دریائے سوات کا سانحہ؛ بارہ انسانوں کی موت کا ذمہ دار کون، وزیراعلیٰ کی کمیٹی تعین نہیں کر سکی
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
سٹی42: خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی صوبائی انسپکشن کمیٹی نے دریائے سوات میں بارہ انسانوں کے ڈوب کر مر جانے کے الم ناک سانحہ کا صوبائی حکومت کے کئی اداروں کو بیک وقت ذمہ دار قرار دے دیا لیکن وزیراعلیٰ کا ہیلی کاپٹر مظلوم سیاحوں کو بچانے کے لئے نہ بھیجنے کا کسی کو ذمہ دار قرار نہیں دیا۔
صوبائی انسپکشن کمیٹی نے دریائے سوات میں سیلاب کے باعث 13 افراد کے ڈوبنے کے واقعے کی 63 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو پیش کی ہے۔ اس رپورٹ میں ضلعی انتظامیہ، محکمہ آبپاشی، بلدیات اور ریسکیو 1122کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ نے "کوتاہی کے مرتکب افراد کے خلاف تادیبی کارروائی" کی منظوری بھی دے دی ہے۔
حفیظ سنٹر لاہور میں فائر ریسکیو آپریشن ؛ سیکرٹری ایمرجنسی سروسز کا فائر فائٹرز کو خراج تحسین
رپورٹ کے مطابق محکمہ پولیس، ریونیو، ایریگیشن، ریسکیو، ٹورازم پولیس اور دیگر محکموں کے درمیان کوآرڈی نیشن کا فقدان رہا جس پر وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ متعلقہ محکمے 60 دنوں کے اندر تمام قانونی لوازمات پوری کرکے تادیبی کارروائیاں کریں۔
اس رپورٹ میں کسی بھی ادارہ کے افراد کی نشان دہی نہین جن کو براہ راست اس سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہو، نہ ہی یہ تعین کیا گیا کہ محکمے ذمہ داروں کو کیا سزائیں دیں گے۔
شکر گڑھ میں درمیانے درجے کا سیلاب، زمینی رابطہ منقطع
دریائے سوات میں پانی کا بہاؤ بڑھ جانے کے وقت ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ سیاح دریا کے ابدر ایک نسبتاً اونچی جگہ پر پھنس گئے تھے اور ایک گھنتے سے زیادہ وقت تک مدد کے لئے چیختے چلاتے رہے تھے، اس دوران دریا میں پانی اتنا بڑھا کہ وہ ٹیلا بھی زیر آب آ گیا جہاں یہ سیاح کھڑے مدد کا انتظار کر رہے تھے، پانی بڑھنے سے وہ سب ایک ایک کر کے بہہ گئے اور ان مین سے 12 ڈوب کر مر گئے تھے۔
سوشل میڈیا پر اور ملک بھر میں شہریوں نے اس سانھہ پر سخت احتجاج کیا تھا اور خیبر پختونخوا کی حکومت کو اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا، وزیر اعلیٰ نے عوامی دباؤ پر ایک انکوائری کمیٹی بنا دی جس نے آج کچھ اداروں کو اس سانھہ کا ذمہ دار قرار دے دیا اور ان ہی اداروں سے کہاکہ وہ اپنے اپنے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف "تادیبی کارروائی" کریں۔
جیل روڈ سے ملحقہ سڑک پر شگاف پڑ گیا ،اتنظامیہ غائب
رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ متعلقہ محکمے اور ادارے 30 دنوں میں ان کوتاہیوں کو دور کریں جن کی وجہ سے یہ سانحہ ہوا۔
چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی، کمیٹی متعلق ماہانہ رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش کرے گی۔ کمیٹی ریور سیفٹی ماڈیولز کو اگلے مون سون ایمرجنسی پلان بنانے، ریسکیو 1122 کی استعداد کو بڑھانے کیلئے منصوبہ پر کام کرے گی۔
رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ دریاؤں کے اطراف سیاحتی مقامات میں درپیش خطرات کی کوئی درجہ بندی نہیں کی گئی۔
اوپن اے آئی کا گوگل سرچ کے مقابلے پر براؤزر لانچ کرنے کا اعلان
اس رپورٹ میں آبی گزر گاہوں پر تعمیرات کو روکنے کا کہا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں دریاؤں کے کنارے تجاوزات کے خلاف آپریشن میں 127 غیر قانونی عمارتوں کو سیل کیا گیا اور682 کنال رقبے پر بنے تعمیرات کو مسمار کیا گیا۔
رپورٹ میں مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کیلئے 36 ریسکیو سٹیشنز کے قیام، ریسکیو کیلئے جدید آلات خریدنے اور 70 کمپیکٹ ریسکیو سٹیشنز کے قیام کی سفارش کی گئی ہے، ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔
اداکارہ حمیرا اصغر کی میت لینے اہل خانہ کراچی پہنچ گئے، قانونی کارروائی جاری
یاد رہے کہ 26 جون کو دریائے سوات میں سیلابی ریلے میں طغیانی کے باعث 17 افراد بہہ گئےتھے جن میں سے 4کوبچالیا گیا تھا جبکہ 12کی لاشیں مل چکی ہیں اور ایک کی لاش تاحال نہ مل سکی۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: دریائے سوات میں کا ذمہ دار وزیر اعلی رپورٹ میں کیا گیا
پڑھیں:
پشاور ہائیکورٹ نے سانحہ دریائے سوات پر تحریری حکم نامہ جاری کر دیا
—فائل فوٹوپشاور ہائی کورٹ نے سانحہ دریائے سوات پر تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے سانحہ دریائے سوات سے متعلق درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے۔
حکم نامے کے مطابق پرونشل انسپکشن ٹیم کے چیئرمین عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ 7 دن میں ابتدائی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے گی۔
عدالت نے سانحے سے متعلق جامع رپورٹ 14 دن کے اندر پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
خیبر پختون خوا کی حکومت کی جانب سے دریائے سوات کے کنارے تجارتی سرگرمیاں بند کر کے افسوسناک واقعے میں مبینہ غفلت برتنے پر 4 افسران کو معطل کر دیا گیا۔
حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عوام کے تحفظ سے متعلق اداروں کے اقدامات کی تفصیلات بھی رپورٹ میں شامل کی جائیں۔
ایڈووکیٹ جنرل کو بھی مکمل اور جامع رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
عدالت نے مون سون بارشوں اور دیگر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرکے رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا۔
عدالت نے سوال کیا کہ دو ہیلی کاپٹرز کی موجودگی کے باوجود ان کا استعمال کیوں نہیں کیا گیا، اس پر سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے رپورٹ طلب کی گئی ہے۔