‌اسلام آباد(نیوز ڈیسک) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سخت نگرانی میں آئندہ مالی سال کے وفاقی ترقیاتی پروگرام میں تقریباً تمام شعبوں کے لیے فنڈز میں کٹوتی کی گئی ہے، تاہم سڑکوں کی تعمیر کے منصوبوں میں اضافے اور ارکان پارلیمنٹ کی اسکیموں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

نجی چینل کی رپورٹ کے مطابق اینول پلاننگ کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) نے ریکارڈ 4 ہزار 83 ارب روپے مالیت کے قومی ترقیاتی پروگرام کی منظوری دی، یہ رقم پنجاب اور سندھ کی معاونت سے ممکن ہوئی، جن کے پاس مرکز کے مقابلے میں زیادہ مالی طاقت ہے، کیوں کہ مرکز مالیاتی خودمختاری، قرضوں کی ادائیگی اور سیکیورٹی ضروریات کی وجہ سے مالی مسائل کا شکار ہے۔

اس خرچ کی بنیاد پر حکومت نے آئندہ سال کے لیے شرح نمو کا ہدف 4.

2 فیصد مقرر کیا ہے، جس میں زرعی پیداوار کا ہدف 4.4 فیصد، صنعت کا 4.3 فیصد اور خدمات کے شعبے کا 4 فیصد رکھا گیا ہے، جب کہ مہنگائی کی شرح 7.5 فیصد مقرر کی گئی ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور ترقیات احسن اقبال کی زیر صدارت اجلاس میں مالی مشکلات پر کھل کر بات کی گئی، اور صوبائی نمائندوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی قیادت کو قائل کریں کہ اب وفاقی فنڈز کا مطالبہ نہ کریں، کیوں کہ ان کے اپنے مالی وسائل خاصے بڑھ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کچھ حدود کا سامنا ہے، لہٰذا اصل چیلنج یہ ہے کہ محدود وسائل سے زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کیے جائیں، تاکہ قومی اقتصادی تبدیلی کے منصوبے ”5Es“ پر مبنی 5 سالہ منصوبہ، اور ’اُڑان پاکستان پروگرام‘ کے اہداف پورے کیے جا سکیں۔

تاہم صوبوں نے عندیہ دیا کہ مرکز اور آئی ایم ایف کے ساتھ قومی مالیاتی معاہدے کے تحت وعدہ کیا گیا سرپلس ممکنہ طور پر فراہم نہیں کر سکیں گے، کیوں کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے 1 ہزار ارب روپے سے زائد کی ریونیو کمی سے ان کے حصے بھی متاثر ہوئے ہیں۔

ان مسائل کے پیش نظر اے پی سی سی نے فیصلہ کیا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل تک مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں کی ڈپارٹمنٹل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹیز (ڈی ڈی ڈبلیو پیز) کی جانب سے نئی ترقیاتی اسکیموں کی منظوری پر مکمل پابندی ہوگی۔

وزارت منصوبہ بندی نے کہا کہ پالیسی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ڈی ڈی ڈبلیو پی سطح کی اسکیموں کی منظوری پر آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل تک پابندی ہو تاکہ توجہ قومی سطح کے بڑے اور غیرملکی امدادی منصوبوں پر مرکوز کی جا سکے، اس اقدام سے مالیاتی نظم و ضبط قائم رہے گا، مستقبل کی مالی ذمہ داریاں کم ہوں گی، اور پانی و ٹرانسپورٹ جیسے اہم شعبوں پر توجہ دی جا سکے گی۔

اجلاس میں کہا گیا کہ اسی لیے حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 880 ارب روپے مختص کیے ہیں، جو رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ ایک ہزار 100 ارب روپے کے مقابلے میں 20 فیصد اور اصل بجٹ ایک ہزار 400 ارب روپے کے مقابلے میں 37 فیصد کم ہے، تاہم حکومت نے پی ایس ڈی پی کا ہدف ایک ہزار ارب روپے رکھا ہے، جس میں وزیراعظم کی جانب سے گزشتہ ماہ نافذ کردہ پیٹرولیم لیوی سے بلوچستان میں این 25 ہائی وے کے لیے 120 ارب روپے بھی شامل کیے گئے ہیں۔

ارکان پارلیمنٹ کیلئے کم رقوم مختص کی گئیں
تمام مشکلات کے باوجود، حکومت نے ارکان پارلیمنٹ کی اسکیموں کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے ہیں، جو رواں مالی سال کے برابر ہے، ضم شدہ اضلاع کے لیے بھی رقم 70 ارب روپے پر برقرار رکھی گئی ہے، صرف ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے کے لیے رقم بڑھا کر 332 ارب روپے کر دی گئی، جو رواں مالی سال 268 ارب روپے تھی۔

دیگر تمام شعبوں، بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جیسے خصوصی علاقوں کے لیے فنڈز کم کیے گئے ہیں۔

انفرااسٹرکچر شعبے کو 644 ارب روپے ملیں گے، جو رواں سال کے 661 ارب سے کم ہیں، توانائی کے شعبے کی مختص رقم 169 ارب سے کم ہو کر 144 ارب روپے کر دی گئی، بھارت کی جارحانہ کارروائیوں کے باوجود پانی کے شعبے کے لیے فنڈز 135 ارب سے کم کرکے 109 ارب روپے کر دیے گئے۔

فزیکل پلاننگ اور ہاؤسنگ کی رقم 89 ارب سے کم کرکے 59 ارب (34 فیصد کم)، سماجی شعبے کو 200 ارب کے بجائے 150 ارب روپے ملیں گے (یعنی 25 فیصد کم) آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے مختص رقم 75 ارب سے کم کرکے 63 ارب روپے (16 فیصد کم) کردی گئی۔

اسی طرح سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے 62 ارب کے بجائے 53 ارب روپے، گورننس سے متعلق منصوبے کے لیے 17 ارب سے کم ہوکر 9 ارب، پیداواری شعبوں کے لیے رقم 15 ارب سے کم کرکے 11 ارب کر دی گئی ہے، زرعی شعبے کی مختص رقم صرف 3 ارب رہ گئی ہے، جو گزشتہ سال 8 ارب تھی۔

صوبوں کے ترقیاتی منصوبے
چاروں صوبے مجموعی طور پر تقریباً 2 ہزار 795 ارب روپے خرچ کریں گے، جن میں پنجاب کا حصہ ایک ہزار 188 ارب، سندھ کا 888 ارب (جو بعد میں 1 ہزار ارب ہو سکتا ہے)، خیبر پختونخوا کا 440 ارب اور بلوچستان کا 280 ارب روپے ہے۔

وفاقی ادارے بھی مجموعی طور پر 288 ارب روپے کی سرمایہ کاری کریں گے، جس سے کل ترقیاتی اخراجات 4 ہزار 83 ارب روپے تک پہنچ جائیں گے، یہ پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 21 فیصد زیادہ ہیں، لیکن اس کا بڑا حصہ صوبوں کے بڑھتے ہوئے بجٹ کی وجہ سے ہے۔

محدود مالی وسائل
وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ محدود مالی وسائل اور مسابقتی ترجیحات کے باوجود حکومت ترقیاتی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے وسائل کی اسٹرٹیجک تقسیم، کارکردگی پر مبنی منصوبہ بندی، اور صوبوں کے ساتھ تعاون بڑھانے پر زور دے رہی ہے، حکومت کا وژن ہے کہ پاکستان کو 2035 تک ایک ہزار ارب ڈالر اور 2047 تک 3 ہزار ارب ڈالر کی معیشت بنایا جائے۔

31 مئی تک ایک ہزار 36 ارب روپے کی منظوری دی گئی، جب کہ 596 ارب روپے خرچ کیے گئے، پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کی مجموعی منظوری شدہ لاگت 13 ہزار 427 ارب روپے ہے، جب کہ مستقبل کی مالی ذمہ داریاں 10 ہزار 216 ارب روپے ہیں، جس کی وجہ سے منصوبوں کو ترجیح دینے کا عمل روکنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

ایک ہزار ارب روپے کے پی ایس ڈی پی میں 270 ارب روپے کی غیرملکی امداد شامل ہے، جس میں دیامر بھاشا ڈیم اور 26-2025 میں حیدرآباد–سکھر موٹروے کی تعمیر کو ترجیح دی گئی ہے۔

وفاقی وزیر احسن اقبال نے کم ترجیحی منصوبوں کے بارے میں کہا کہ حکومت نے ایک ہزار ارب روپے مالیت کے 118 منصوبوں کی نشاندہی کی ہے، جنہیں وسائل کی بچت کے لیے مؤخر یا ختم کیا جا سکتا ہے۔

یو اے ای کا ویزا کیسے حاصل کیا جائے؟ آسان نیا طریقہ سامنے آگیا

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ارب سے کم کرکے ہزار ارب روپے کے مقابلے میں ایک ہزار ارب پی ایس ڈی پی آئی ایم ایف مالی سال کے کی اسکیموں کی منظوری حکومت نے صوبوں کے کے شعبے فیصد کم جو رواں کہا کہ گئی ہے کی گئی کے لیے

پڑھیں:

اگر پاکستان ایشیا کپ سے باہر نکلتا ہے تو ایونٹ کو مالی طور پر کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟

پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاک بھارت میچ کے ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو فی الفور ہٹائے۔ ایسا نہ ہونے پر پاکستان کا ایشیا کپ کے مزید میچز نہ کھیلنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے میچ ریفری کے خلاف آئی سی سی کے ہاں باضابطہ شکایت جمع کرا دی ہے اور ریفری کو فی الفور ہٹانے کا مطالبہ کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اسپورٹس مین شپ نظر انداز: بھارتی کھلاڑیوں کا پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے گریز

یہ تنازعہ اس وقت سامنے آیا جب گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ سے پہلے اور بعد میں انڈین کھلاڑیوں نے پاکستانی ٹیم سے مصافحہ نہیں کیا۔

پاکستان کے ایونٹ کا بائیکاٹ کرنے پر نقصان کا تخمینہ

ایشیا کپ میں بھارت اور پاکستان کے درمیان مقابلے ہمیشہ سے ایونٹ کی سب سے بڑی کشش رہے ہیں، جو نہ صرف کرکٹ بلکہ براہِ راست نشریات، اشتہارات اور اسپانسرشپ کے ذریعے اربوں روپے کی آمدن پیدا کرتے ہیں۔

کرکٹ کی صنعت کے تخمینوں کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں پاک–بھارت میچز سے تقریباً 32 ہزار کروڑ روپے کی آمدن ہوئی ہے۔

رواں سال کے میچ کے لیے بھی اشتہارات کی قیمتیں انتہائی بلند رہیں۔ ٹی وی پر محض 10 سیکنڈ کے اشتہارات تقریباً 50 لاکھ روپے میں فروخت ہوئے جبکہ ڈیجیٹل اسپانسرشپ پیکجز کی مالیت 90 کروڑ روپے تک پہنچی۔

اگر پاکستان ٹورنامنٹ سے دستبردار ہو جائے تو یہ تمام معاہدے خطرے میں پڑ سکتے ہیں اور اسپانسرز و نشریاتی اداروں کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیے: پاک بھارت ٹاکرا: ٹاس کے بعد دونوں کپتانوں نے ہاتھ نہیں ملایا

خود پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے بھی یہ صورتحال خاص طور پر سنگین ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بورڈ رواں مالی سال میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے ریونیو پول سے 880 کروڑ روپے حاصل کرنے کی توقع کر رہا ہے جس میں سے صرف ایشیا کپ سے 116 کروڑ روپے کی آمدن متوقع ہے۔

اگر پاکستان ایونٹ سے الگ ہو جائے تو یہ رقم بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی عدم شمولیت سے نہ صرف ایشیا کپ کی کمرشل ویلیو بری طرح متاثر ہوگی بلکہ ٹورنامنٹ کے نشریاتی معاہدے، اسپانسرشپ اور ٹکٹوں کی فروخت بھی زبردست دباؤ کا شکار ہو جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے: ایشیا کپ: پاک بھارت میچ میں تنازعہ کا شکار ہونے والے میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کون ہیں؟

بھارت–پاکستان میچز کے بغیر ایونٹ کی ناظرین کے لیے کشش کم ہو جائے گی جس کے نتیجے میں اربوں روپے کا نقصان ہوسکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بائیکاٹ کے رجحانات برقرار رہے تو مستقبل میں منتظمین کو پاک–بھارت میچز کے شیڈول پر دوبارہ غور کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ یہ مقابلے اب صرف کھیل نہیں رہے بلکہ سیاسی کشیدگی اور خطے کی صورتحال سے براہِ راست جُڑ چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاک انڈیا میچ ٹکٹ کرکٹ نقصان

متعلقہ مضامین

  • ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں مالی سال 9.9فیصد اضافہ
  • معاشی بہتری کے حکومتی دعووں کی قلعی کھل گئی
  • ای بائیکس رجسٹریشن میں نمایاں اضافہ
  • حکومت کا 2600 ارب کے قرضے قبل از وقت واپس اور سود میں 850 ارب کی بچت کا دعویٰ
  • مالی سال 2025 میں وفاقی خسارہ کم ہو کر 7.1 ٹریلین روپے رہا، وزارت خزانہ کا دعویٰ
  • اگر پاکستان ایشیا کپ سے باہر نکلتا ہے تو ایونٹ کو مالی طور پر کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟
  • محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ خیبر پختونخوا میں کروڑوں کی بےقاعدگیوں کا انکشاف
  • وفاق کےملازمین کے بچوں کیلئے مالی سال 26-2025کے وظیفہ ایوارڈز کا اعلان
  • سیلاب مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ‘ سٹیٹ بنک : شرح سود 11فیصدبرقرار
  • سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک