ٹرمپ کا 2 لاکھ 40 ہزار پناہ گزین یوکرینی باشندوں کی قانونی حیثیت ختم کرنے کا منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار یوکرینی باشندوں کی عارضی قانونی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جو روس-یوکرین جنگ کے بعد امریکا میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ اس فیصلے سے متاثرہ افراد کو تیزی سے ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ اقدام بائیڈن انتظامیہ کے دوران مہاجرین کے لیے بنائی گئی پالیسیوں کے خاتمے کا حصہ ہے۔ ٹرمپ حکومت کا یہ منصوبہ اپریل میں نافذ ہونے کا امکان ہے، جس کے تحت نہ صرف یوکرینی مہاجرین بلکہ 530,000 کیوبن، ہیٹی، نکاراگون اور وینزویلین باشندوں کی بھی قانونی حیثیت ختم کی جا سکتی ہے۔
امریکی محکمہ برائے ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) نے اس حوالے سے کسی سرکاری اعلان سے انکار کیا ہے، تاہم ذرائع کے مطابق، جو افراد عارضی ویزا پر امریکا میں داخل ہوئے تھے، ان کی تیزی سے ملک بدری کا امکان ہے۔
یوکرینی پناہ گزین لیانا آویٹسیان اور ان کا خاندان بھی انہی مشکلات کا شکار ہے، جنہوں نے 2023 میں یوکرین سے فرار ہو کر امریکا میں پناہ لی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ قانونی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے ہزاروں ڈالر فیس ادا کر چکے ہیں، لیکن اب بےیقینی کی صورتحال کا شکار ہیں۔
ٹرمپ حکومت کے اس اقدام سے صرف یوکرینی اور لاطینی امریکی مہاجرین ہی نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
سابق افغان انٹیلی جنس افسر رافی، جو امریکی افواج کے ساتھ کام کر چکے ہیں، کو فروری میں امیگریشن حکام نے حراست میں لے لیا، حالانکہ ان کے پاس قانونی عارضی حیثیت موجود تھی۔
انہوں نے کہا: "میں نے امریکی افواج کے ساتھ کام کیا، اپنی جان خطرے میں ڈالی، لیکن اب مجھے بےدخل کیا جا رہا ہے، میں نے کبھی یہ توقع نہیں کی تھی۔"
تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹرمپ حکومت کی یہ پالیسی امریکی امیگریشن قوانین میں بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر یہ منصوبہ نافذ ہو گیا، تو لاکھوں افراد کو امریکا میں قیام کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قانونی حیثیت امریکا میں
پڑھیں:
اپیلز کورٹ: ٹرمپ کا پیدائشی شہریت ختم کرنے کا صدارتی حکم غیر آئینی قرار
وفاقی اپیلز کورٹ نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیدائشی شہریت (birthright citizenship) ختم کرنے سے متعلق صدارتی حکم نامے کو آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے۔
یو ایس نائنتھ سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے 2 کے مقابلے میں ایک جج کے اکثریتی فیصلے سے حکم جاری کیا۔
اگرچہ اس حکم نامے کو پہلے ہی عدالتوں نے معطل کر رکھا تھا، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی اپیلز کورٹ نے اس صدارتی حکم کے قانونی جواز کا باقاعدہ جائزہ لیا ہے۔
تین رکنی بینچ نے فیصلے میں لکھاکہ’ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ صدارتی حکم نامہ 14ویں آئینی ترمیم کی واضح زبان سے متصادم ہے، جو کہ امریکا میں پیدا ہونے والے اور امریکی دائرہ اختیار میں آنے والے تمام افراد’ کو شہریت دینے کی ضمانت دیتا ہے‘۔
فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے جج پیٹرک بوماتائے، جو کہ ٹرمپ کے نامزد کردہ ہیں، نے کہا کہ ’ریاستوں کے پاس یہ مقدمہ دائر کرنے کا قانونی اختیار (standing) ہی نہیں تھا‘۔
پس منظر: صدارتی حکم اور اس کے خلاف مقدماتڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے ہی دن 20 جنوری کو یہ صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے بعد متعدد ریاستوں اور شہری حقوق کی تنظیموں نے عدالت میں اسے چیلنج کیا۔
14ویں آئینی ترمیم 1868 میں خانہ جنگی کے بعد منظور کی گئی تھی، جس کا مقصد امریکا میں پیدا ہونے والے تمام افراد کو شہریت دینا تھا،چاہے ان کے والدین غلام رہے ہوں یا غیر شہری۔
لیکن ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف رہا کہ اس ترمیم کی تنگ تشریح ہونی چاہیے، اور اگر بچے کے والدین غیر قانونی تارکین وطن ہوں یا عارضی ویزوں (مثلاً ورک یا اسٹوڈنٹ ویزا) پر ہوں تو ایسے بچوں کو پیدائشی شہریت نہ ملے۔
ٹرمپ، جنہوں نے انتخابی مہم میں امیگریشن کے خلاف سخت مؤقف اپنایا تھا، اس پیدائشی حق کو ختم کرنے کا وعدہ کرتے آئے ہیں — حالانکہ قانونی ماہرین نے ہمیشہ اس اقدام پر تحفظات ظاہر کیے۔
ریاستوں کا مؤقف اور قانونی پیش رفتواشنگٹن، اوریگن، ایریزونا اور الی نوائے نے 21 جنوری کو صدارتی حکم نامے کے خلاف درخواست دائر کی، جس پر فروری میں ابتدائی حکم امتناعی جاری ہوا۔
گزشتہ ماہ ایک علیحدہ مقدمے میں سپریم کورٹ نے ایک محدود فتح ٹرمپ کو دی، جب اس نے فیصلہ دیا کہ ضلع عدالتیں صدر کے خلاف قومی سطح پر حکم امتناعی جاری نہیں کر سکتیں، البتہ اجتماعی مقدمات (class action) میں یہ ممکن ہے۔
اسی بنیاد پر نیو ہیمپشائر کی ایک وفاقی عدالت نے مقدمے کو اجتماعی حیثیت دے دی اور ٹرمپ کے حکم پر دوبارہ ابتدائی حکم امتناعی نافذ کر دیا۔
واشنگٹن کے اٹارنی جنرل کا ردعملواشنگٹن کے اٹارنی جنرل نِک براؤن نے اپنے بیان میں کہا کہ عدالت اس بات سے متفق ہے کہ ایک صدر محض قلم کی جنبش سے امریکی شناخت کی تعریف تبدیل نہیں کر سکتا۔
وہ ان بچوں کے حقوق، آزادیاں اور تحفظات ختم نہیں کر سکتا جو ہماری سرزمین پر پیدا ہوئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں