کراچی؛ تاجر برادری نے بجٹ کو مبہم قرار دے دیا، شرح نمو، ٹیکس اہداف پر سوالات اٹھا دیے
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
کراچی:
کراچی کی تاجر اور صنعت کار برادری نے وفاقی بجٹ کو مبہم قرار دیتے ہوئے معاشی ترقی کی شرح نمو اور ٹیکس وصولیوں کے بلند اہداف پر سوال اٹھا دیے۔
کراچی چیمبرآف کامرس میں وفاقی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے بی ایم جی گروپ کے سربراہ زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ کیموفلاج ہے، گزشتہ سال کے معاشی ترقی اور شرح نمو کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے، زراعت نے پست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو پھر آئندہ مالی سال کے بلند اہداف کی بنیاد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بجٹ کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو مزید سختی کرنے کا اختیار دے دیا گیا یہ نہیں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کا ہدف کیوں پورا نہیں ہوسکا۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں وفاقی حکومت کوئی معاشی منصوبہ نہیں دے سکی کہ کس طرح معاشی نمو بڑھے گی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ میں محصولات کا ہدف پورا کرنے کے لیے سختیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے، بجٹ میں اصلاحات کی بات نہیں کی گئی، ریونیو بڑھانے کے لیے معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کے اقدامات کا ذکر نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تجارت سرمایہ کاری اور صنعتوں کے فروع پر کوئی بات نہیں کی گئی، پاکستان کی مسابقت کو آسان بنا کر برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، صنعتیں نہ لگیں تو بڑھتی آبادی کو کیسے روزگا دیں گے اور بجلی مہنگی کرکے ایکسپورٹ نہیں بڑھائی جاسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ دستاویزات میں معاشی اہداف حاصل کرنے کے اقدامات کا ذکر نہیں ہے، سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔
وفاقی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے کی کارکردگی بہت پست رہی اس کی کیا وجوہات ہیں، بڑی فصلوں میں نقصانات کو امپورٹ کرکے پورا کرنا پڑے گا ۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے اندر بڑی کٹوتیاں کی گئیں، ایک ہزار ارب روپے کا وفاقی پی ایس ڈی پی ناکافی ہے، پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے، ماحولیاتی آلودگی سے اس کے لیے بھی 5 ارب روپے کا بجٹ ناکافی ہے۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ ایس آئی ایف سی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، میں سمجھتا ہوں کہ پروگریسو بجٹ ہے، نئے اقدامات کیے گئے ٹیکنالوجی اور اصلاحات کے لحاظ سے معیشت کیسے ترقی کرے گی، عام طبقے تک اس کے ثمرات کیسے پہنچیں گے بجٹ میں ان سوالات کا جواب نہیں ہے۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس جاوید بلوانی نے کہا کہ بجٹ میں صنعتوں کی ترقی اور ایکسپورٹ کے لیے کچھ نہیں کہا گیا، لوگ اپنی بجلی کے کنکشن کروا رہے ہیں، 50 فیصد تنخواہیں بجلی اور ٹرانسپورٹ میں خرچ ہو رہا ہے، مہنگائی کم کرنے کے لیے کیا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ زراعت صوبوں کی ذمہ داری ہے، اب وفاق کے کنٹرول میں تو پہلے بھی نہیں تھا، کپاس کی پیداوار 90 کی دہائی سے بھی کم ہے، توانائی اور ٹیکس کی لاگت، شرح سود خطے میں سب سے زیادہ ہو تو ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی۔
جاوید بلوانی نے کہا کہ ای ایف ایس اسکیم کی وجہ سے برآمدات میں کچھ اضافہ ہوا، اس کو بھی اب خراب کیا جا رہا ہے جب ایکسپورٹ بڑھتی ہے، حکومت کوئی نہ کوئی اقدام کرکے ایکسپورٹ گرائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل کو وفاقی بجٹ میں نظر انداز کیا گیا، کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے لیے 3.
ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے 50 فیصد کم آبادی والے شہروں کے لیے، کراچی سے زیادہ بجٹ رکھا گیا، ہم نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے بہت سی تجاویز دیں لیکن نہیں مانی گئیں۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس نے کہا کہ بجٹ میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوئی بات نہیں کی گئی، برین ڈرین روکنے کے لیے کچھ نہیں۔
حکومتی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں اضافہ روکا گیا، اسے مائنس میں لانا ضروری ہے، بجٹ کا سب سے بڑا ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں، 38 ارب ڈالر کی ترسیلات شامل کیے بغیر بجٹ بنا کر دکھائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ خوش آئند ہے اس کے ثمرات عوام تک کیسے منتقل ہوں گے۔
سابق صدر انجم نثار نے کہا کہ بجٹ میں روزگار بڑھانے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے، نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کیسے ہوگی، چھوٹے چھوٹے ملکوں کی ایکسپورٹ ہم سے زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کا پہیہ چلنے دیں، کئی سال سے کے فور کا منصوبہ نہیں بن سکا، ماحولیاتی تبدیلیوں کے لیے اربوں ڈالر کا قرضہ لیا جا رہا ہے، اس پر سود کیسے ادا کریں گے، کسٹم تین روز میں کلیرینس نہ ہونے پر پینلٹی کی تجویز غلط ہے۔
سابق بیوروکریٹ محمد یونس ڈھاگا نے کہا کہ بجٹ توقعات کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے، محصولات میں ایک ہزار ارب روپے کی کمی آئی، 3.6 فیصد جی ڈی پی کا ہدف پورا نہ ہوسکا تو 4 فیصد سے زائد کیسے ہوگا، نمو کے ہدف کے لیے کوئی صنعتی پلان نہیں۔
یونس ڈھاگا نے کہا کہ زراعت اور آئی ٹی کی ترقی کا بھی پلان نہیں دیا گیا، ٹیکس اہداف اور جی ڈی پی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
انہوں نےکہا کہ رئیل اسٹیٹ سے ٹرانزیکشن ٹیکس میں کمی کی گئی، تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا گیا، بجٹ میں ایکسپورٹ کی مد میں ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ بجٹ میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ بڑھانے کے لیے وفاقی بجٹ سے زیادہ ارب روپے کیا گیا دیا گیا نہیں کی کی گئی کا ہدف
پڑھیں:
پائیدار ترقی کے عزم نو کے ساتھ یو این اعلیٰ سطحی سیاسی فورم کا خاتمہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 جولائی 2025ء) پائیدار ترقی پر اقوام متحدہ کا اعلیٰ سطحی سیاسی فورم (ایچ ایل پی ایف) نیویارک میں ختم ہو گیا ہے جس میں رکن ممالک نے 2030 کے عالمی ترقیاتی ایجنڈے پر موثر عملدرآمد کے عزم کی توثیق کی ہے۔
ایک ہفتہ جاری رہنے والے اس فورم میں رکن ممالک، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور اقوام متحدہ کے اداروں نے پائیدار ترقی کے اہداف پر اب تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا اور اس سمت میں کیے جانے والے اقدامات کی رفتار بڑھانے پر بات چیت کی۔
فورم کے آخری روز ایک وزارتی اعلامیے کی منظوری بھی دی گئی جس کے حق میں 154 ووٹ آئے۔ امریکہ اور اسرائیل نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ پیراگوئے اور ایران رائے شماری میں غیرحاضر رہے۔ Tweet URLاس اعلامیے میں رکن ممالک نے کہا ہے کہ 2030 کا ایجنڈا پائیدار ترقی کے حصول اور دنیا کو درپیش بہت سے بحرانوں پر قابو پانے کا وسیع تر لائحہ عمل ہے اور وہ اس پر عملدرآمد کے عہد کی توثیق کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
'ایچ ایل پی ایف' کے 15 سالاقوام متحدہ کی معاشی و سماجی کونسل (ایکوسوک) کے زیراہتمام 'ایچ ایل پی ایف' کا انعقاد 2010 سے ہو رہا ہے جس میں پائیدار ترقی کے 17 اہداف پر پیش رفت کا جائزہ لیا جاتا ہے جو 2015 میں طے کیے گئے تھے۔
امسال اس فورم میں پانچ اہداف خصوصی طور پر زیرغور آئے جن میں صحت و بہبود، صںفی مساوات، باوقار روزگار اور معاشی ترقی، زیرآب زندگی اور شراکتیں شامل ہیں۔
فورم کے اعلامیے کی دستاویز پر بات چیت چیک ریپبلک اور سینٹ ونسنٹ و گرینیڈیئنز کے نمائندوں کی قیادت میں ہوئی جنہوں نے پائیدار ترقی کے حوالے سے اس کی اہمیت کو واضح کیا۔اقوام متحدہ میں چیک ریپبلک کے مستقل نمائندے جیکب کولہانک نے کہا کہ رواں سال ہونے والی بات چیت خاص اہمیت کی حامل ہے کہ پائیدار ترقی کے ایجنڈے کی منظوری کو دس سال مکمل ہو گئے ہیں اور بہت سے باہم پیوست مسائل سے ان اہداف کے حصول کی جدوجہد کو خطرہ لاحق ہے۔
غربت اور موسمیاتی بحرانوزارتی اعلامیے میں رکن ممالک نے کہا ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کی مقررہ مدت ختم ہونے میں بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے۔ سیکرٹری جنرل نے فورم کے پہلے روز اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ اب تک صرف 18 فیصد اہداف پر پیش رفت ہی تسلی بخش ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ غربت پائیدار ترقی کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور بگڑتا موسمیاتی بحران ترقیاتی ایجنڈے کے ہر پہلو کو متاثر کر رہا ہے اور یہ دونوں دنیا کو درپیش بہت بڑے مسائل ہیں۔
رکن ممالک نے کہا ہے کہ ترقی امن و سلامتی کی بدولت ہی ممکن ہے اور حصول امن میں مضبوط انتظام اور شراکتوں کا اہم ترین کردار ہے۔ اسی طرح، پائیدار ترقی کے بغیر امن اور سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
کثیرالفریقیت کے تحفظ کا عزمرکن ممالک نے کہا ہے کہ کثیرالفریقیت کو لاحق خطرات کی موجودگی میں یہ اعلامیہ اس نظام کو تحفظ دینےکے لیے اقوام متحدہ کے عزم کی توثیق ہے۔
جیکب کولہانک نے کہا کہ آج کثیرالفریقیت کے مستقبل پر سنگین سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور ان حالات میں رکن ممالک کی اس نظام سے غیرمتزلزل وابستگی امید افزا اور متاثر کن ہے۔دنیا بھر کے ممالک نے اس اعلامیے کے ذریعے دنیا کو بہتر بنانے کی خاطر پائیدار ترقی کے اہداف کی تکمیل کے لیے ہنگامی بنیاد پر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں، زمین، خوشحالی، امن اور شراکت کے لیے اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں فوری اقدامات کیے جائیں گے۔