عالمی ادارۂ اطفال (یونیسیف) نے اسرائیل کی طرف سے غزہ میں امداد کا داخلہ روکنے سے لاکھوں انسانوں کے لیے ضروری میڈیکل سروسز بند ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

یونیسیف کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں وسیع پیمانے پر امداد غزہ پہنچی تاہم 15 مہینوں کی جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی ضروریات سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے۔

ترجمان روزیلا بولین نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے بندش کے باعث ویکسین اور وینٹی لیٹر سمیت بہت سا ضروری سمان غزہ نہیں پہنچ سکے گا، جس کی وجہ سے قبل از وقت دنیا میں آنے والے بچوں اور اُ ن کے والدین کی زندگیاں خطرے میں ہوں گی۔

ترجمان نے بتایا ہے کہ گزشتہ ماہ 19 جنوری کے بعد غزہ میں آنے والی بہت سی امداد لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے تاہم ضروریات اتنی زیادہ ہیں کہ سامان ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا، اسی بنیاد پر اسرائیل کا اقدام خطرناک ہے۔

امداد روکے جانے کی وجہ سے وہاں مستقبل کے حوالے سے مایوسی پھیل رہی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

ایران پر اسرائیلی حملہ: عالمی امن کیلیے خطرہ!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسرائیلی حملے کے بعد ایران کا جوابی ردعمل ہنوز جاری ہے اور نہیں معلوم کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے۔ 13 جون کی صبح اسرائیل نے ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے اور اس کا جوازیہ پیش کیا کہ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ بن یامین نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ ایران چند ماہ یا ایک سال کے اندر جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے، جس کی روک تھام کے لیے فوری کارروائی ضروری تھی۔ حملوں کا بنیادی ہدف ایران کی جوہری تنصیبات، خاص طور پر نطنز میں یورینیم افزودگی کی سہولت اور خنداب و خرم آباد کی جوہری سائٹس تھیں۔ اسرائیل کا یہ بھی الزام ہے کہ ایران حماس، حزب اللہ، اور یمنی حوثیوں جیسے عسکریت پسند گروہوں کی مالی اور عسکری مدد کرتا ہے، جو اسرائیل کے خلاف حملوں میں ملوث ہیں۔ اس حملے میں اسرائیل نے ایرانی فوجی قیادت کو نشانہ بنایا، جن میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر حسین سلامی اور ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری شامل تھے۔ نطنز میں یورینیم افزودگی کی سہولت، جو ایران کی سب سے اہم جوہری تنصیب ہے، کو تباہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ اصفہان کی یورینیم کنورژن سہولت اور دیگر جوہری تنصیبات بھی نشانہ بنیں، تہران اور دیگر علاقوں میں فوجی اڈوں اور ایرانی عسکری قیادت کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، جس سے کئی اعلیٰ فوجی افسران شہید ہوئے۔ اسرائیل نے ایران کے اندر سے ڈرونز اور میزائل استعمال کر کے ایرانی فضائی دفاع کو ناکارہ بنایا، جس سے حملوں کی کامیابی ممکن ہوئی۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیلی حملوں کے جواب میں سخت ردعمل کا اعلان کیا۔ انہوں نے قوم سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل نے ’’گھناونا جرم‘‘ کیا اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنا کر اپنی ’’بدنما فطرت‘‘ کا اظہار کیا۔ خامنہ ای نے خبردار کیا کہ اسرائیل کو ’’سخت سزا‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایرانی مسلح افواج ’’کاری ضربیں‘‘ لگائیں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل نے اپنے لیے ’’تلخ اور تکلیف دہ قسمت‘‘ کا انتخاب کیا ہے، اور ایران اسے ’’بے اثر اور بے بس‘‘ کر دے گا۔ ان کے بیانات کے ساتھ ایران نے ’’وعدہ صادق ‘‘ کے نام سے جوابی کارروائی شروع کی، جس میں سیکڑوں بیلسٹک میزائل داغے گئے جس کے نتیجے میں متعدد صہیونی ہلاک اور تین سو سے زاید زخمی ہوئے، ایران نے اسرائیلی جوہری تنصیبات ڈیمونا کو بھی نشانہ بنایا۔ دوسری جانب ایران نے برطانوی بحری جہاز کو بھی روک لیا ہے، جب کہ ایران آبنائے ہرمز کی بندش پر بھی غور کر رہا ہے۔ ایرانی صدر کا کہنا ہے کہ تمام مسلم ممالک کی ذمے داری ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ نصف صدی سے آگ میں جل رہا ہے، مغربی طاقتوں نے اپنے مقاصد کے لیے اسرائیل نامی جو خنجر عالم ِ اسلام کے سینے میں پیوست کیا ہے اس سے آج بھی خون رس رہا ہے، امریکا اور مغربی طاقتیں اسرائیل کو خطے کی سب سے مضبوط عسکری قوت بنانے کی خواہش مند ہیں، انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ایران اس راہ کی سب سے بڑی دیوار ہے، اس لیے کوشش کی جاتی رہی ہے کہ کسی طرح ایران کو کمزور کیا جائے تاکہ اسرائیل کو خطے میں مکمل طور پر کھل کھیلنے کا موقع ملے۔ 13 جون کو ایران پر اسرائیل کا حملہ پہلا حملہ نہیں اسرائیل ایران کو اپنے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح ایران کو غیر مسلح کردیا جائے تاکہ وہ گریٹر اسرائیل کے خاکے پر رنگ بھر سکے، اسرائیل اپنے قیام سے لے کر اب تک ایران کے خلاف براہ راست بھی اور بالواسطہ حملے بھی کیے ہیں، جس میں ہدف ایران کا جوہری پروگرام، فوجی تنصیبات اور سائنسدان رہے ہیں، خفیہ یا بالواسطہ نوعیت کے ان حملوں میں ایران کے متعدد جوہری سائنسدانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ ایران نے اسرائیلی حملے کے جواب میں جس ردعمل کا اظہار کیا ہے، وہ صہیونی قیادت کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ ایران پر اسرائیلی جارحیت کے ضمن میں پاکستانی دفترخارجہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ ایران کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ یوں تو اسرائیل نے حملے کا جواز ایران کے جوہری پروگرام کو قراردیا ہے مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ جوہری پروگرام اور تنصیبات تو محض ایک بہانہ ہے صہیونی قیادت اور اس کے مغربی سرپرستوں کا اصل ہدف رجیم کی تبدیلی کا تھا، اپنے اصل عزائم کا اظہار خود نیتن یاہو بھی کرچکے ہیں مگر محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل اور مغربی طاقتیں اپنے ان عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ جو پہلے ہی آگ میں جل رہا ہے، ایران پر اسرائیلی حملے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، یہ کشیدگی خطے کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی، اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری نے اسرائیل کے جنگی جنون کو قابو میں کرنے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو جنگ میں مزید شدت آنے کے امکانات ہیں اور اگر آگ کی شدت پھیلے تو صرف مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیا کا امن خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 18 سے 22 جون تک ہیٹ ویو کا خطرہ ہے، این ڈی ایم اے کا انتباہ
  • ایران اسرائیل جنگ: انسانی حقوق دفتر کا کشیدگی فوری کم کرنے پر زور
  • عالمی برادری ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے فوری کردار ادا کرے،سکیورٹی اداروں کی ضروریات پوری کریں گے، وزیراعظم شہباز شریف کا وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب
  • روس نے امریکا کو خبردار کر دیا
  • ایرانی میزائلوں کو روکنے والے دفاعی میزائل ختم ہونے کے قریب، اسرائیلی پریشان
  • اسرائیل کے دفاعی نظام پر دباؤ بڑھ گیا، میزائل روکنے والے انٹرسیپٹرز کی کمی کا سامنا
  • اسرائیلی فورسز کی فائرنگ ،جنوبی غزہ میں امداد کے منتظر 50 فلسطینی شہید
  • ایران پر اسرائیلی حملہ: عالمی امن کیلیے خطرہ!
  • انسانی امدادی سرگرمیوں کے لیے جنگی اخراجات کا صرف ایک فیصد درکار، فلیچر
  • چین کا ایران اور اسرائیل سے تنازع کی شدت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ