم سے معلوم کی طرف جاتے ہیں، یہ سوالات ابتدائی شعور سے آفاقی شعور تک پہنچاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ مرکزی خیال کو سامنے رکھ کر ایسے سوالات میں تبدیل کر دیں جن کا جواب دینا ضروری ہے۔

سوالات واضح اور جامع ہوں اور ان کا تعلق موضوع سے ہونا چاہیے جو زیر بحث ہے۔ غیر متعلقہ سوال آپ کو موضوع کے مرکزی خیال سے باہر کر سکتا ہے۔ خیال رہے سوالات کھلے ذہن یعنی آزادی فکر کے ساتھ ہوں اور مفروضوں پر مبنی نہ ہوں۔

سوالات کی ترتیب منطقی ہو، سوالات کی منطقی ترتیب تقریر کو باہم ربط میں لا کر قابل فہم مقدمے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کا موضوع ہے ’’ کیا پاکستان میں اسلام کا سیاسی نظام ممکن ہے؟‘‘ اس موضوع کی تیاری کے لیے آپ درج ذیل سوالات کا ایک ذہنی خاکہ تیار کر سکتے ہیں۔

مثلاً سیاست کا مفہوم کیا ہے، نظام کسے کہتے ہیں، دنیا میں کتنے سیاسی نظام رائج ہیں، اسلام کے سیاسی نظام سے کیا مراد ہے، ہمارا انتخاب اسلام کا سیاسی نظام ہی کیوں؟ ہم دنیا میں رائج دیگر سیاسی نظاموں کو کیوں مسترد کرتے ہیں، اسلام کا سیاسی نظام کیوں ضروری ہے۔ مخالفین اس حوالے سے کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں، ہمارے پاس ان اعتراضات کے کیا جوابات ہیں۔

اسلام کے نفاذ کے حوالے سے پاکستان میں اس کے نفاذ کی کیا کوششیں ہوئی ہیں یہ کوششیں کامیابی سے ہم کنار کیوں نہ ہو سکیں؟ نفاذ اسلام کی راہ میں کیا مشکلات اور رکاوٹیں ہیں۔ ان کے تدارک کے لیے ہمارا کیا لائحہ عمل ہے۔

اس لائحہ عمل کی کامیابی کس طرح یقینی ہے۔ کیا پاکستان میں اسلام کا نفاذ ممکن ہے؟ یہ سوالات ایک خاص ترتیب ہے، ان سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے تمام سوالات کے بہت مختصراً اور مرکزی موضوع اور اس سے متعلقہ سوالات کے جوابات تفصیلی وضاحت کے ساتھ واضح اور جامع انداز میں بیان کریں۔

اسی طرح فرض کریں آپ کا موضوع ہے ’’ کیا مسئلہ فلسطین کا حل ممکن ہے؟‘‘ اس موضوع کی تیاری کے لیے بھی آپ درج ذیل سوالات کا ذہنی خاکہ تیار کر سکتے ہیں۔ مثلاً فلسطین کا تاریخی پس منظر کیا ہے، مسئلہ فلسطین کیا ہے، اس مسئلے کے حوالے سے فلسطینی عوام کیا موقف رکھتے ہیں، اس حوالے سے اسرائیل کا نقطہ نظر کیا ہے، اس مسئلے کو بین الاقوامی دنیا کس نظر سے دیکھتی ہے، امت مسلمہ کی کیا رائے ہے، کیا یہ مسئلہ سیاسی ہے، اگر یہ مسئلہ سیاسی ہے تو اس کے حل کے حوالے سے کیا سیاسی کوششیں کی گئی ہیں، کیا یہ مسئلہ مذہبی ہے، اگر یہ مسئلہ مذہبی ہے تو مذہبی تناظر میں اس کے حل کے لیے کیا کوششیں ہوئیں، مسئلہ فلسطین اب تک کیوں حل نہ ہو سکا۔

اس کے حل میں کیا مشکلات درپیش ہیں، ان مشکلات کے حل کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہیے؟ اس لائحہ عمل کی کامیابی کس طرح یقینی ہے،کیا مسئلہ فلسطین کا حل ممکن ہے؟

اس خاکے میں بھی سوالات کی ترتیب ہے، تمام سوالات کے جوابات مختصراً اور مرکزی موضوع اور اس سے متعلقہ سوالات کے جوابات تفصیل سے بیان کریں، اگر آپ چاہیں تو اپنے سننے والوں کو اپنے مرتب کیے گئے سوالات کے خاکے سے ابتدا ہی میں آگاہ کر سکتے ہیں تاکہ آغاز سے اختتام تک سننے والے کی دلچسپی برقرار رہے۔

 سوالات کے جوابات کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو یہ بات معلوم ہوکہ مرکزی خیال کے کلیدی نکات کیا ہیں اور موضوع کے مختلف حصے کیسے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سوالات کے جو بھی جوابات تیار کیے جائیں ان میں باہمی ربط ہونا ضروری ہے، اس کے علاوہ چند اہم نکات بھی ہیں جن کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔

سب سے پہلے یہ تعین کرلیں کہ آپ کے سامعین کون ہیں، کس گروہ یا طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، مواد کا معیار، الفاظ کا چناؤ اور اسلوب سامعین کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کرکریں، مواد جتنا زیادہ سہل اور آسان ہوگا آپ کی تقریر اتنی ہی متاثرکن ہوگی، تعارفی، پیراگراف پر خصوصی توجہ دیں، مضمون کا تعارفی پیراگراف ہمیشہ یہ سوچ کر لکھیں کہ اس کے ذریعے آپ نہ صرف قاری کو نفس مضمون سے آگاہ کر رہے ہیں بلکہ اسے سننے پر بھی آمادہ کر رہے ہیں۔

تحریر جامع اور مختصر ہو، جامع اور مختصر تقریر لکھنا ایک مشکل کام ہے، یہ کام سمندرکوکوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے جس کے پاس سمندر ہی نہیں وہ سمندر کو کوزے میں بند کیسے کرے گا، لہٰذا جامع اور مختصر تقاریر لکھنے کے لیے آپ کا وسیع مطالعہ ہونا ضروری ہے۔تحریر کو آزادی فکر، سچائی اور دلی جذبے کے تحت لکھا جائے، سچائی کے ساتھ، لکھی جانے والی تحریر نہ صرف دلکش ہوتی ہے بلکہ پُراثر بھی۔ لہٰذا تحریر کو سچائی کے ساتھ لکھا جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پروگراموں میں مسئلہ فلسطین سوالات کے جو مرکزی خیال سیاسی نظام سوالات کی لائحہ عمل رکھتے ہیں کو سامنے یہ مسئلہ میں شرکت ضروری ہے حوالے سے موضوع کے اسلام کا کے ساتھ ممکن ہے کے لیے کیا ہے

پڑھیں:

مسئلہ کشمیر پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا وعدہ پورا کریں گے، بلاول بھٹو

لندن(ڈیلی پاکستان آن لائن)چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستانی سفارتی مشن کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نےکہا ہے کہ جنگ میں برتری کے باوجود ہم نے جنگ بندی پر اس شرط پر اتفاق کیا کہ مستقبل میں تمام کشیدگی کے نکات پر ایک غیر جانبدار مقام پر مزید بات چیت ہوگی۔سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے سفارتی وفد کے اراکین کے ہمراہ لندن پہنچنے پر ان خیالات کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، وفد میں حنا ربانی کھر ، خرم دستگیر ، سینیٹرز شیری رحمان، مصدق ملک، فیصل سبزواری اور بشریٰ انجم بٹ بھی وفد کا حصہ ہیں، ان کے ساتھ سینئر سفیر جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ بھی ہیں۔

"میرا بوائے فرینڈ مجھے اپنے باس کے ساتھ سونے پر مجبور کر رہا ہے" خاتون کا انتہائی شرمناک انکشاف

اس ماہ کے اوائل میں، پاکستان نے بھارت کے ساتھ حالیہ تنازعہ پر اپنا نقطہ نظر دنیا کے سامنے پیش کرنے اور نئی دہلی کے غیر ثابت شدہ الزامات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد سفارتی مہم شروع کی تھی، اپنی عالمی رسائی کی مہم کے حصے کے طور پر، وفد نے امریکہ کا دورہ کیا ہے، اور اس وقت لندن میں ہے، اور پھر برسلز بھی جائے گی۔بلاول بھٹو نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے جنگ کے دوران ہمیں برتری حاصل رہی، اس برتری کے باوجود، ہم نے جنگ بندی پر اس شرط پر اتفاق کیا کہ مستقبل میں تمام کشیدگی کے نکات پر ایک غیر جانبدار مقام پر مزید بات چیت ہوگی۔امریکا کی ثالثی میں جنگ بندی کے بعد کشمیر تنازعہ جلد حل ہونے کے بارے میں پوچھے جانے پر، بلاول نے امید ظاہر کی کہ ’ ڈونلڈ ٹرمپ یا ان کی حکومت اپنا وعدہ پورا کرے گی’ کیونکہ تنازعہ کے دوران پاکستان کی دفاعی پوزیشن بھارت سے بہتر تھی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر، چاہے وہ امریکا ہو یا برطانیہ، وہ سب اپنا کردار ادا کریں گے اور بھارت کو بات چیت کے ذریعے ہمارے مسائل حل کرنے پر راضی کریں گے۔

جسٹن بیبر  کو کیا ہوا؟ تصویر سامنے آنے پر مداحوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی

مزید :

متعلقہ مضامین

  • شملہ معاہدہ کی اہمیت و افادیت
  • کراچی؛ تاجر برادری نے بجٹ کو مبہم قرار دے دیا، شرح نمو، ٹیکس اہداف پر سوالات اٹھا دیے
  • مردانہ برتری کی سوچ سے جنم لینے والا تشدد کوئی نیا یا غیر معمولی مسئلہ نہیں،آصفہ بھٹو زرداری
  • مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل نہ ہوا تو خطہ ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے: سلیم بٹ
  • مسئلہ کشمیر پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا وعدہ پورا کریں گے، بلاول زرداری
  • مسئلہ کشمیر پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا وعدہ پورا کریں گے، بلاول بھٹو
  • بلاول بھٹو: بھارت سے مسائل کا واحد حل مسئلہ کشمیر کا حل ہے
  • بھارت کے بڑی طاقت ہونے کا جھوٹا تاثر ختم ہو گیا، جلیل عباس جیلانی
  • گورنر پختونخوا کی صوبائی حکومت پر کڑی تنقید، کرپشن اور بے امنی پر سوالات اٹھا دیے
  • پہلگام حملے سے سیز فائر تک کئی سوالات برقرار، بھارت کے پاس کوئی جواب نہیں