سہولت بازاروں میں مارکیٹ سے کمنرخ پر معیاری اشیاکی فراہمی یقینی بنائی جائے : مریم نواز
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے صوبہ بھر میں مہنگائی کے سدباب کے لئے موثر اور جامع کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے۔ مریم نواز شریف نے کمشنرز اورڈپٹی کمشنرزکو گراں فروشی کے خلاف فوری موثر مہم چلانے کی ہدایت کی ہے، اجلاس میں ہدایت کی گئی کہ سٹال اور دکانوں پر سرکاری نرخ نامے آویزاں کرنے کی پابندی پر عملدرآمد ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ ضروری اشیائے خورد و نوش کی طلب و رسد کی کڑی مانیٹرنگ اور ذخیرہ اندوزی روکنے کے لئے فوری کارروائی عمل میں لانے کا حکم دیا ہے۔ اشیائے خورد و نوش کے نرخ اور معیار کو ہر صورت یقینی بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔ فوڈ اتھارٹی کو کھانے پینے کی اشیاء کا معیار یقینی بنانے کے لیے کریک ڈاؤن کا حکم بھی دیا ہے۔ مریم نواز شریف نے کہاکہ رمضان المبارک میں پھلوں اور سبزیوں کی فراہمی اور نرخ کی کڑی مانیٹرنگ کی جائے گی۔ پھلوں اورسبزیوں کے نرخ بڑھانے والو ں کے خلاف موثر قانونی کارروائی کی جائے۔ پوری دنیا میں رمضان المبارک کے دوران اشیاء کے نرخ کم کئے جاتے ہیں، ہمیں بھی رضا کارانہ طور پر نرخ کم کرنے چاہئیں۔ ڈیش بورڈ پر روزانہ اشیاء خورد و نوش کے نرخ خود چیک کر رہی ہوں۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے رمضان المبارک کی آمد پر پنجاب سمیت تمام امت مسلمہ کومبارکباد دی ہے۔ رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹنے کی سعادت نصیب ہونے پر اللہ کریم کے شکر گزار ہیں۔ مریم نواز نے کہاکہ رمضان صبر، تقویٰ، ایثار کا درس دیتا ہے۔ دْعائیں قبول ہوتی ہیں۔ دعا ہے کہ رمضان المبارک پاکستان کے لیے امن، ترقی اور خوشحالی کا پیغام لے کر آئے۔ نگہبان رمضان پیکیج 2025ء کے تحت 31 ارب روپے کی مالی امداد مستحق خاندانوں تک براہ راست گھروں میں پہنچائی جا رہی ہے۔ رمضان المبارک میں ہر محروم معیشت گھرانے کو10 ہزار روپے دئیے جا رہے ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: مریم نواز شریف نے رمضان المبارک کا حکم دیا ہے کے نرخ
پڑھیں:
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت خصوصی اجلاس، تعلیمی اداروں میں اصلاحات اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کئی اہم فیصلے
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیر صدارت ہائر ایجوکیشن سے متعلق ایک اہم اجلاس ہوا جس میں پنجاب کی تعلیمی اداروں میں اصلاحات اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کئی اہم فیصلے کیے گئے۔ اجلاس میں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے تفصیلی بریفنگ دی گئی جس میں جی سی یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج برائے خواتین یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کو ماڈل تعلیمی ادارے بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔اجلاس میں بتایا گیا کہ برطانیہ، کوریا اور قازقستان سمیت متعدد غیر ملکی یونیورسٹیوں نے پنجاب میں کیمپس بنانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں یونیورسٹی آف لندن، یونیورسٹی آف برنل، یونیورسٹی آف گلاسیسٹرشائر اور یونیورسٹی آف لِیسٹر شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے اس پیشکش کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اس سے پنجاب کی تعلیمی سطح کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔پنجاب کے سرکاری کالجز میں کالج مینجمنٹ کونسل قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا، جس کا مقصد تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا ہے۔ اجلاس میں "کے پی آئی" سسٹم کو پنجاب کی یونیورسٹیوں میں نافذ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تاکہ تدریسی معیار اور وائس چانسلرز کی کارکردگی کو بہتر طریقے سے جانچا جا سکے۔وزیراعلیٰ نے انڈر پرفارمنگ کالجز سے متعلق بھی رپورٹ طلب کی اور کہا کہ تعلیمی معیار کو یقینی بنانے کے لیے ان اداروں پر نظر رکھی جائے۔ مزید برآں، ایجوکیشن ویجی لینس سکواڈ قائم کرنے کی منظوری دی گئی جو تعلیمی اداروں میں اچانک حاضری، صفائی، معیار تعلیم اور دیگر امور کی جانچ کرے گا۔اجلاس میں سی ایم پنجاب ہونہار سکالر شپ اور لیپ ٹاپ سکیم کی بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ پنجاب کے علاوہ، دوسرے صوبوں کے 19,000 سے زائد طلبہ نے اس اسکیم میں درخواست دی ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس اسکیم کو مزید فعال بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔ہائر ایجوکیشن کا سٹریٹجک پلان 2025-2029 کے حوالے سے بھی اجلاس میں تفصیل سے بات چیت کی گئی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں تدریسی معیار، اختراعی تحقیق، تخلیقی علم، اور ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کو ترجیحات میں شامل کیا جائے گا۔پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں گورننس ریفارمز اور ادارہ جاتی خودمختاری لانے کی تجویز پر بھی اتفاق کیا گیا تاکہ یونیورسٹیوں کی کارکردگی میں مزید بہتری آئے۔وزیراعلیٰ نے پنجاب میں پہلی مرتبہ ہائر ایجوکیشن کانفرنس کے انعقاد کی اصولی منظوری دی جس کا مقصد تعلیمی اداروں میں درپیش چیلنجز اور ان کے حل کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔وزیراعلیٰ نے کامرس کالجز کے حوالے سے بھی رپورٹ طلب کی تاکہ غیر فعال اداروں کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔