اپنے ایک بیان میں سابق ترجمان وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اب عالم اسلام کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ بشار الاسد کے سقوط کے بعد باغیوں نے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی بجائے کیوں اسرائیل کی جانب ایک گولی بھی نہیں چلائی؟۔ اسلام ٹائمز۔ دنیا اس وقت دمشق پر قابض ٹولے کے ہاتھوں شام میں علویوں کے اجتماعی قتل عام کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ یہ ٹولہ محمد الجولانی کی سرکردگی میں صوبہ "طرطوس"، "لاذقیہ"، "حمص" اور "حماء" میں ہزاروں نہتے شہریوں کو قتل کر رہا ہے۔ حتیٰ فاکس نیوز نے عینی شاہدیں کا حوالہ دیتے پوئے رپورٹ دی کہ چار روز سے جاری اس نئی افراتفری میں اب تک 4 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس افسوس ناک خونریزی پر اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان "ناصر کنعانی" نے کہا کہ جب صیہونی حکام علی الاعلان دمشق پر قبضے کے اسرائیلی ارادے کا اظہار کرتے ہیں، شامی سرزمین کو ملاتے ہوئے عراق تک قبضے کی بات کرتے ہیں، شام میں کسی بھی عسکری ڈھانچے کے عدم وجود کا راگ الاپتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر اس ملک کے حصوں پر قبضہ کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں کتنا عجیب ہے کہ جولانی حکومت ملک کے مغرب میں علویوں کے قتل عام میں مشغول ہے!۔ انہوں نے کہا کہ اب عالم اسلام کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ بشار الاسد کے سقوط کے بعد باغیوں نے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی بجائے کیوں اسرائیل کی جانب ایک گولی بھی نہیں چلائی؟، حالانکہ اسرائیل، شامی سرزمین پر قبضہ اور روزانہ کی بنیاد پر اس ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

امریکہ و اسرائیل امن کیبجائے فلسطین کی نابودی کے درپے ہیں، سید عبدالمالک الحوثی

اپنے ہفتہ وار خطاب میں انصار الله کے سربراہ کا کہنا تھا کہ خود کو فوجی کہنے والے صہیونی رژیم کے غنڈے فخر سے ایسی ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں جن میں بچوں کا قتل عام دکھایا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ یمن کی مقاومتی تحریک "انصار الله" کے سربراہ "سید عبدالمالک بدرالدین الحوثی" نے غزہ کے تازہ ترین واقعات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہفتہ غزہ کی عوام کے لیے سب سے مشکل اور المناک رہا۔ غزہ کے بچوں کی حالت اور ان کے مسائل کی داستان دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ یہ تصاویر انسانی معاشرے خاص طور پر مسلمانوں کے لیے بدنماء داغ ہیں۔ غزہ کے بچے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی دشمن نے اپنے ظالمانہ اقدامات کے لیے انہیں اہم ہدف بنا لیا ہے۔ انصار الله کے سربراہ نے غزہ میں بچوں کے لیے خشک دودھ کی ترسیل روکنے کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسرائیل کا مقصد صرف نسل کشی ہے۔ اسی لیے وہ ان اشیاء کی درآمد پر پابندی لگا رہا ہے۔ خود کو فوجی کہنے والے صہیونی رژیم کے غنڈے فخر سے ایسی ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں جن میں بچوں کا قتل عام دکھایا گیا۔ وہ محض تفریح کے لیے غزہ کے معصوم بچوں کو مار رہے ہیں۔ انہوں نے مغربی ممالک کے دوغلی رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "عورت کے حقوق" ایک ایسا عنوان ہے جسے مغرب نے دھوکہ دینے اور منفی پروپیگنڈہ کرنے کے لیے استعمال کیا تاکہ ہماری معاشرتی اقدار کو نشانہ بنایا جا سکے اور ہماری اجتماعی وحدت کو پارہ پارہ کیا جا سکے۔
  سید الحوثی نے کہا کہ اس وقت اسرائیل، غزہ میں فلسطینی خواتین پر ہر قسم کا ظلم روا رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں انتہائی المناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ اسرائیل، فلسطینی خواتین کو امریکی بموں سے شہید کر رہا ہے۔ دوسری جانب اس ہفتے غزہ کے بیشتر لوگوں نے کھانا نہیں کھایا۔ وہ گزشتہ پانچ دن سے بھوکے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے قائم کردہ انسانی امداد کے مراکز کو موت کا جال قرار دیا۔ اس سلسلے میں سید عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ ان امدادی مراکز پر صیہونی فوجیوں نے گولیاں چلا کر ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں قحط، انسانی معاشرے، مسلمانوں اور عربوں کے لیے ایک شرمناک ہے۔ اس وقت 71 ہزار فلسطینی بچے غذائی قلت کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ تقریباً 17 ہزار ماؤں کو غذائی کمی کے بعد فوری طبی امداد کی ضرورت ہے تاکہ انہیں بچایا جا سکے۔ انصار الله کے سربراہ نے کہا کہ طبی اور انسانی حالات بگڑنے کی وجہ سے غزہ میں بچوں اور شیر خوار بچوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں 9 لاکھ بچے بھوک کا شکار ہیں اور ان میں سے 70 ہزار شدید غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔

یمن میں انقلاب کے روحانی پیشواء نے کہا کہ OIC نے غزہ کے لوگوں کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔ سید الحوثی نے سوال اٹھایا کہ عرب تنظیمیں کہاں ہیں؟ اور وہ فلسطینیوں کے خلاف بھوک، نسل کشی اور جبری بے دخلی کے مجرمانہ اقدامات کے خلاف کیا کر رہی ہیں؟۔ اس وقت اسرائیل، مہاجرین پر حملوں سے باز نہیں آرہا، حالانکہ اس نے انہیں دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فی الحال غزہ کے رہائشیوں کو پیاس کی شدت میں مبتلا کر کے ان علاقوں کی طرف جانے پر مجبور کر رہا ہے جہاں شاید انہیں تھوڑا سا پانی مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ عرب اور مسلم ممالک نے انہیں تنہا چھوڑ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عرب کہاں ہیں؟۔ مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے؟۔ ہم کیوں خاموش ہیں؟۔ ہم غزہ میں یہ المناک واقعات کیوں دیکھ رہے ہیں؟۔ آپ کا انسانی، اسلامی اور اخلاقی فرض کہاں گیا؟۔ سب جان لیں کہ اسرائیل تمام مسلمانوں کا دشمن ہے۔ سید عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ عرب ممالک کی بے حسی اور خاموشی ان کے اجتماعی ضمیر کی موت کی نشاندہی کرتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ کے معاملے میں کوتاہی کے نتائج سب کو بھگتنے پڑیں گے۔

دو ارب مسلمانوں کی امت میں سے سوائے چند ایک کے، غزہ کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ امریکہ نے اسرائیل کو غزہ میں ہر قسم کے جرائم کے ارتکاب کی مکمل آزادی دے رکھی ہے۔ انصار الله کے سربراہ نے کہا کہ صیہونیت ایک عالمی سوچ اور نظریہ ہے۔ یہ نظریہ دو بازوؤں پر مشتمل ہے جن کے نام امریکہ اور اسرائیل ہیں۔ عالمی صیہونیت کا مقصد دوسرے لوگوں کو غلام بنانا ہے۔ صیہونیت، مغربی استعماری قوتوں کے جرائم کی میراث ہے۔ صیہونیت کے قیام کا مقصد دیگر قوموں کے وسائل کو لوٹنا، انہیں غلام بنانا، ان کی شناخت ختم کرنا اور ان کی آزادی و خودمختاری کو چھیننا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطین پر حملے کے آغاز سے ہی عرب ممالک کی یکجہتی بہت کمزور رہی اور انہوں نے اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ سید الحوثی نے کہا کہ صیہونی رژیم کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا، محض ایک غاصب اور مجرم ریاست کے ساتھ تعلقات بحال کرنا نہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کے دشمن کے ساتھ تعاون کے مترادف ہے۔ اسرائیل مسلمانوں کے لیے ذرہ بھر احترام کا قائل نہیں بلکہ نفرت اور ظلم کے ساتھ ان پر تشدد کرتا ہے۔ تاہم دشمن اس بات کو جانتا ہے کہ وہ غزہ میں جتنے بھی جرائم کا ارتکاب کرے، مسلمان اور خاص طور پر عرب ممالک کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔
انصار الله کے سربراہ نے امریکہ اور صہیونی رژیم کی حزب الله کو غیرمسلح کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ حزب الله کو غیرمسلح کرنے کی کوشش صرف دشمنوں کے فائدے میں ہے۔ امت اسلامیہ کو اس وقت سب سے زیادہ اسلحے کی ضرورت ہے۔ دشمن صرف اس لئے حزب الله کو غیرمسلح کرنا چاہتا ہے تاکہ لبنان پر قبضہ کر سکے۔ سید الحوثی نے واضح طور پر کہا کہ کیا فلسطینی مجاہدین کی جانب سے اپنا اسلحہ جمع کروانے کے بعد لبنان میں صبرا اور شاتیلا کا قتل عام نہیں ہوا؟۔ فلسطین میں کب بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا؟۔ اس وقت جب فلسطینی قوم کے پاس مناسب مقدار میں اسلحہ نہیں تھا۔ جب ابتدائی مراحل میں وہ خاطر خواہ فوجی کارروائی کرنے سے قاصر تھے اور نہ ہی عرب و اسلامی ممالک نے ان کی حمایت کی۔

متعلقہ مضامین

  • تنازعہ فلسطین اور امریکا
  • امریکہ و اسرائیل امن کیبجائے فلسطین کی نابودی کے درپے ہیں، سید عبدالمالک الحوثی
  • بھارتی انہیں کیسے ٹرول کر سکتے ہیں، ناصر چنیوٹی دلجیت دوسانجھ کے حق میں بول پڑے
  • ناصر چنیوٹی کی بھارتی عوام سے دلجیت دوسانجھ کے خلاف نفرت بند کرنے کی اپیل
  • جب سے حکومت آئی ہے بلوچستان جل رہا ہے، اے این پی
  • تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا
  • ریاست سے ناراضی کا مطلب یہ نہیں کہ ہتھیار اٹھا لئے جائیں، سرفراز بگٹی
  • غیرت کے نام پر کسی کو بھی قتل کرنا شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے، مولانا فضل الرحمان
  • امریکہ کی ایکبار پھر ایران کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش
  • اسرائیل کی خاطر ایکبار پھر امریکہ یونسکو سے دستبردار