واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار یوکرینی باشندوں کی عارضی قانونی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جو روس-یوکرین جنگ کے بعد امریکا میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ اس فیصلے سے متاثرہ افراد کو تیزی سے ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ اقدام بائیڈن انتظامیہ کے دوران مہاجرین کے لیے بنائی گئی پالیسیوں کے خاتمے کا حصہ ہے۔ ٹرمپ حکومت کا یہ منصوبہ اپریل میں نافذ ہونے کا امکان ہے، جس کے تحت نہ صرف یوکرینی مہاجرین بلکہ 530,000 کیوبن، ہیٹی، نکاراگون اور وینزویلین باشندوں کی بھی قانونی حیثیت ختم کی جا سکتی ہے۔

امریکی محکمہ برائے ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) نے اس حوالے سے کسی سرکاری اعلان سے انکار کیا ہے، تاہم ذرائع کے مطابق، جو افراد عارضی ویزا پر امریکا میں داخل ہوئے تھے، ان کی تیزی سے ملک بدری کا امکان ہے۔

یوکرینی پناہ گزین لیانا آویٹسیان اور ان کا خاندان بھی انہی مشکلات کا شکار ہے، جنہوں نے 2023 میں یوکرین سے فرار ہو کر امریکا میں پناہ لی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ قانونی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے ہزاروں ڈالر فیس ادا کر چکے ہیں، لیکن اب بےیقینی کی صورتحال کا شکار ہیں۔

ٹرمپ حکومت کے اس اقدام سے صرف یوکرینی اور لاطینی امریکی مہاجرین ہی نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

سابق افغان انٹیلی جنس افسر رافی، جو امریکی افواج کے ساتھ کام کر چکے ہیں، کو فروری میں امیگریشن حکام نے حراست میں لے لیا، حالانکہ ان کے پاس قانونی عارضی حیثیت موجود تھی۔

انہوں نے کہا: "میں نے امریکی افواج کے ساتھ کام کیا، اپنی جان خطرے میں ڈالی، لیکن اب مجھے بےدخل کیا جا رہا ہے، میں نے کبھی یہ توقع نہیں کی تھی۔"

تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹرمپ حکومت کی یہ پالیسی امریکی امیگریشن قوانین میں بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر یہ منصوبہ نافذ ہو گیا، تو لاکھوں افراد کو امریکا میں قیام کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قانونی حیثیت امریکا میں

پڑھیں:

پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:پاکستان میں صحتِ عامہ کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے، جہاں ہر 7لاکھ 50 ہزار شہریوں کے لیے محض ایک ڈاکٹر میسر ہے۔

یہ حیران کن انکشاف وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے برائے مالی سال 2024-25 میں کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ صحت پر حکومتی توجہ نہایت محدود اور وسائل غیر تسلی بخش ہیں۔

سروے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صحت کے شعبے پر رواں مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 925 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ شرح نہ صرف عالمی معیار سے بہت کم ہے بلکہ ملک کی بڑھتی آبادی، موسمیاتی اثرات اور وبائی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخراجات انتہائی ناکافی قرار دیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد آبادی کے مقابلے میں صرف 3 لاکھ 19 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ایک سال میں ڈاکٹروں کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا، مگر یہ اضافہ بھی آبادی کے تناسب سے نہایت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق دانتوں کے امراض کے لیے مختص ماہرین یعنی ڈینٹسٹ کی مجموعی تعداد 39 ہزار 88 ہے، جو ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

دیگر طبی عملے کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نرسز کی کل تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف 29 ہزار ہیں۔ دیہی علاقوں خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی اس عملے کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے، جس کے باعث زچگی، بچوں کی پیدائش اور عام بیماریوں کا بروقت علاج مشکل ہو چکا ہے۔

طبی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ملک میں اسپتالوں کی تعداد صرف 1696 ہے جب کہ بنیادی ہیلتھ یونٹس 5434 بتائے گئے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ان سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لاکھوں افراد کو علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں نہ صرف اخراجات زیادہ ہیں بلکہ رسائی بھی ایک مسئلہ ہے۔

ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات اب بھی بلند سطح پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 1000 بچوں میں سے 50 شیرخوار سالانہ طور پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو عالمی سطح پر انتہائی تشویش ناک شرح سمجھی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں خوراک کی کمی، ناقص ویکسینیشن نظام اور بروقت طبی امداد کی عدم دستیابی شامل ہیں۔

اگرچہ رپورٹ میں اوسط عمر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا ہے ، جو اب 67 سال 6 ماہ تک پہنچ چکی ہے ، لیکن ماہرین صحت کے مطابق یہ بہتری صرف شہری علاقوں تک محدود ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں صورت حال اب بھی بدتر ہے۔ صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات، فنڈز کا شفاف استعمال اور طبی عملے کی بھرتی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔

اقتصادی سروے کے ان اعداد و شمار نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ مسلسل نظراندازکیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اور پالیسی سازوں نے سنجیدہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو ملک کو مستقبل میں مزید بڑے صحت کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایک سال کے دوران مزید 7 لاکھ سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ گئے
  • پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر
  • ٹرمپ انتظامیہ نے طاقت کا غلط استعمال کر کے تشدد کو ہوا دی، امیگریشن ایڈوکیسی گروپ
  • گورنر کیلیفورنیا نے صدر ٹرمپ کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا
  • صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
  • لاس اینجلس، غیر قانونی تارکین وطن آپریشن، ٹرمپ نے ہر جگہ فوج تعینات کرنے کی دھمکی دیدی
  • امریکا، غیر قانونی تارکین وطن کیخلاف انتظامیہ کا کریک ڈاؤن، شدید جھڑپیں
  • حکومت کا کم آمدنی والے افراد کے لیے سستے ہاؤسنگ لون متعارف کرانے کا منصوبہ
  • چین امریکا تجارتی مذاکرات پیر کو لندن میں ہوں گے
  • امریکی صدر اور ایلون مسک جھگڑا،’ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں’