Express News:
2025-06-12@09:21:14 GMT

شملہ معاہدہ کی اہمیت و افادیت

اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پچھلے دنوں شملہ معاہدے کے غیر فعال ہونے پر ایک ایسا بیان دیا جس پر ہمارے یہاں بہت سے تبصرہ نگاروں نے انھیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ موصوف نے شملہ معاہدے کے متعلق صرف اتنا کہا کہ اس معاہدہ کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی اور لائن آف کنٹرول اب سیز فائر لائن ہوچکی ہے۔

ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدہ پر وہی کچھ اپلائی ہوگا جو سندھ طاس معاہدہ پر ہوگا۔ دیکھا جائے تو یہ ایک حقیقت پسندانہ بیان تھا جسے ہمیں زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھنا چاہیے تھا، مگر تنقید کرنے والوں نے حسب دستور اپنا فرض نبھایا اور بیان کی گہرائی میں جائے بغیر خواجہ آصف کی زبانی خوب عزت افزائی کی۔ دیکھا جائے تو ان کا یہ بیان کوئی غیر ذمے دارانہ ہرگز نہیں تھا۔ پچاس سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اس معاہدہ کو معرض وجود میں آئے ہوئے۔

اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ازخود بھارت جانے کا فیصلہ کیا اور اندرا گاندھی کو ایک ایسے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کے لیے راضی اور مجبور کردیا جس کے ذریعے ہمارے قیدیوں کی باعزت رہائی اور واپسی ممکن ہوپائی۔

جواب میں ہمیں اپنے اس مؤقف سے پیچھے ہٹنا پڑا جس پر ہم کئی دہائیوں سے ڈٹے ہوئے تھے یعنی کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی منظور شدہ اس قرارداد سے پیچھے ہٹنا پڑا جس کے تحت کشمیر کا مسئلہ وہاں کے لوگوں کے حق خود ارادی سے حل کیا جانا تھا، مگر شملہ معاہد ے میں اس کا کوئی ذکر نہیں شامل کیا گیا بلکہ یہ کہا گیا کہ اب یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان باہم ملکر بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔

یہ طے ہونا یقینا بھارت کے لیے بہت ہی خوش آیند اور ایک اور بڑی کامیابی تھی، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ حق خود ارادی یا خود اختیاری کے ذریعے اگر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی گئی تو اُسے یقینا شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ معاہدہ اس کے لیے ایک بڑی نعمت ثابت ہوا اورجس کے بعد پاکستان اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جانے کے قابل نہیں رہا۔

پاکستانی عوام نے اس شملہ معاہدہ کو اس وقت اس لیے قبول اور منظور کرلیا کیونکہ پاکستان اس وقت سقوط ڈھاکا کے بعد اس پوزیشن میں ہرگز نہ تھا کہ اپنی مرضی چلاسکے۔ ہمیں اپنے 90 ہزار قیدیوں کی رہائی چاہیے تھی اور ہمارے جن علاقوں پر بھارت قابض ہوچکا تھا انھیں اس سے آزاد کروانا بھی مقصود تھا۔ لٰہذا پوری قوم نے اس معاہدے کو طوعا وکرہاً قبول کرلیا۔ ہم اگر اپنے سخت مؤقف پر اس وقت ڈٹے رہتے تو شاید مزید پریشانیوں میں الجھ جاتے ، مگر وقت گزرتا رہا اور بھارت ہمارے سروں پر سوار ہوتا رہا۔ وہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے انکار کرتا رہا اور شملہ معاہدے کے مطابق باہم مل جل کر بھی حل کرنے پر رضامند نہ ہوا۔

وہ اپنی من مانیاں کرتا رہا اور ہمیں ہر طرح سے اپنے دباؤ میں لانے کی کوششیں کرتا رہا۔ 1974 میں اس نے ایٹمی دھماکے کرکے خود کو ہماری نسبت مزید طاقتور ثابت کرکے عالمی طاقت کا روپ دھار لیا۔ ہم اس وقت اس پوزیشن میں ہرگز نہ تھے کہ اسے کشمیر کے حل پر راضی کرپائیں۔ ہم خاموش رہے اور یہ مسئلہ آج تک حل نہ ہوسکا۔

ہم شملہ معاہدے کے تحت اس مسئلے کو یو این او میں بھی دوبارہ نہیں لے جاسکتے تھے اور بھارت کو بھی مجبور نہ کرسکے کہ وہ اس معاہدہ کے تحت ہی اس مسئلہ کو حل کردے۔ بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹا رہا اور پچاس برس تک ٹال مٹول کرتا رہا۔ وہ نہ باہم مل جل کراس مسئلہ کو حل کرنے پر راضی ہوا اور نہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیریوں کے حق خود اختیاری کے لیے رضامند ہوا۔

 2019 میں تو اس نے اپنے دستور میں ترمیم کرکے کشمیر کی حیثیت ہی بدل ڈالی اور اسے اپنے ملک کا ایک حصہ قرار دے دیا۔ اب پاکستان کے پاس کون سا آپشن باقی رہ گیا۔ بھارت نہ یو این اور کے قرارداد کے مطابق اس کا حل تلاش کرنا چاہتا تھا اور نہ شملہ معاہدہ کے تحت۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے محاورے پر عمل کرتے ہوئے وہ اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینا چاہتا تھا اور اب بھی یہی چاہ رہا ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نہ اس مسئلہ کو شملہ معاہدے کے تحت حل کروا سکے اور نہ یو این او کی منظور شدہ قرارداد کے مطابق۔ ہماری مجبوری ہماری کمزوری بن گئی۔

کیونکہ بھار ت ہمارے مقابلے میں ایک بہت بڑا ملک ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی معیشت بھی بن چکا ہے۔ ہمیں اس کے ہم پلہ بننے میں ابھی بہت وقت درکار ہے۔ دفاعی لحاظ سے تو ہم نے اس وقت برتری حاصل کرلی ہے لیکن معاشی طور پر ہم ابھی اس سے بہت پیچھے ہیں، دنیا اس وقت مفادات کی غلام بنی ہوئی ہے ۔ وہ اس ملک کے خلاف ہرگز نہیں جاسکتی ہے جس سے اس کے مالی اور تجارتی معاملات جڑے ہوئے ہیں۔

ہم بھی دنیا کی ایک بڑی معیشت بن سکتے تھے اگر ہم سن ساٹھ والی دہائی کو تسلسل دے رہے ہوتے ۔ اس وقت ہم بھارت سے بہت آگے نکل چکے تھے اور دنیا کے بہت سے ملک ہماری معاشی پالیسیوں سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ وہ انھیں اپنے یہاں بھی اپنانا چاہ رہے تھے، مگر ہمیں اپنے لوگوں نے ہی برباد کرکے رکھ دیا۔ وہ دن ہے اورآج کا دن ہم ابھی تک اپنی معیشت سدھارنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

 بھارت کو ہم فی الحال کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے مجبور نہیں کرسکتے ہیں لیکن جس طرح اس نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کردیا ہے ہم بھی شملہ معاہدہ کی پابندیوں سے باہر نکل سکتے ہیں۔ شملہ معاہدہ ابھی صرف کاغذوں تک ہی محدود رہ گیا ہے۔ اس کی کسی شق پر بھی عمل نہیں ہو پارہا اور نہ آیندہ اس کی کوئی امید ہے تو پھر ہم اگر اس سے لاتعلق ہوجائیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے ساتھ تو دیگر ممالک بھی دستخط کنندہ ہیں جب کہ شملہ معاہدہ میں تو صرف ہم دو ملک ہی شامل ہیں۔ جب ایک فریق اس پر عمل درآمد سے انکاری ہے تو پھر ایسی صورت میں دوسرا فریق کیا کرے ۔

خواجہ آصف کے بیان پر تنقید کرنے کے بجائے ہمیں اس معاہدہ کی حالیہ حیثیت پر غور کرنا ہوگا۔ صرف آنکھیں بند کرکے اس معاہدے کو سینے سے لگا کر رکھنے کا اگر کوئی فائدہ باقی ہے تو بتایا جائے۔ پچاس سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اور شاید مزید پچاس سال اور گزر جائیںگے، مگر ہم کیا اس معاہدہ کو یونہی ایک مقدس معاہدہ سمجھ کر وقت ضایع کرتے رہیںگے۔ تنقید کرنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ ہمیں اس پر مکمل عملدرآمد کا طریقہ بھی بتادیں۔ کیا بھارت مسئلہ کشمیر پرکوئی بات سننے کے لیے راضی ہے، وہ جب خود ہی اس مسئلہ کے باہمی حل سے گریزاں ہے تو ہمیں اس سے چھٹکارا حاصل کرکے دوبارہ اقوام متحدہ سے رجوع کرنے میں کیا قباحت ہے۔

ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان کو لے کر جس میں انھوں نے مسئلہ کشمیر کے لیے ثالثی کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہے عالمی فورم پراٹھا کر بھارت کو بات چیت کی میز پرلانے کی کوشش کرنی چاہیے، بھارت کسی اور ملک کی ثالثی سے جتنا دور بھاگتا ہے ہمیں اتنا ہی اسے مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کے حل کے لیے کسی بھی غیر جانبدار ملک کی ثالثی کو قبول کرلے ۔ وہ اس وقت سفارتی محاذ پر بہت دباؤ میں ہے ہمیں اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر مزید دباؤ بڑھانا چاہیے، یہ ایک سنہری موقعہ ہے ۔ دیر کردی تو پھر یہ موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شملہ معاہدے کے شملہ معاہدہ اقوام متحدہ اس معاہدے معاہدہ کی اس معاہدہ کرتا رہا کے مطابق اس مسئلہ کشمیر کے رہا اور اور نہ کے تحت کے لیے

پڑھیں:

صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی خواہش کیا کسی بڑی پیشرفت کا پیش خیمہ ہے؟

گزشتہ روز امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ٹیمی بروس نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی کوشش کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں، امریکا کا عندیہ

انہوں نے کہا کہ اس بارے میں ان کے ذہن میں کیا ہے اس پر بات تو نہیں کر سکتے لیکن ان کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات نسلوں پر محیط مسائل کو ختم کر رہے ہیں۔ وہ کئی ایسے تنازعات کو مذاکرات کی میز پر لے کر آئے ہیں جن کے بارے میں کئی لوگ سوچتے تھے کہ یہ ناممکن ہے۔ میڈیا بریفنگ میں ٹیمی بروس نے پاکستان اور بھارت کے سفارتی وفود کی امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ عہدیداران سے ملاقاتوں پر بھی بات کی۔

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا یہ بیان اور صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کا حل کیے جانے سے متعلق امریکی صدر کا بار بار اعادہ کرنا جہاں اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے وہیں بھارت کے اس مؤقف کی نفی بھی ہوتی ہے جس میں وہ کشمیر پر ہر قسم کی ثالثی سے انکار کرتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بھاری بھر کم بھارتی سفارتی وفد کے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے بعد بھی امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس طرح کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کے سفارتی وفد کو مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کے بیان سے ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ دنیا اب یہ تسلیم کرنا شروع ہو گئی ہے کہ برصغیر کا امن مسئلہ کشمیر سے وابستہ ہے اور اس کو حل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ وہیں عالمی سطح پر یہ اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ کشمیر کا مسئلہ 2 جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھا کر عالمی امن کے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

سفارتی ماہرین کی رائے میں صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کا بار بار اعادہ پاکستان کی سفارتی کامیابی اور سفارتی مؤقف کی جیت ہے۔

مسئلہ کشمیر کی اہمیت کا اعتراف حوصلہ افزا ہے، ایمبیسیڈر عبدالباسط

پاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار ایمبیسیڈر عبدالباسط نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر کو بطور بنیادی مسئلہ یا تنازعات کی جڑ تسلیم کیا جانا ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ مسئلہ کشمیر سے ہٹ کر باقی تمام مسائل فروعی نوعیت کے ہیں۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ بھارت امریکا کی اس پیشکش کو دانشمندانہ طریقے سے قبول کرے کیونکہ جنوبی ایشیا کے پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر، منصفانہ بنیادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے۔

امریکی صدر کی جانب سے مسئلہ کشمیر کا اعادہ اس مسئلے بارے ان کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے، ایمبیسیڈر مسعود خان

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب ایمبیسیڈر مسعود خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری نظر میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایسا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے، یہ مسئلہ کشمیر کو لے کر امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے اور اس عزم کو بھی کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرانا چاہتے ہیں اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے عہد صدارت کے دوران اس مسئلے کے بارے میں پیشرفت کریں گے۔

مزید پڑھیے: خطے میں امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، وزیراعظم شہباز شریف

انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مختلف مسائل کے حل کے بارے میں غیر روایتی نقطہ نظر رکھتے ہیں اور ایسی ملاقاتیں کرائی ہیں جو ناممکن نظر آتی تھیں اور ایسے مسائل پر بات چیت بھی ہوئی جو لاینحل نظر آتے تھے۔

مثال کے طور پر ٹیرف کے مسئلے پر چین سے مذاکرات، یوکرین مسئلے کے حل کے لیے غیر روایتی طریقہ کار اور حالیہ پاک بھارت جنگ بندی کے معاملے پر انہوں نے مروّجہ طریقہ کار سے ذرا مختلف طریقے سے بات چیت کی۔

10 مئی کو جب صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بندی کا اعلان کیا تو اُنہوں نے اس وقت 3 باتیں کیں۔ ایک انہوں نے پاکستان اور بھارت کو مبارکباد دی، دوسرے اُنہوں نے دونوں ملکوں کے ساتھ تجارت بڑھانے کی بات چیت کی اور تیسرے نمبر پر انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی۔ امریکی صدر کے اس بیان کے بعد قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ آیا صدر ٹرمپ اپنے اس وعدے پر قائم رہ سکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن اُن کی طرف سے مسلسل یہ بیانات آنا اور پھر گزشتہ روز کا بیان ایک اہم پیش رفت ہے جو امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔

کشمیر کا پاکستان اور بھارت کے مابین مرکزی تنازع کے طور پر تسلیم ہونا ایک بڑی پیش رفت ہے، ایمبیسیڈر مسعود خالد

پاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ فوجی کشیدگی کے دوران جب دونوں ملکوں کے بیچ امریکی وساطت سے بات چیت کا آغاز ہوا تو پاکستان کا مؤقف بھی واشنگٹن پہنچا اور امریکی صدر کی جانب سے بار بار مسئلہ کشمیر کے حل کا اعادہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ہماری سفارتکارانہ کوششیں شامل ہیں جس کی وجہ امریکہ کو بھی یہ احساس ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کا مسئلہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں یہ ہماری سفارتی جیت ہے وہیں یہ ہماری سفارتکاری کا امتحان بھی ہے کہ ہم اپنے مؤقف کو کتنی مضبوطی کے ساتھ بیان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔پاک بھارت جنگ کے دوران اور بعد میں سفارتکاری تو دونوں ملکوں کی جانب سے جاری ہے لیکن کون ملک اس وقت اس سفارتی دباؤ کو برقرار رکھ سکتا ہے یہ اصل چیز ہے۔

ایمبیسیڈر مسعود خالد نے کہا کہ 10 مئی کو جنگ بندی کے بعد سے امریکی صدر کئی بار یہ دہرا چُکے ہیں کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لئے تیار ہیں جو ایک خوش آئند پیش رفت ہے اور دنیا کی جانب سے کشمیر کو ایک مرکزی تنازعے کے طور پر تسلیم کیا جانا بھی ایک بڑی پیشرفت ہے۔ اس واقعے کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر سے عالمی طور پر ایک بڑے مسئلے کے طور پر اجاگر ہوا ہے۔ لیکن بھارت کی جانب سے مسلسل ایسے جارحانہ بیانات آ رہے ہیں جو صورتحال کو مزید کشیدہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی تمام کوششوں کو مسترد کر دیا جاتا ہے تو یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا اس مسئلے پر پیش رفت ہو پائے گی یا نہیں اور بعض چیزیں جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ صدر ٹرمپ نے بیان دیا کہ وہ یوکرین کے مسئلے کو 24 گھنٹے میں حل کر سکتے ہیں لیکن ابھی تک وہاں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے بھارت کے 6 جہاز گرائے، جب بھی بات ہوگی مسئلہ کشمیر پر ہوگی، ترجمان دفتر خارجہ

اس سب کے باوجود صدر ٹرمپ کی جانب سے بار بار مسئلہ کشمیر کا حل کیا جانا اس مسئلے کی حساسیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت پاک بھارت کشیدگی پاکستان ٹرمپ اور مسئلہ کشمیر صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر

متعلقہ مضامین

  • امن کے لیے امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی مذاکرات کی میز پر لانا پڑا تو وہ لائے گا‘ بلاول
  • امریکہ بھارت کو کان سے پکڑ کر بات چیت کیلئے لائے، دنیا کے مفاد میں ہو گا: بلاول
  • صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی خواہش کیا کسی بڑی پیشرفت کا پیش خیمہ ہے؟
  • امریکا عالمی مفاد میں بھارت کو گھسیٹ کر مذاکرات پر لائے، بلاول
  • ’بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے بعد پاک-افغان سفارتی تعلقات میں بہتری انتہائی اہمیت کی حامل ہے
  • مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل نہ ہوا تو خطہ ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے: سلیم بٹ
  • بھارت کو بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلان جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • بلاول بھٹو: بھارت سے مسائل کا واحد حل مسئلہ کشمیر کا حل ہے