1000 ارب روپے کا وفاقی ترقیاتی بجٹ منظور، معاشی ترقی کا ہدف 4.2 فیصد مقرر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
اسلام آباد:
سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی نے آئندہ مالی سال2025-26 کیلیے1000ارب روپے مالیت کے وفاقی ترقیاتی بجٹ، معاشی ترقی کا ہدف4.2 فیصد مقرر کرنے اور دیگر اہم معاشی اہداف کی منظوری دیدی ہے۔
اب رواں ہفتے ہی وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونیوالے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں پی ایس ڈی پی کو حتمی منظوری کیلیے پیش کیا جائیگا جس کے بعد یہ وفاقی بجٹ کے ساتھ پارلیمنٹ میں پیش ہوگا۔
وفاقی وزیر احسن اقبال کی زیرِ صدارت سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اے پی سی سی نے مجموعی طور پر4.
تاہم وسائل کی شدید قلت کے باوجود سندھ حکومت نے وفاقی ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) سے 86 ارب روپے کا حصہ حاصل کر لیا۔ ایک وفاقی وزیر کے مطابق پیپلز پارٹی نے حکومت کی اتحادی ہونے کا فائدہ اٹھایا، جس کی حکومت کو بجٹ کی منظوری کیلئے حمایت درکار ہے۔
بھارت کی جانب سے پانی بند کرنے کی دھمکی کے باوجود حکومت نے پانی کے شعبے کا بجٹ 45 فیصد یا 119 ارب روپے کم کر کے محض 140 ارب روپے تجویز کیا ہے۔ برآمدات کا ہدف 35 ارب ڈالر اور بیرونِ ملک پاکستانیوں سے 39 ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر کی توقع ہے۔
ذرائع کے مطابق ترقیاتی منصوبوں پر ایک ہزار ارب روپے خرچ کرنے کا پلان ہے۔ رواں مالی سال کے مقابلے میں صوبے609 ارب روپے زیادہ خرچ کریں گے۔ وفاقی حکومت ترقیاتی منصوبوں کیلئے بیرون ملک سے270 ارب قرض لے گی اس کے علاوہ چاروں صوبے بھی802ارب روپے کا بیرونی قرضہ لیں گے۔ پنجاب حکومت ترقیاتی منصوبوں پر1190 ارب خرچ کریگی۔
سندھ حکومت نے887ارب روپے کا ترقیاتی پروگرام تیارکیا ہے، خیبرپختونخوا کی جانب سے 440 ارب روپے خرچ کرنے کا پلان ہے جبکہ بلوچستان حکومت اگلے سال ترقیاتی منصوبوں پر280ارب خرچ کریگی۔ آئندہ مالی سال کیلئے معاشی شرح نمو کا ہدف4.2 فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ رواں سال معاشی شرح نمو3.6فیصد ہدف کے مقابلے2.68 فیصد رہی،آئندہ مالی سال میں مہنگائی کا ہدف7.5فیصدمقررکرنے کی تجویز ہے، زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 4.5 فیصد رکھا جائے گا، گندم، چاول سمیت اہم فصلوں کا ہدف6.7 فیصد مقرر کرنیکی تجویز ہے اسی طرح کاٹن جننگ کا ہدف سات فیصد، لائیوسٹاک ہدف 4.2 فیصد مقرر ہونے کا امکان ہے۔
صنعتی شعبے کا ہدف4.4فیصد،بڑی صنعتوں کا ہدف3.5فیصد،کان کنی کا ٹارگٹ 3فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔ بجلی، گیس اور پانی سپلائی کا ہدف3.5فیصد مقرر کئے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ آئندہ سال تعمیراتی شعبے کا گروتھ ریٹ3.8فیصد، شعبہ خدمات کی ترقی کا ہدف 4فیصد، قومی بچت کا 14.3 فیصد،سرمایہ کاری بہ لحاظ جی ڈی پی14.7 فیصد، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف0.4فیصد رکھا جائیگا۔
پبلک انویسٹمنٹ ہدف3.2 اور نجی سرمایہ کاری کا ہدف 9.8 فیصد ہوگا۔ ذرائع کے مطابق این ایچ اے کو آئندہ مالی سال228ارب، پاور ڈویژن کو 104ارب، واٹر ریسورسز ڈویژن کو140ارب، سپارکو کو24ارب،کیبنٹ ڈویژن کو50ارب33کروڑ روپے ملیں گے۔ صوبوں اور سپیشل ایریاز کیلئے245 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، صوبائی نوعیت کے منصوبوں پر 93ارب44کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے۔
انضمام شدہ اضلاع کیلئے70ارب روپے سے زائد مختص کئے جانے کی تجویز ہے، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے82ارب، فیڈرل ایجوکیشن اور پروفیشنل ٹریننگ کیلئے19ارب، ڈیفنس ڈویژن کیلئے11 ارب مختص کئے گئے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو42ارب روپے، ریلوے ڈویژن کو24ارب، پلاننگ ڈویلپمنٹ کو12ارب روپے ملیں گے، نیشنل ہیلتھ کو12ارب روپے ترقیاتی فنڈز کی مد میں ملیں گے جبکہ وزارت داخلہ کو10ارب 90 کروڑ، وزارت اطلاعات کو 4 ارب 33 کروڑ ملیں گے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہمار ے آدھے اخراجات قرضوں کی ادائیگی میں جا رہے ہیں، بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں سے ترقیاتی بجٹ سکڑ رہا ہے، ہمیں گھمبیر صورتحال کا حل تلاش کرنا ہے، قومی سطح پر ریونیو میں اضافہ کرنا ہو گا، پائیدار ترقی کیلئے پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے، پاکستان دنیا میں سب سے کم ٹیکس اکٹھا کرنیوالے ممالک میں شامل ہے، حکومت ٹیکس چوروں کا پیچھا کر رہی ہے۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کیلئے ایک ہزار ارب روپے سے زائد مختص ہوں گے، بلوچستان کو250 ارب روپے دیئے جائیں گے، ترقیاتی بجٹ کی رقم رواں سال کے مقابلے میں100ارب روپے کم ہے۔ قومی نوعیت کے حامل اور پانی کے منصوبوں کو ترجیح دی جائیگی، بھارت کی دھمکیوں کے بعد دیامر بھاشا ڈیم کی جلد تعمیر لازم ہوگئی ہے، قراقرم ہائی وے فیز ٹو کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں گے، این 25 کراچی کوئٹہ چمن شاہراہ کی تعمیر کی جائے گی، حیدر آباد سکھر موٹروے بھی ترجیحات میں شامل ہے۔
نصف سے زائد بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں جائیگا،118سے زائد غیر ضروری منصوبے بندکئے ہیں۔ احسن اقبال نے کہا صوبائی نوعیت کے منصوبے اب صوبے خود مکمل کریں، اٹھارویں ترمیم کے باوجود وفاق صوبائی حکومتوں کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مدد کرتا آ رہا ہے۔
صوبوں کے پاس وسائل وفاق سے کہیں زیادہ ہیں، وفاقی منصوبوں کو قومی مفاد میں ترجیح دی جائے۔ اگر کوئی منصوبہ شامل نہ ہو سکا تو پیشگی معذرت، 1000 ارب کے اندر تمام وزارتوں کے منصوبے شامل کرنا مشکل تھا۔ ترقی کیلئے بجٹ کی فراہمی کم ہورہی ہے، ہماری آبادی بڑھ رہی ہے۔
ٹیکس چوری روکنے کیلئے ہرشہری کوچوکیداربن کرکھڑا ہونا ہوگا۔ احسن اقبال نے کہا ترقیاتی بجٹ میں کمی سے ملکی معاشی ترقی اور سٹریٹجک منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔ وفاقی پی ایس ڈی پی میں 120 ارب روپے کوئٹہ چمن کراچی (این 25) ایکسپریس وے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
120 ارب روپے کی این-25 کے لیے مخصوص رقم نکال کر باقی 880 ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لیے ناکافی ہیں اور یہ مستقبل کی ترقی کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ پانی کا شعبہ حکومت کی ترجیح ہے، مگر موجودہ وسائل کے ساتھ دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل میں 20 سال لگ سکتے ہیں۔
حکومت کوشش کرے گی کہ یہ منصوبہ اگلے 3 سے 4 سالوں میں مکمل کیا جا سکے۔ اے پی سی سی کے ورکنگ پیپر کے مطابق رواں سال کے مقابلے میں مجموعی ترقیاتی بجٹ میں 300 ارب یا 8 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ چاروں صوبے اپنی سطح پر 28 فیصد زیادہ اخراجات کریں گے۔
وفاقی ترقیاتی بجٹ1 ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 400 ارب روپے کم ہے۔ اس میں سے 270 ارب روپے بیرونِ ملک سے قرض لے کر پورے کیے جائیں گے۔پنجاب سب سے زیادہ 1.19 ہزار ارب روپے خرچ کرے گا، جو پچھلے بجٹ سے 41 فیصد زیادہ ہے۔ خیبر پختونخوا 440 ارب روپے خرچ کرے گا (اضافہ 63 فیصد)، سندھ 887 ارب روپے (اضافہ 7 فیصد)، اور بلوچستان 280 ارب روپے (اضافہ 32 ارب روپے)۔کے پی کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے شکایت کی کہ وفاق نے کے پی کے لیے صرف 3 ارب روپے رکھے جبکہ سندھ کو 47 ارب روپے دیے گئے۔
پنجاب کو بھی وفاق کی جانب سے صرف 15 ارب روپے ملے۔ احسن اقبال نے جواباً کہا کہ ضم شدہ اضلاع کے لیے 70 ارب روپے بھی خیبر پختونخوا کو دیے جا رہے ہیں، اور یہ پالیسی کے مطابق ہے کہ وفاق صوبائی نوعیت کے منصوبوں پر کم خرچ کرے گا۔اے پی سی سی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ مالی سال میں کوئی نیا صوبائی نوعیت کا منصوبہ پی ایس ڈی پی میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
1 ارب روپے تک کے منصوبے بھی آئی ایم ایف پروگرام مکمل ہونے تک منظور نہیں کیے جائیں گے۔باوجود مالی مشکلات کے، اب بھی 30 تا 40 فیصد پی ایس ڈی پی صوبائی نوعیت کے منصوبوں پر خرچ ہوتی ہے، جس سے قومی سطح کے اہم منصوبے متاثر ہو رہے ہیں۔
بجلی کے شعبے کا بجٹ 41 فیصد یا 72 ارب روپے کم کر کے 104 ارب روپے کیا گیا ہے۔ وفاقی وزارت تعلیم کا بجٹ 27 فیصد کمی کے بعد 20 ارب روپے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ 32 فیصد یا 21 ارب روپے کمی کے بعد 45 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ، ارکانِ پارلیمنٹ کے ترقیاتی اسکیموں کے لیے 50 ارب روپے کا فنڈ ایس ڈی جیز پروگرام کے تحت برقرار رکھا گیا ہے۔احسن اقبال نے بتایا کہ وزارت نے 183 منصوبوں کی نشاندہی کی ہے جو تاخیر کا شکار ہیں، جنہیں جون 2025 تک بند یا محدود کرنیکی سفارش کی گئی ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سال کے مقابلے میں ترقیاتی منصوبوں صوبائی نوعیت کے آئندہ مالی سال وفاقی ترقیاتی احسن اقبال نے ہزار ارب روپے کیے جائیں گے ارب روپے خرچ پی ایس ڈی پی ترقیاتی بجٹ ترقی کا ہدف ارب روپے کم کی تجویز ہے ارب روپے کا کے منصوبوں فیصد مقرر ڈویژن کو کے مطابق ملیں گے شعبے کا کے لیے کا بجٹ کے بعد بجٹ کی گیا ہے
پڑھیں:
صوبوں کے وسائل وفاق سے زیادہ، وفاقی منصوبے ترجیحی مکمل کیے جائیں گے، احسن اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ صوبوں کے پاس مالی وسائل وفاق کی نسبت کہیں زیادہ ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ وفاقی منصوبوں کو قومی مفاد کے پیش نظر ترجیح دی جائے اور انہیں بروقت مکمل کیا جائے۔
وفاقی وزیر نے یہ بات اے پی سی سی کے اجلاس کی صدارت کے دوران کہی، جس میں وفاقی سیکریٹریز، اسٹیٹ بینک، صوبائی حکومتوں کے نمائندے اور دیگر اہم حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملکی معاشی صورتحال اور ترقیاتی بجٹ پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
احسن اقبال نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں کمی اور قرضوں کی ادائیگی کے بوجھ کے باوجود قومی ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کو اولین ترجیح دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کو اپنے ترقیاتی منصوبے خود مکمل کرنے چاہئیں اور وفاقی حکومت اپنے وسائل صوبوں کی مدد کے لیے استعمال کرتی رہے گی۔
مزید پڑھیں: ورلڈ بینک کے منصوبوں پر بلوچستان کے تحفظات دور کریں گے، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی یقین دہانی
انہوں نے کہا کہ دیا میر بھاشا ڈیم، سکھر-حیدرآباد موٹر وے، چمن روڈ، اور قراقرم ہائی وے جیسے قومی سٹریٹجک منصوبے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیے جائیں گے تاکہ ملکی ترقی کو فروغ ملے۔
وفاقی وزیر نے ٹیکس نیٹ بڑھانے، ٹیکس چوری روکنے، اور آمدنی کے ذرائع کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی ترقی کے لیے تمام ادارے اور صوبے قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ کو محدود کرنے کے باوجود حکومت نے اہم اور قابل عمل منصوبوں کو ترجیح دی ہے تاکہ عوام کو بہتر صحت، پانی، بجلی اور انفراسٹرکچر کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ وفاق اور صوبوں کو مل کر قومی ترقی کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی، اور ایسے مشکل وقت میں قومی مفاد کو فوقیت دینی ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احسن اقبال اسٹیٹ بینک، اے پی سی سی وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی