بنوں کینٹ دھماکہ ؛ شہادتیں مسجد کی چھت گرنے سے ہوئی ؛خیبر پختونخواہ حکومت
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
ویب ڈیسک : بنوں کے کینٹ ایریا میں ہونے والے دھماکے پر خیبرپختونخوا حکومت کا بیان سامنے آگیا۔
بنوں میں ہونے والے دھماکے کی وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے مذمت کی جبکہ اعلیٰ حکام سے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کرلی۔
وزیر اعلی نے دھماکے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کا اظہار کرتے ہوئے شہدا کے لواحقین سے دلی ہمدردی و تعزیت کا اظہار کیا جبکہ انہوں نے شہدا کے درجات کی بلندی اور پسماندگان کیلیے صبر جمل کی دعا کی۔وزیر اعلی نے دھماکے کے زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا جبکہ ضلعی انتظامیہ کو زخمیوں کو بروقت طبی امداد کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ وزیر اعلی نے کہا رمضان کے مقدس مہینے میں اس طرح کے واقعات انتہائی قابل مذمت اور افسوسناک ہیں۔
پنجاب میں دہشت کی علامت سمجھا جانے والا انتہائی خطرناک ملزم فائرنگ سے ہلاک
مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا کہ بنوں کے کینٹ میں ہونے والے دہشت گرد حملے اور دھماکوں کے نتیجے میں ملحقہ عمارتوں کی چھتیں گر گئیں۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کی بروقت کاروائی سے دہشتگرد حملے میں ناکام رہے اور تمام حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ دھماکوں کے نتیجے میں قریبی مسجد کی چھت گرنے سے نمازیوں کی شہادتیں ہوئی ہیں، واقعے میں شہید ہونے والوں کی کل تعداد کا تعین کیا جا رہا ہے۔
غزہ سے جنگ کا مستقل خاتمہ تمام دنیا کی مشترکہ ذمہ داری ہے؛ اقوام متحدہ
انہوں نے کہا کہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، ہم ملک دشمنوں کو اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ بیرسٹر سیف نے بتایا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے واقعے کی تحقیقات کیلیے ہدایت جاری کردی ہیں۔بیرسٹر سیف نے کہا کہ صوبائی حکومت شہداء اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کے دکھ میں برابر کی شریک ہے۔
گورنر فیصل کنڈی نے اعلی حکام سے بنوں کینٹ حملہ کی رپورٹ طلب کی اور کہا ہے کہ بنوں کینٹ پر حملہ اسلام و پاکستان دشمن قوتوں کی سازش ہے۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ بنوں حملہ میں بے گناہ قیمتی انسانوں جانوں کے نقصان پر دلی افسوس ہے، خوارج کے مذموم حملے کو ناکام بنانے پر افواج پاکستان کو سلام پیش کرتے ہیں۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ صوبائی حکومت کی ملی بھگت سے صوبہ میں بدامنی بڑھتی جارہی ہے۔
حکومت سے 5 ہزار اور 10 ہزار کیش حاصل کرنے کا طریقہ
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: بیرسٹر سیف نے وزیر اعلی نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
بھارت میں آزادیٔ اظہار جرم، اختلافِ رائے گناہ ؛ مودی سرکار میں سنسر شپ بڑھ گئی
مودی سرکار کے دورِ حکومت میں سنسرشپ کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں آزادیٔ اظہار جرم اور اختلافِ رائے گناہ بنا دیا گیا ہے۔
بھارت میں آزادیٔ اظہار اور صحافت پر بڑھتی پابندیوں کے حوالے سے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو نیوز نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے، جس نے مودی حکومت پر سخت الزامات عائد کرتے ہوئے سنسرشپ کے بڑھتے رجحان کو بے نقاب کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نریندر مودی کے دورِ حکومت میں اختلاف رائے کو گناہ سمجھا جانے لگا ہے اور میڈیا، تعلیمی ادارے حتیٰ کہ عدلیہ بھی خوف کے سایے میں کام کر رہے ہیں۔ اسی دوران آزادیٔ اظہار کو بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق مودی سرکار نے ’’آپریشن سندور‘‘کی ناکامی کو چھپانے کے لیے آزادیٔ اظہار کو نشانہ بنایا۔ اس آپریشن کی ناکامی پر نیوز ویب سائٹ "The Wire" نے بھارتی طیارہ گرنے کی درست خبر شائع کی، جس کے بعد مودی حکومت نے اس پلیٹ فارم کو بند کر کے پورے میڈیا کو خاموش رہنے کا پیغام دیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت دنیا میں آزادیِ صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں سے 151 ویں نمبر پر آ چکا ہے، جب کہ حکومت اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے اب تک 8000 سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر چکی ہے۔
مودی حکومت نے ممتاز مسلم اسکالر علی خان محمودآباد کو جنگ مخالف پوسٹ پر گرفتار کیا اور ان کے سچ کو ’’فرقہ واریت‘‘قرار دے کر جیل بھیج دیا۔
ڈی ڈبلیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنٹسٹ پروفیسر اجے نے کہا کہ مودی راج میں اب صرف خاموشی محفوظ ہے، رائے دینا خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں لوگ حتیٰ کہ نجی محفلوں میں بھی اپنی رائے دینے سے گریز کرتے ہیں۔
او پی جندل گلوبل یونیورسٹی کے پروفیسر دیپانشو موہن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مودی حکومت نے ’’آپریشن سندور‘‘کو ایک سیاسی ڈراما بنا کر انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا اور قومی سلامتی جیسے حساس معاملے کو ووٹ بینک میں بدل دیا۔
پروفیسر موہن نے مزید کہا کہ آج بھارت میں صرف وہی استاد قابل قبول ہے جو مودی کا بیانیہ پڑھاتا ہے، باقی سب کو ’ملک دشمن‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ بھی اب حکومت کی زبان بول رہی ہے اور قومی سلامتی کے نام پر اظہارِ رائے پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ پروفیسر کے مطابق تعلیمی اداروں میں نصاب، تدریس اور تقرریاں اب مکمل طور پر مودی حکومت کے بیانیے کی غلامی میں ہیں، مخالف آوازوں کو نہ گرانٹ دی جاتی ہے اور نہ ہی ملازمت کا حق۔
پروفیسر موہن نے عالمی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں عالمی دباؤ ہی آزاد میڈیا، دانشوروں اور اختلافی آوازوں کے تحفظ کی آخری امید رہ گیا ہے۔