قرآن کریم اور رمضان المبارک کی برکات
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
رمضان المبارک کی برکات میں سے صرف اس ایک برکت کی وسعت اور تنوع پر غور کر لیا جائے تو ایمان تازہ ہو جاتا ہے کہ اس کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں کا تعلق قرآن کریم کے ساتھ قائم ہے اور ہر سال اس کی تجدید ہوجاتی ہے۔ بلکہ اس صورتحال کی یہ تعبیر بھی نامناسب نہیں ہوگی کہ ہماری سال بھر کی غفلتوں، بے پروائیوں اور کوتاہیوں کے بعد اللہ تعالیٰ رمضان المبارک میں ہمیں پھر سے قرآن کریم کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور ہماری بیٹریاں اپنی اپنی گنجائش کے مطابق چارج ہوجاتی ہیں۔ قرآن کریم کے ساتھ ہم جس قدر عقیدت کا اظہار کریں کم ہے۔ کیونکہ وہ ہمارے لیے ہدایت اور رہنمائی کا سرچشمہ تو ہے ہی، ہماری وحدت اور ہم آہنگی کا بھی سب بڑا ذریعہ ہے، لیکن میں اس سے ہٹ کر ایک اور پہلو سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم تو قرآن کریم کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں اور مختلف حوالوں سے اپنے تعلق اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ خود قرآن کریم ہمارے بارے میں کیا کہتا ہے اور وہ ہمیں کس نظر سے دیکھتا ہے؟ اس سلسلہ میں سورۃ الفاطر کی آیت نمبر ۲۳ آپ کے سامنے تلاوت کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے دو باتیں فرمائی ہیں:
ایک یہ کہ جن لوگوں کو ہم نے قرآن کریم کا وارث بنایا ہے ان کا انتخاب ہم نے خود کیا ہے،
اور دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کریم کے وارث ہیں وہ تینوں درجوں پر ہیں۔ ایک طبقہ ان میں ظالم ہے، دوسرا مقتصد ہے اور تیسرا سابق بالخیرات ہے۔
قرآن کریم کے وارث کون ہیں؟ اس سلسلہ میں مفسرین کرام دو باتیں فرماتے ہیں اور دونوں اپنے اپنے درجے میں درست ہیں:
ایک یہ کہ پوری امت بحیثیت امت قرآن کریم کی وارث ہے، اور اس میں شبہ کی کوئی بات نہیں کہ اقوام عالم کے تناظر میں دیکھا جائے تو امت محمدیہ ہی قرآن کریم کی وارث کہلائے گی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ قرآن کریم کے وارث وہ لوگ ہیں جن کا قرآن کریم کے ساتھ کوئی نہ کوئی عملی تعلق ہے، پڑھتے ہیں، پڑھاتے ہیں، تعلیم دیتے ہیں، اس کی تنفیذ کرتے ہیں اور کسی بھی حوالے سے اللہ تعالیٰ کی اس آخری کتاب کی خدمت کرتے ہیں۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے اور یہ دونوں طبقے اپنی اپنی جگہ وارث ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کا انتخاب میں نے خود کیا ہے۔ امتی ہونے کے حوالے سے دیکھ لیجئے کہ ہم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور اس وجہ سے قرآن کریم کے وارثوں میں شامل ہیں، لیکن امتی ہونے میں ہماری کسی خواہش اور چوائس کا دخل نہیں ہے، یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان گھرانوں میں پیدا کیا اور ہم جناب نبی اکرمؐ کی امت میں شمار ہوگئے ہیں، ورنہ وہ ہمیں کسی سکھ، ہندو، عیسائی یا مجوسی کے گھرانے میں بھی پیدا کر سکتا تھا۔
دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ قرآن کریم کے وارث تین حصوں میں تقسیم ہیں۔ ایک حصے کو ظالم کہا گیا ہے۔ دوسرے کو مقتصد کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اور تیسرے حصے کو سابق بالخیرات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان تینوں تعبیرات سے کیا مراد ہے؟ اس پر مفسرین کرامؒ نے بہت سے نکات بیان فرمائے ہیں، جن میں سے امام فخر الدین رازیؒ کے بیان کردہ دو تین تفسیری نکات کا ذکر کروں گا جو انہوں نے ’’تفسیر کبیر‘‘ میں ذکر فرمائے ہیں:
ظالم سے مراد وہ ہیں جو قرآن کریم نہیں پڑھتے، مقتصد سے مراد وہ ہیں جو پڑھتے تو ہیں عمل نہیں کرتے، اور سابق سے مراد وہ لوگ ہیں جو پڑھتے بھی ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔
ظالم سے مراد وہ ہیں جو قرآن کریم کے پڑھنے اور سمجھنے سے بے پروا ہیں، مقتصد سے مراد وہ ہیں جو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، اور سابق وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم کا علم اور فہم رکھتے ہیں۔
ظالم سے مراد وہ ہیں جو پڑھتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے، مقتصد سے مراد وہ ہیں جو پڑھتے بھی ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں، جبکہ سابق سے مراد وہ لوگ ہیں جو خود بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں تک بھی پہنچاتے ہیں۔
ظالم سے مراد وہ ہیں کہ جن کے روزمرہ معمولات میں گناہ غالب ہوتے ہیں، مقتصد سے مراد وہ ہیں جن کی نیکیاں اور گناہ یکساں اور برابر رہتے ہیں، جبکہ سابق سے مراد وہ حضرات ہیں جن کی زندگی کے اعمال میں نیکیاں گناہوں پر غالب ہوتی ہیں۔
یہ ساری تعبیرات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں، صرف اظہار کے پہلوؤں کا فرق ہے ورنہ سب کا نتیجہ اور ثمر ایک ہی ہے۔ اور میں اس آیت کریمہ کے حوالے سے اپنے آپ کو، آپ سب حضرات کو اس بات پر غور و فکر کی دعوت دینا چاہوں گا کہ یہ وہ درجہ بندی ہے جو خود قرآن کریم نے ہمارے بارے میں کی ہے اور ہمیں مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، جس کو دیکھ کر ہم میں سے ہر شخص کو اپنے بارے میں جائزہ لینا چاہیے کہ اس کا شمار کس درجے میں ہوتا ہے اور وہ کس کیٹیگری میں شامل ہے؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مقتصد سے مراد وہ ہیں ظالم سے مراد وہ ہیں قرا ن کریم کے وارث قرا ن کریم کے ساتھ سے مراد وہ ہیں جو اللہ تعالی وہ لوگ ہیں کرتے ہیں ہیں اور اور ہم ہے اور
پڑھیں:
چوتھی نصاب تعلیم کانفرنس ڈیرہ مراد جمالی میں منعقد ہوگی، علامہ مقصود ڈومکی
ڈیرہ اللہ یار میں اساتذہ سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ کوئٹہ، لاہور اور جیکب آباد میں کامیاب کانفرنسز منعقد ہوچکی ہیں جبکہ چوتھی نصاب تعلیم کانفرنس ڈیرہ مراد جمالی میں 28 ستمبر 2025 کو منعقد ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی، صوبائی آرگنائزر علامہ سید ظفر عباس شمسی اور علامہ سہیل اکبر شیرازی و دیگر رہنماؤں نے ڈیرہ اللہ یار میں تعمیرِ ملت پبلک اسکول کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اسکول کے پرنسپل اور ایم ڈبلیو ایم کے سابقہ ضلعی سیکرٹری جنرل ظفر علی حیدری، سید شبیر علی شاہ، نظیر حسین ڈومکی سمیت دیگر شخصیات سے ملاقات کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ نصیر آباد ڈویژن کے اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم سے مشاورت کا عمل جاری ہے، کیونکہ 28 ستمبر بروز اتوار ڈیرہ مراد جمالی میں نصابِ تعلیم کانفرنس منعقد کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی نصاب تعلیم کونسل ملک بھر میں نصاب تعلیم پر کانفرنسز کا سلسلہ شروع کر چکی ہے۔ اس سلسلے میں کوئٹہ، لاہور اور جیکب آباد میں کامیاب کانفرنسز منعقد ہوچکی ہیں جبکہ چوتھی نصاب تعلیم کانفرنس ڈیرہ مراد جمالی میں 28 ستمبر 2025 کو منعقد ہوگی جس میں اساتذہ، ماہرینِ تعلیم، علمائے کرام، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات شریک ہوں گی۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے مزید کہا کہ نصاب تعلیم کی اصلاح کے لیے اساتذہ، ماہرین تعلیم اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے مسلسل مشاورت کا عمل جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کانفرنسز کا مقصد اساتذہ اور ماہرین تعلیم کو اس اہم مسئلے کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ نصاب تعلیم سے متنازعہ مواد کا اخراج وقت کا تقاضا ہے اور نصاب کی اصلاح ناگزیر ہو چکی ہے۔ حکومت، وزارت تعلیم اور نصاب تعلیم کونسل کو چاہیے کہ وہ موجودہ نصاب کے متنازعہ نکات کی اصلاح کا عمل فی الفور شروع کریں اور ایسا نصاب ترتیب دیں جو تمام مکاتب فکر کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہو۔ قبل ازیں علامہ مقصود علی ڈومکی نے المصطفیٰ پبلک اسکول کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے پرائیوٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے صدر سکندر حسین مہر اور اسکول اساتذہ سے ملاقات کی اور تعلیم و نصاب تعلیم سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔