کراچی:

کراچی کی تاجر اور صنعت کار برادری نے وفاقی بجٹ کو مبہم قرار دیتے ہوئے معاشی ترقی کی شرح نمو اور ٹیکس وصولیوں کے بلند اہداف پر سوال اٹھا دیے۔

کراچی چیمبرآف کامرس میں وفاقی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے بی ایم جی گروپ کے سربراہ زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ کیموفلاج ہے، گزشتہ سال کے معاشی ترقی اور شرح نمو کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے، زراعت نے پست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو پھر آئندہ مالی سال کے بلند اہداف کی بنیاد کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بجٹ کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو مزید سختی کرنے کا اختیار دے دیا گیا یہ نہیں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کا ہدف کیوں پورا نہیں ہوسکا۔

ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں وفاقی حکومت کوئی معاشی منصوبہ نہیں دے سکی کہ کس طرح معاشی نمو بڑھے گی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔

زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ میں محصولات کا ہدف پورا کرنے کے لیے سختیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے، بجٹ میں اصلاحات کی بات نہیں کی گئی، ریونیو بڑھانے کے لیے معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کے اقدامات کا ذکر نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ تجارت سرمایہ کاری اور صنعتوں کے فروع پر کوئی بات نہیں کی گئی، پاکستان کی مسابقت کو آسان بنا کر برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، صنعتیں نہ لگیں تو بڑھتی آبادی کو کیسے روزگا دیں گے اور بجلی مہنگی کرکے ایکسپورٹ نہیں بڑھائی جاسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ بجٹ دستاویزات میں معاشی اہداف حاصل کرنے کے اقدامات کا ذکر نہیں ہے، سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔

وفاقی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے کی کارکردگی بہت پست رہی اس کی کیا وجوہات ہیں، بڑی فصلوں میں نقصانات کو امپورٹ کرکے پورا کرنا پڑے گا ۔

انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے اندر بڑی کٹوتیاں کی گئیں، ایک ہزار ارب روپے کا وفاقی پی ایس ڈی پی ناکافی ہے، پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے، ماحولیاتی آلودگی سے اس کے لیے بھی 5 ارب روپے کا بجٹ ناکافی ہے۔

زبیر موتی والا نے کہا کہ ایس آئی ایف سی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، میں سمجھتا ہوں کہ پروگریسو بجٹ ہے، نئے اقدامات کیے گئے ٹیکنالوجی اور اصلاحات کے لحاظ سے معیشت کیسے ترقی کرے گی، عام طبقے تک اس کے ثمرات کیسے پہنچیں گے بجٹ میں ان سوالات کا جواب نہیں ہے۔

صدر کراچی چیمبر آف کامرس جاوید بلوانی نے کہا کہ بجٹ میں صنعتوں کی ترقی اور ایکسپورٹ کے لیے کچھ نہیں کہا گیا، لوگ اپنی بجلی کے کنکشن کروا رہے ہیں، 50 فیصد تنخواہیں بجلی اور ٹرانسپورٹ میں خرچ ہو رہا ہے، مہنگائی کم کرنے کے لیے کیا کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ زراعت صوبوں کی ذمہ داری ہے، اب وفاق کے کنٹرول میں تو پہلے بھی نہیں تھا، کپاس کی پیداوار 90 کی دہائی سے بھی کم ہے، توانائی اور ٹیکس کی لاگت، شرح سود خطے میں سب سے زیادہ ہو تو ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی۔

جاوید بلوانی نے کہا کہ ای ایف ایس اسکیم کی وجہ سے برآمدات میں کچھ اضافہ ہوا، اس کو بھی اب خراب کیا جا رہا ہے جب ایکسپورٹ بڑھتی ہے، حکومت کوئی نہ کوئی اقدام کرکے ایکسپورٹ گرائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل کو وفاقی بجٹ میں نظر انداز کیا گیا، کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے لیے 3.

2 ارب روپے رکھے گئے جو ناکافی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے 50 فیصد کم آبادی والے شہروں کے لیے، کراچی سے زیادہ بجٹ رکھا گیا، ہم نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے بہت سی تجاویز دیں لیکن نہیں مانی گئیں۔

صدر کراچی چیمبر آف کامرس نے کہا کہ بجٹ میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوئی بات نہیں کی گئی، برین ڈرین روکنے کے لیے کچھ نہیں۔

حکومتی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں اضافہ روکا گیا، اسے مائنس میں لانا ضروری ہے، بجٹ کا سب سے بڑا ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں، 38 ارب ڈالر کی ترسیلات شامل کیے بغیر بجٹ بنا کر دکھائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ خوش آئند ہے اس کے ثمرات عوام تک کیسے منتقل ہوں گے۔

سابق صدر انجم نثار نے کہا کہ بجٹ میں روزگار بڑھانے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے، نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کیسے ہوگی، چھوٹے چھوٹے ملکوں کی ایکسپورٹ ہم سے زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کا پہیہ چلنے دیں، کئی سال سے کے فور کا منصوبہ نہیں بن سکا، ماحولیاتی تبدیلیوں کے لیے اربوں ڈالر کا قرضہ لیا جا رہا ہے، اس پر سود کیسے ادا کریں گے، کسٹم تین روز میں کلیرینس نہ ہونے پر پینلٹی کی تجویز غلط ہے۔

سابق بیوروکریٹ محمد یونس ڈھاگا نے کہا کہ بجٹ توقعات کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے، محصولات میں ایک ہزار ارب روپے کی کمی آئی، 3.6 فیصد جی ڈی پی کا ہدف پورا نہ ہوسکا تو 4 فیصد سے زائد کیسے ہوگا، نمو کے ہدف کے لیے کوئی صنعتی پلان نہیں۔

یونس ڈھاگا نے کہا کہ زراعت اور آئی ٹی کی ترقی کا بھی پلان نہیں دیا گیا، ٹیکس اہداف اور جی ڈی پی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔

انہوں نےکہا کہ رئیل اسٹیٹ سے ٹرانزیکشن ٹیکس میں کمی کی گئی، تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا گیا، بجٹ میں ایکسپورٹ کی مد میں ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نے کہا کہ بجٹ میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ بڑھانے کے لیے وفاقی بجٹ سے زیادہ ارب روپے کیا گیا دیا گیا نہیں کی کی گئی کا ہدف

پڑھیں:

کراچی میں ٹریفک چالان سے حاصل رقم صوبے کے زرعی ٹیکس سے بھی زیادہ

سندھ حکومت کے متعارف کرائے گئے ای چالان سسٹم پر تنقید کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ شہریوں کے علاوہ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی اسے شہری عوام کی جیبوں پر غیر ضروری بوجھ ڈالنے کے مترادف قرار دے رہی ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور سینیٹر فیصل سبز واری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اس نظام پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ سندھ کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ ای چالان کا نظام بغیر ضروری اقدامات کے تھوپا گیا، اور صرف تین دن میں ہزاروں چالانز کے ذریعے کروڑوں روپے کے جرمانے عائد کیے گئے۔
فیصل سبز واری نے مزید کہا کہ کراچی کے مقابلے میں لاہور میں سڑکوں کی تعمیر و دیکھ بھال کے نظام اور ڈرائیونگ لائسنس کے حصول میں سختی کے باوجود ای چالان شہریوں کے لیے اضافی بوجھ نہیں بنے۔
سینیٹر نے نشاندہی کی کہ کراچی میں ٹریفک چالان سے حاصل ہونے والی رقم پورے صوبے کے زرعی ٹیکس سے بھی زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کراچی کے انفراسٹرکچر سیس، پراپرٹی ٹیکس، خدمات پر ٹیکس اور دیگر محصولات کا مکمل حصہ شہر کو دیا جائے تو اس سے نہ صرف شہر کی بہتری ہوگی بلکہ شہریوں کا بوجھ بھی کم ہوگا۔

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا: اختیار ولی
  • پاک افغان طورخم بارڈر آج بیسویں روز بھی ہر قسم کی سرگرمیوں کیلئے بند
  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  • شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں
  • وزارت خزانہ کے اہم معاشی اہداف، معاشی شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا امکان
  • پیپلزپارٹی نے کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘پی ٹی آئی
  • پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر
  • کراچی میں ٹریفک چالان سے حاصل رقم صوبے کے زرعی ٹیکس سے بھی زیادہ