وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ، لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید اور عمران خان نے طالبان کو پاکستان میں بسانے کا فیصلہ کیا، یہ تینوں کا مشترکہ فیصلہ تھا، اسمبلی کی کارروائی میں اسے اچھا اقدام قرار دیا گیا تھا، فیض حمید تو گرفتار ہیں .لیکن قمر باجوہ تو باہر ہیں ان سے پوچھا جائے۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نے 80 اور 90 کی دہائی میں کوئی جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑی.

یہ اس وقت کے حکمرانوں کے مفادات کی جنگیں تھیں۔انہوں نے کہا کہ امریکا نے عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں دہشت گردی کے خلاف نہیں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے جنگیں لڑیں، یہ جنگ ہم نے شروع نہیں کی تھی، ان تمام جنگوں میں امریکا کبھی کسی کے ساتھ تھا اور کبھی کسی کے ساتھ تھا۔خواجہ آصف نے کہا کہ ہم خود دہشت گردی کے سب سے بڑے شکار ہیں، اگر ہم نے دہشت گرد کو امریکا کے حوالے کیا ہے، اگر دنیا اور امریکا اس کی تعریف کر رہے ہیں تو یہ ایک مشترکہ جنگ ہے. اس میں سب کو حصہ ڈالنا چاہیے، پاکستان فرنٹ لائن پر دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے اور اس کا شکار بھی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی ہو رہی ہے. اس کی وجہ امریکا کی جانب سے افغانستان میں چھوڑا گیا ہائی ٹیک اسلحہ ہے، امریکی صدر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں وہاں اسلحہ نہیں چھوڑنا چاہیے تھا. اگر امریکی اپنی غلطی کا احساس کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم اسلحہ واپس منگوا رہے ہیں تو اس سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمت سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ مفاہمت کی سیاست وہاں ہوتی ہے جہاں دوسرا فریق حملہ آور نہ ہورہا ہے، جب دوسرا فریق حملہ آور ہو تو پھر مزاحمت کی سیاست کرنی چاہیے۔خواجہ آصف نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ملبہ خود بھی اٹھائے. پاراچنار کے حالات سب کے سامنے ہیں وہ تو ہمارے زیرانتظام نہیں۔عمران خان کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’پہلے یہاں خطوط بازی ہوتی رہی، اب اسے بین الاقوامی درجہ دے دیا ہے.خطوط کا جو حشر پہلے ہوا وہی اب ہوگا۔‘عمران خان کو خط لکھنے کے حوالے سے کوئی مشورہ دینے کے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کو جادو، منتر کے مشورے ہوسکتے ہیں کوئی سیاسی مشورہ نہیں ہوسکتا۔اس سوال پر کہ پاکستان میں طالبان کو بسانے میں صرف پی ٹی آئی ملوث تھی یا جنرل باجوہ کا بھی کردار تھا؟ خواجہ آصف نے کہا کہ ’بالکل، جنرل باجوہ کا بھی کردار تھا، جنرل باجوہ، جنرل فیض اور عمران خان میں مشترکہ مفادات کا سمجھوتا تھا. یہ لوگ ان تینوں نے ہی لاکر بسائے ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلی کی کارروائی نکالیں، میں اس کارروائی میں موجود تھا.دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس تھا، اس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ بہت اچھی بات کر رہے ہیں. بڑی تعریفیں کی تھیں، جنرل فیض تو اندر ہیں، جنرل باجوہ باہر ہیں، ان سے پوچھیں۔وزیر دفاع نے پرویز خٹک کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں پرویز خٹک کو صوبے سے نکال کر وفاق میں لایا گیا اور پھر خیبرپختونخوا میں لوٹ مار کی گئی اور آج بھی کی جارہی ہے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: خواجہ آصف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف انہوں نے کہا پاکستان میں جنرل باجوہ سوال پر رہے ہیں

پڑھیں:

بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی

حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟

جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔

سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟

بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔

اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟

یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔

بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔

کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت غیر جانبدارانہ تحقیقات اور ٹرمپ کی مصالحت سے انکاری ہے، بلاول بھٹو
  • بھارت کی جانب سے پانی روکنا ایٹمی آبی دہشت گردی، یہ بات جذبات میں نہیں کہہ رہے، بلاول بھٹو
  • امریکا میں بھارتی سفارت خانے کے سامنے سکھوں اور کشمیریوں کا احتجاجی مظاہرہ
  • امدادی کشتی پر اسرائیلی حملہ دہشت گردی ہے، اقوام متحدہ اور امریکی مسلم تنظیم کا شدید ردعمل 
  • امدادی کشتی پر اسرائیلی حملہ دہشت گردی ہے، اقوام متحدہ اور امریکی مسلم تنظیم کا شدید ردعمل
  • بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
  • سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ اور اراکینِ سلامتی کونسل سے اچھی بات چیت ہوئی: جلیل عباس جیلانی
  • بھارت پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث ہے: بلاول بھٹو زرداری
  • بھارت کو مسلح جنگ کے بعد پانی کی جنگ میں بھی شکست ہوگی، خواجہ آصف
  • یورپی حکام بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی سے روکیں، علی رضا سید