Express News:
2025-11-03@16:15:39 GMT

نئے پلیئرز کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

کراچی:

’’ ٹیم کی کارکردگی اچھی نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اب انگلینڈ کو کسی نئے کپتان کی ضرورت ہے، جنوبی افریقہ سے میچ کے بعد میں قیادت چھوڑ دوں گا‘‘

کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران جب جوز بٹلر نے یہ کہا تو صحافیوں کو خاصی حیرت ہوئی کیونکہ ہمارے ملک میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے، ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں ناقص کارکردگی کے بعد صرف باتیں ہوئیں عملی طور پر کچھ نہ ہوا، لوگ بھی کچھ دن بعد بھول گئے۔ 

اب 29 سال بعد پاکستان میں کوئی آئی سی سی کا ایونٹ ہو رہا ہے اور ہماری ٹیم چیمپئنز ٹرافی میں چند دن بعد ہی گھر بیٹھ گئی، ان دنوں عوام بہت غصے میں ہے، ٹی وی پر بیٹھے بعض سابق کرکٹرز ریٹنگ کے چکر میں آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں، کسی کے پاس مسائل کا حل موجود نہیں لیکن سوشل میڈیا پر ویوز کیسے بڑھائیں یہ سب جانتے ہیں۔

پاکستان ٹیم کا ایونٹ میں سفر ختم ہوئے کئی دن گذر چکے لیکن پی سی بی ہمیشہ کی طرح خاموش رہ کر عوامی غم و غصہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کر رہا ہے، اعلیٰ حکام، کپتان، کوچ، سلیکٹرز کسی نے بھی آگے بڑھ کر ناقص کارکردگی کی ذمہ داری قبول نہ کی۔ 

ایک پھل فروش اور ریڑھی والے کو بھی علم ہے کہ شکست کی بڑی وجہ خراب ٹیم سلیکشن تھی لیکن انہی سلیکٹرز کو اب دورہ نیوزی لینڈ کیلیے اسکواڈ منتخب کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ 

سننے میں آ رہا ہے کہ مکمل طور پر نوجوان کرکٹرز پر مشتمل اسکواڈ چنا جائے گا، یہ ہمارے ’’آئین اسٹائن‘‘ عاقب جاوید کا ایک اور غلط فیصلہ ہوگا،گذشتہ برس جب گرین شرٹس کا مکمل اسکواڈ کیویز کے دیس گیا تو ابتدائی چاروں ٹی ٹوئنٹی ہارنے کے بعد بمشکل آخری میچ میں فتح ملی تھی۔ 

نئے پلیئرز کو نیوزی لینڈ کی پچز پر کھیلنے کا موقع دینا ان کے کیریئر سے کھیلنے کے مترادف ہوگا، کیویز کے تو بچوں کو بھی ہم گذشتہ برس اپنے ہوم گرائونڈ پر نہیں ہرا سکے تھے، سیریز 2-2 سے برابر رہی تھی، حال ہی میں اس نے ہوم گرائونڈ پر ہمیں مسلسل تین ون ڈے میچز میں شکست دی۔ 

نئے پلیئرز اگر ناکام رہے تو انھیں باہر کر کے پھر سینئرز کو واپس لے آئیں گے جو بنگلہ دیش کیخلاف پرفارم کر کے دوبارہ ہیرو بن جائیں گے، ابھی مشکل ٹور پر مکمل قوت کے ساتھ جانا چاہیے۔ 

سینئرز کے ساتھ چند جونیئرز کو ضرور لے جائیں جنھیں سیکھنے کا موقع بھی ملے گا،البتہ اگر فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر یہ اعلان کرنا چاہیے کہ چاہے ٹیم جیتے یا ہارے یہ ینگسٹرز 6 ماہ تک باہر نہیں ہوں گے۔ 

جب عثمان خان کو کسی ڈیل کے نتیجے میں مسلسل اسکواڈ کے ساتھ رکھا جا رہا ہے تو نوجوان پلیئرز کے ساتھ بھی ایسا کرنا غلط نہ ہوگا۔ 

بنگلہ دیش کیخلاف ’’ نام نہاد‘‘ سپر اسٹارز کو کسی صورت نہ کھلائیں اور آرام کا موقع دیں،میں جانتا ہوں آپ لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہے، اس لیے یاد دلاتا چلوں کہ امریکا میں کیا ہوا تھا، نوآموز میزبان ٹیم نے بھی ہمیں زیر کر لیا تھا،اس کے اہم کردار وہاب ریاض اب مینٹورز کے باس ہیں، دبئی میں میچ دیکھنے بھی گئے تھے حالانکہ ان کا وہاں کیا کام تھا، وہ پس پردہ رہ کر معاملات چلا رہے ہیں۔ 

اطلاعات یہی ہیں کہ عاقب جاوید اکیڈمیز کا کام سنبھال لیں گے، اب بھی ملبہ چند کھلاڑیوں پر گرا کر دیگر کو بچا لیا جائے گا، خطرناک بیماری میں مبتلا مریض کا درست علاج نہیں کیا جا رہا، پیناڈول کھانے سے وہ کیسے ٹھیک ہو گا؟ سرجری بھی انہی ڈاکٹرز سے کروا رہے ہیں جنھوں نے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اس حال پر پہنچایا، ایسے کیسے پاکستان کرکٹ ٹھیک ہو گی۔ 

سابق کرکٹرز بھی مخلص نہیں اور اس وقت تک سچ بولتے ہیں جب تک انھیں پی سی بی میں نوکری نہیں مل جاتی، ان کا کام ہے کہ مسائل کی درست نشاندہی کریں لیکن وہ موجودہ کرکٹرز سے اپنا ذاتی اسکور سیٹل کر رہے ہوتے ہیں۔ 

ماضی کے ایک ’’ عظیم ‘‘ فاسٹ بولر صرف اس لیے بابر اعظم سے چڑتے ہیں کیونکہ انھوں نے اس کے بتائے ہوئے ایجنٹ سے معاہدہ نہیں کیا تھا، عاقب جاوید کی ٹی وی پر باتیں سن کر ہمیں لگتا تھا کہ ان کے پاس ملکی کرکٹ کے مسائل کا حل ہے اور ان سے اچھا دنیا میں کوئی اور ہے ہی نہیں لیکن افسوس پاور ملنے پر وہ تو دیگر سے بھی بدتر ثابت ہوئے۔

دنیا میں سب سے آسان کام تنقید کرنا ہی ہے، اگر آپ کسی خامی یا غلطی کی نشاندہی کر رہے ہیں لیکن اس کا حل نہیں بتاتے تو فائدہ کیا، ہمارے سابق کرکٹرز نے آج تک اپنے کتنے متبادل تیار کر کے دیے،ٹی وی چینلز کا یہ حال ہے کہ محمد رضوان کی انگریزی کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں اور بیچارے شان مسعود کو اچھی انگلش پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ 

یہ لوگ آخر چاہتے کیا ہیں، اگر کوئی اچھی بات کرے تو ویوز نہیں آئیں گے، جتنا شور مچائیں گے اتنی ہی ریٹنگ ملے گی، پی سی بی  نے بڑے بڑے معاوضوں پر کئی سابق اسٹارز کو ملازمتیں فراہم کیں انھوں نے ملک کو کون سا ٹیلنٹ دیا؟ عبدالرزاق نے کسے چھکے لگانا سکھا دیا۔

ڈومیسٹک کرکٹ کے سربراہ عبداللہ خرم نیازی دبئی میں مفت میچ دیکھنے گئے، ان کے دور میں کیا بہتری آئی، چیئرمین محسن نقوی کو وہاب ریاض، عبداللہ خرم نیازی اور ان جیسے دیگر افراد سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا، انھیں کہیں اور جاب دلا دیں، کون وزیر داخلہ کو منع کرے گا۔ 

محسن نقوی نے اسٹیڈیمز بنا دیے، بھارتی بورڈ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی لیکن ان کی محنت پر ٹیم کی شکستیں پانی پھیر رہی ہیں، وہ طاقتور شخصیت ہیں اور ملکی کرکٹ کیلیے کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں، جس طرح کرکٹ ٹیم میں تبدیلیاں کرکے  بہتری کی امیدیں لگائی جا رہی  ہیں اسی طرح وہ ایک بار اپنی ٹیم میں بھی تبدیلی کر کے دیکھیں۔ 

لالچی اور خود غرض بعض سابق کرکٹرز سے چھٹکارہ پا کر ملک سے مخلص افرادکو ذمہ داری سونپیں پھر دیکھیں کیسے معاملات میں بہتری آتی ہے، اب تو ’’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ بھی سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں، کرکٹ کو ہاکی بننے سے روکنا ہے تو ایک بار آستینیں بھی جھاڑ کر دیکھ لیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سابق کرکٹرز ہیں اور کے ساتھ رہے ہیں رہا ہے

پڑھیں:

میرا لاہور ایسا تو نہ تھا

میرا لاہور ایسا تو نہ تھا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں لاہور سے ہوں، اس شہر سے جو دنیا بھر میں زندہ دلوں کے شہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پنجابی میں کہا جاتا ہے:”جنّے لاہور نئیں ویکھیا، اوہ جمیا نئیں”— جس نے لاہور نہیں دیکھا، گویا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ لاہور صرف ایک شہر نہیں، ایک احساس ہے، ایک ترنگ ہے، ایک دھڑکن ہے جو کبھی نہیں رُکتی۔ یہاں کی زندگی دریا کی طرح رواں دواں ہے، جو دن رات بہتی رہتی ہے، رنگوں، گرمیِ جذبات اور توانائی سے لبریز۔ لاہوری لوگ حیرت انگیز طور پر ہر حالت میں خود کو ڈھالنے اور مطمن رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مسرت پاتے ہیں، تہواروں، شادیوں یہاں تک کہ کرکٹ کی کامیابیوں کو بھی بے پناہ جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ وہ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ لاہور کے لوگ مہمان نواز، کشادہ دل اور مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ وہ باغوں، پارکوں اور خوشگوار محفلوں سے محبت کرتے ہیں۔ مالی حیثیت چاہے جیسی بھی ہو، لاہوری لوگ اچھے کھانوں، صاف ستھرے لباس اور کشادہ دلی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔


مگر دل کی گہرائیوں سے ایک دکھ بھری بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ وہ لاہور جس میں میں پلا بڑھا — پھولوں اور خوشبوؤں کا شہر —اب دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں کی رپورٹیں تشویش ناک ہیں۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور اکثر 300 سے تجاوز کر جاتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے ”انتہائی خطرناک” درجے میں آتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب لاہور میں سانس لینا خود ایک خطرہ بن چکا ہے۔ وہ ”سموگ” جو کبھی لاہوریوں کے لیے اجنبی لفظ تھا، اب ہر سال اکتوبر سے فروری تک شہر کو سیاہ چادر کی طرح ڈھانپ لیتی ہے۔ اسکول بند کرنا پڑتے ہیں، پروازیں ملتوی ہو جاتی ہیں، اور اسپتالوں میں سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کے مریضوں کا ہجوم بڑھ جاتا ہے۔


مگر لاہور ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب لاہور کی صبحیں دھند سے روشن ہوتی تھیں، سموگ سے نہیں۔ جب شالامار باغ، جہانگیر کا مقبرہ، مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد سورج کی کرنوں میں چمک اٹھتے تھے، نہ کہ گرد آلود دھوئیں کے پردے کے پیچھے چھپ جاتے تھے۔ کبھی لاہور اور اس کے نواحی علاقے سرسبز و شاداب ہوا کرتے تھے۔ شاہدرہ، ٹھوکر نیاز بیگ، رائے ونڈ اور جلو اور برکی کے ارد گرد کھیت لہلہاتے تھے، درختوں کی چھاؤں تھی، اور ہوا میں بارش کے بعد مٹی کی خوشبو بستی تھی۔ راوی کا پانی اگرچہ کم تھا، مگر شہر کے لیے زندگی کا پیغام لاتا تھا۔ ان دنوں جب کسان فصل کٹنے کے بعد بھوسہ جلاتے بھی تھے تو شہر کی فضا پھر بھی صاف رہتی تھی۔ دھواں ہوا میں تحلیل ہو جاتا تھا، کیونکہ فضا میں سبزہ اور درخت اس کا بوجھ جذب کر لیتے تھے۔


پھر کیا بدلا؟ بدلاو? آیا بے لگام شہری توسیع اور غیر ذمہ دارانہ منصوبہ بندی کے ساتھ۔ پچھلے دو عشروں میں لاہور کی آبادی تیزی سے بڑھی اور اب ایک کروڑ چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ جو شہر کبھی کوٹ لکھپت اور مغلپورہ پر ختم ہو جاتا تھا، وہ اب بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس فیز ٨ اور اس سے بھی آگے تک پھیل چکا ہے۔ زرعی زمینیں رہائشی اسکیموں میں تبدیل ہو گئیں۔ ہر نئی اسکیم کے ساتھ سڑکیں، گاڑیاں اور پلازے تو بڑھ گئے مگر درخت، کھیت اور کھلی جگہیں کم ہوتی گئیں۔ منافع کے لالچ میں منصوبہ سازوں نے ماحولیاتی توازن کا خیال نہیں رکھا۔ کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا کوئی مؤثر نظام نہ بن سکا، صنعتوں کو بغیر کسی اخراجی کنٹرول کے چلنے کی اجازت دی گئی، اور شہر کے ”سبز پھیپھڑوں” کو آہستہ آہستہ بند کر دیا گیا۔


ہمارے ترقی کے مظاہر جیسے میٹرو بس یا اورنج لائن ٹرین عام شہری کی نقل و حمل کے لیے سہولت تو ہیں، مگر ان کی قیمت ماحول نے ادا کی۔ کنکریٹ کے بڑے ڈھانچے تو تعمیر ہوئے مگر ماحولیاتی نقصان کے ازالے کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔ سڑکوں کی توسیع کے لیے درخت کاٹے گئے مگر دوبارہ لگائے نہیں گئے۔ ماہرین کے مطابق راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ، اگرچہ بلند نظر منصوبہ ہے، مگر اس نے لاہور کے قدرتی ماحولیاتی توازن کو مزید خطرے میں ڈال دیا۔ پانی کے قدرتی راستے سکڑنے سے ہوا کی گردش متاثر ہوئی اور سموگ میں اضافہ ہوا۔


آج لاہور کے لوگ — خصوصاً بچے اور بزرگ — اس بگاڑ کی قیمت چکا رہے ہیں۔ سانس کی بیماریاں جیسے دمہ، برونکائٹس اور الرجی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ میو، سروسز اور جناح اسپتالوں کے ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ سردیوں میں فضائی آلودگی سے متعلق مریضوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ طلبہ ”سموگ ڈیز” پر گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں، ان کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ وہ شامیں جو کبھی فوڈ اسٹریٹ، گلشنِ اقبال یا ریس کورس پارک میں ہنسی خوشی گزرتی تھیں، اب گھروں کے اندر بند کھڑکیوں کے پیچھے گزر رہی ہیں تاکہ آلودہ فضا سے بچا جا سکے۔
یہ درست ہے کہ ترقی اور جدیدیت بڑھتی آبادی کے لیے ضروری ہیں، مگر بے منصوبہ ترقی ایک سست زہر ہے۔ دنیا میں لاہور سے کہیں پرانے اور زیادہ آباد شہر جیسے لندن، پیرس اور بیجنگ کبھی شدید آلودگی کا شکار تھے مگر انہوں نے نظم و ضبط اور بصیرت سے حالات بدل دیے۔ مثال کے طور پر بیجنگ نے صنعتوں پر سخت قوانین لاگو کیے، فیکٹریوں کو شہروں سے باہر منتقل کیا اور برقی ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا۔ نتیجتاً وہاں کی فضا میں نمایاں بہتری آئی۔ سنگاپور اور سیول نے بھی شہری منصوبہ بندی میں فطری سبزے کو شامل کیا، تاکہ ہر نئی تعمیر کے ساتھ پارک اور سبز علاقے بھی قائم ہوں۔


لاہور بھی ایسا کر سکتا ہے۔ شہر کو ایک جامع ماحولیاتی حکمتِ عملی درکار ہے — جو عملی، مستقل اور قابلِ عمل ہو۔ سال میں ایک بار درخت لگانے سے بات نہیں بنے گی، اسے شہری عادت بنانا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ برقی اور ہائبرڈ گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دے، صنعتی اخراج کے لیے سخت قوانین بنائے، اور شہر کے قریب کھیتوں میں بھوسہ جلانے پر مکمل پابندی لگائے۔ صنعتی علاقے رہائشی آبادیوں سے دور منتقل کیے جائیں۔ راوی اور دیگر آبی گزرگاہوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ فطری توازن بحال ہو۔ شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا — کوڑا کم پیدا کریں، توانائی بچائیں، اور صفائی کو شعار بنائیں۔


لاہور محض ایک جگہ نہیں، تاریخ کا ایک زندہ باب ہے۔ اس نے مغلوں کی شان، صوفیوں کی دانش اور مجاہدینِ آزادی کی قربانیاں دیکھی ہیں۔ یہ پاکستان کا ثقافتی دل ہے جہاں شاعری، فن، اور مہمان نوازی ایک ہی روح میں ڈھل جاتے ہیں۔ مگر آج وہ روح سانس لینے کو ترس رہی ہے۔


اگر ہم چاہتے ہیں کہ لاہور زندہ دلوں کا شہر بنا رہے تو سب سے پہلے اسے صاف ہوا اور کھلے آسمانوں کا شہر بنانا ہوگا۔ لاہور کے باغوں کی خوشبو، گلیوں کی لے اور لوگوں کی مسکراہٹیں دھوئیں کے پردوں میں گم نہیں ہونی چاہیئں۔ عمل کا وقت آ چکا ہے — نہ کل، نہ اگلے سال، بلکہ ابھی — تاکہ آنے والی نسل فخر سے کہہ سکے:
”ہاں، ہم نے لاہور دیکھا ہے، اور یہ اب بھی وہی شہر ہے جو کبھی مرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔”

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرغزہ امن معاہدے کے اگلے مرحلے پر عملدرآمد کیلئے عرب اور مسلم ممالک کا اجلاس پیر کو ہوگا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوت اِک واری فیر دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آباد TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • فیکٹری کے ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں تمام ملازمین کی تنخواہ ٹرانسفر
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم
  • کبھی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہوتیں، بابر اعظم
  • روس میں فیکٹری ملازم کو تمام ملازمین کی تنخواہیں غلطی سے وصول، واپس کرنے سے انکار
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • گورنر خیبرپختونخوا سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ملاقات،‘متحد ہو کر صوبے کو پرامن بنائیں گے’
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے