بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیاں: سینکڑوں خاندان اپنے عزیزوں کے منتظر
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 مارچ 2025ء) بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیوں کے معاملے کی تحقیقات کے لیے قائم ایک کمیشن نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ کم از کم 330 افراد جنہیں مبینہ طور پر حکام نے اٹھایا تھا، ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ جان سے جا چکے ہیں۔
بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا قیام
معین الاسلام چودھری، جو کہ جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن (سی ای ای ڈی) کی سربراہی کر رہے ہیں، نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ شیخ حسینہ کی سربراہی میں خدمات انجام دینے والے اعلیٰ حکام ان جرائم میں منظم طور پر ملوث تھے۔
گزشتہ اگست میں حکومت مخالف مظاہروں کے بعد حسینہ مستعفی ہو کر پڑوسی ملک بھارت فرار ہو گئیں، اور فی الحال وہیں مقیم ہیں۔(جاری ہے)
بنگلہ دیشی انسانی حقوق کی تنظیم اودھیکار کے مطابق، حسینہ کے 15 سالہ دور حکومت میں، 2009 سے 2024 تک، 700 سے زائد جبری گمشدگیوں کی اطلاعات ہیں۔
بنگلہ دیش: کیا اقوام متحدہ کی انکوائری سے مظاہرین کو انصاف مل سکے گا؟
تاہم، پانچ رکنی کمیشن کی تشکیل کے بعد، مزید افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں، جن کی تعداد بڑھ کر اب 1,752 ہو گئی ہے۔
اگرچہ جبری گمشدگیوں کے کچھ متاثرین زندہ گھر واپس آگئے، لیکن دیگر مبینہ طور پر مردہ پائے گئے۔
سوگواروں کے لیے کوئی راحت نہیںچار مارچ کو پریس کانفرنس کے دوران، چودھری نے کہا کہ کمیشن اس امکان پر بھی غور کر رہا ہے کہ ہوسکتا ہے متاثرین میں سے کچھ کو بھارت میں قید میں رکھا گیا ہو۔
انہوں نے کہا، "ہمیں گزشتہ دو سے ڈھائی سالوں کے دوران بھارتی جیلوں میں قید 1,067 بنگلہ دیشیوں کی فہرست ملی ہے۔
ہم یہ جانچنے کے عمل میں ہیں کہ آیا ان میں سے کوئی جبری گمشدگی کا متاثر ہے"۔نسرین جہاں اسمرتی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چوہدری کا بیان سن کر وہ ٹوٹ گئی ہیں۔
ان کے شوہر اسماعیل حسین باٹین، جو حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) سے تعلق رکھنے والے کارکن ہیں، 2019 سے لاپتہ ہیں۔.
انہوں نے بتایا، "میں اپنے شوہر کا چھ سالوں سے انتظار کر رہی ہوں جب بنگلہ دیش کی ریپڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی) نے ان کا اغوا کرلیا تھا۔
" آر اے بی بنگلہ دیش کی انسداد دہشت گردی کی ایک ایلیٹ فورس ہے۔انہوں نے کہا، "شیخ حسینہ کی بے دخلی کے بعد، جب جبری گمشدگی کے چند متاثرین کو برسوں کی قید کے بعد رہائی ملی تو مجھے امید تھی کہ میرے شوہر بھی جلد باہر آجائیں گے۔"
انہوں نے مزید کہا، "اب، کمیشن کے چیئرمین کے بیان نے ہماری تمام امیدوں کو چکنا چور کر دیا ہے۔
جب سے ہم نے یہ خبر سنی ہے میرے بچے بے ساختہ رو رہے ہیں۔" حسینہ حکومت پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کی تنقیدحسینہ، آہنی ہاتھوں کے ساتھ حکومت کرنے پر، طویل عرصے سے انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے سن دو ہزار اکیس میں ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ جبری گمشدگیوں کے "معتبر اور مستقل شواہد" کے باوجود، حسینہ کی اس وقت کی حکمران عوامی لیگ پارٹی نے معاف کردینے کے بڑے پیمانے پر کیے جانے والے مطالبات کو نظر انداز کیا۔
گزشتہ سال حسینہ کی معزولی کے بعد، ایک سابق بریگیڈیئر جنرل عبداللہ الامان اعظمی، اور وکیل احمد بن قاسم کو رہا کر دیا گیا تھا- ان دونوں کو آٹھ سال قبل اغوا کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے ہی وہ لاپتہ تھے۔
ایک دن بعد، سیاسی کارکن مائیکل چکما کو رہا کر دیا گیا، جو 2019 میں لاپتہ ہونے کے بعد سے قید میں تھے۔
انسانی حقوق کے گروپ ایک طویل عرصے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی کا ادارہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فورسز انٹیلیجنس(ڈی جی ایف آئی) جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے لیے کئی خفیہ حراستی مراکز چلاتی ہے۔
اعظمی، قاسم اور چکما نے بتایا کہ انہیں ڈی جی ایف آئی کے زیر انتظام ایک خفیہ جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کا نام "عینا گھر" ہے، جس کا بنگلہ زبان میں مطلب "آئینوں کا گھر" ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق حسینہ کے دور اقتدار میں،آر اے بی، ڈی جی ایف آئی، پولیس اور دیگر سکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں افراد کی جبری گمشدگیوں میں ملوث تھیں۔
حسینہ کی معزولی کے بعد، ڈی جی ایف آئی نے ایک بیان جاری کیا جس میں تسلیم کیا گیا کہ حسینہ کے دور اقتدار میں بہت سے بنگلہ دیشی جبری گمشدگیوں کا شکار ہوئے۔
بیان میں کہا گیا تھا،" لیکن اب کوئی ہماری قید میں نہیں ہے۔"
سی ای ای ڈی کے ایک رکن، سجاد حسین نے کہا کہ ٹیم کو اب تک 1000 سے زائد کیسز میں 330 متاثرین کے مقامات کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سکیورٹی فورسز کے بہت سے دفاتر کا دورہ کیا ہے اور ڈھاکہ اور ڈھاکہ کے باہر مختلف مقامات پر 14 خفیہ حراستی مراکز کو بے نقاب کیا ہے۔
کمیشن کو ان حراستی مراکز میں "کوئی زندہ بچ جانے والا یا متاثرین کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ جبری گمشدگیوں کے 1,752 متاثرین میں سے 330 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔
"حسین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کمیشن کو ایسے شواہد ملے ہیں جن میں حسینہ کی حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کے خود ان سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا، "مقدمات کا جائزہ لینے کے بعد، ہم نے پہلے ہی سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کئی اعلیٰ عہدے داروں کی شناخت کر لی ہے جو گمشدگیوں میں ملوث تھے۔
"حسینہ اور ان کے سینئر حکام نے بارہا ایسی خبروں کی تردید کی ہے۔
شواہد تباہ کردیے گئے؟کچھ کارکنوں کا کہنا ہے کہ ڈی جی ایف آئی نے حسینہ کی اقتدار سے معزولی کے فوراً بعد جبری گمشدگیوں سے متعلق شواہد کو تباہ کر دیا۔
بنگلہ دیش میں 15 سال سے زیادہ عرصے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دستاویز بندی کرنے والی تنظیم کیپٹل پنشمنٹ جسٹس پروجیکٹ کے محمد اشرف الزمان نے، ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہی وجہ ہے کہ فوج نے حال ہی میں ڈی جی ایف آئی کے زیر انتظام حراستی مراکز کے سرکاری دورے کے دوران رسائی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
"انہوں نے کہا، "ڈی جی ایف آئی مسلح افواج کی ایک طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی ہے، جسے مکمل استثنیٰ حاصل ہے اور وہ اپنے اعمال کے لیے جوابدہی سے بچتی رہی ہے۔"
انہوں نے کہا، "جب عبوری حکومت کے سربراہ نے فروری 2025 کے اوائل میں متاثرین، صحافیوں اور جبری گمشدگیوں سے متعلق انکوائری کمیشن کے ارکان کے ساتھ دورے کا منصوبہ بنایا، تو مسلح افواج نے حراستی مرکز تک رسائی میں رکاوٹیں ڈال کر اپنے جرائم کو چھپانے کی پوری کوشش کی۔
"ایچ آر ڈبلیو ایشیا کی ڈپٹی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کمیشن کا تازہ ترین بیان متاثرہ خاندانوں کے لیے "تباہ کن" ہے، جو ان کے بقول اپنے پیاروں کے بارے میں حقیقت جاننے کے مستحق ہیں۔
انہوں نے کہا، "عبوری حکومت کو چاہیے کہ وہ ایچ آر سی کو ایک قرارداد پیش کرے "تاکہ ایسے شواہد کا تجزیہ اور محفوظ کرنے کے لیے ایک ماہرانہ طریقہ کار قائم کیا جائے جو بنگلہ دیش یا کسی اور جگہ پر مقدمہ چلانے کے لیے استعمال کیے جا سکیں۔
" اہل خانہ کی خواہش، حکام تلاش جاری رکھیںجبری گمشدگیوں کے متاثرین کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ حکام لاپتہ افراد کی تلاش جاری رکھیں۔
بے بی اختر نے کہا کہ "بہت سے بنگلہ دیشی برسوں سے بھارتی جیلوں میں پڑے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ میرے شوہر کو زبردستی ملک سے باہر بھیجے جانے کے بعد وہ کہیں پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے حکام کو اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے اور ان جیلوں میں بنگلہ دیشی جبری گمشدگی کے متاثرین کی تلاش کرنی چاہئے"۔
ان کے شوہر، طارق الاسلام تارا، 2012 سے، جب ڈھاکہ میں مبینہ طور پر سادہ لباس میں پولیس اہلکاروں نے انہیں اٹھا لیا تھا، گھر واپس نہیں آئے۔
باٹین کی اہلیہ اسمرتی نے کہا کہ وہ گزشتہ برسوں میں آراے بی اور کئی دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کے دفاتر کے چکر لگاتی رہی ہیں، لیکن اب تک ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں مل سکی۔
انہوں نے کہا، "مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے شوہر کے اغوا کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ یہ بہت افسوسناک ہے۔"
ج ا ⁄ ص ز (شیخ عزیز الرحمن ڈھاکہ)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جبری گمشدگیوں کے انسانی حقوق کی بنگلہ دیش میں ڈی جی ایف آئی حراستی مراکز انہوں نے کہا بنگلہ دیشی انٹیلی جنس نے کہا کہ حسینہ کی بتایا کہ کے ساتھ کے لیے کر دیا کے بعد اور ان
پڑھیں:
بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔
تاہم 17 کروڑ آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں سیاست تقسیم در تقسیم اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے دوران اور بعد میں وجود میں آنے والے اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ انتخابات میں صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔
اہم جماعتیں کون سی ہیں؟شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر پابندی کے بعد بڑے کھلاڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اسلام پسند جماعت، جماعتِ اسلامی ہیں۔
ایک اور اہم جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) ہے، جو ان طلبہ رہنماؤں نے بنائی جنہوں نے بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
(جاری ہے)
آپسی رقابتوں نے سڑکوں پر جھڑپوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ یونس انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
یونس کی پوزیشن کیا ہے؟ملک میںمائیکروفنانس کے بانی پچاسی سالہ یونس، جو انتخابات کے بعد مستعفی ہو جائیں گے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘
امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگلمین، جنہوں نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ ''کچھ کلیدی عناصر کا شاید انتخابات مؤخر ہونے میں مفاد ہو سکتا ہے۔
‘‘یونس کی روزمرہ کے سیاسی امور سے دوری اور فوج کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہی ہیں۔
فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں کی اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتیں قیاس آرائیوں کو اور ہوا دے رہی ہیں۔
فوج، جس کا ملک میں بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اب بھی طاقتور کردار کی حامل ہے۔
گروپ کیوں منقسم ہیں؟اختلاف کا بنیادی نکتہ جولائی کا ''نیشنل چارٹر‘‘ ہے۔
یہ ایک جامع اصلاحاتی دستاویز ہے، جو وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں توسیع تجویز کرتی ہے۔سیاسی جماعتوں نے 84 اصلاحی تجاویز پر اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اختلاف ہے کہ ان کو کیسے نافذ کیا جائے۔ سب سے بڑا اختلاف اس کی قانونی حیثیت پر ہے۔
نیشنل کنسینسس کمیشن کے نائب چیئرمین علی ریاض نے کہا، ''اب اصل تنازعہ ان تجاویز کے نفاذ کے طریقہ کار پر ہے۔
‘‘بی این پی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کو انتخابات سے پہلے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور صرف نئی پارلیمان ہی اس کی توثیق کر سکتی ہے۔
دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے ہی اس کی توثیق ہو۔
جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے اے ایف پی سے کہا کہ ''عوام کو اصلاحات پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اس لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے۔
‘‘این سی پی کے سینیئر رہنما صالح الدین صفات نے کہا کہ اگر انتخابات سے پہلے اس کی کوئی ''قانونی بنیاد‘‘ نہ بنائی گئی تو یہ ان لوگوں سے غداری ہو گی جو بغاوت میں مارے گئے۔
انہوں نے کہا، ''ہم اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘
جماعتوں کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پر صدارتی حکم کے ذریعے پابندی لگائی گئی۔
جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ جاتیہ پارٹی سمیت مزید 13 جماعتوں پر بھی پابندی لگائی جائے جن کے ماضی میں حسینہ سے روابط رہے ہیں۔
بی این پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عوامی لیگ پر مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے۔
بی این پی کے صلاح الدین احمد نے کہا،''کسی بھی جماعت پر انتظامی حکم کے ذریعے پابندی لگانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ فیصلہ عدالتی عمل کے ذریعے قانونی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
‘‘یونس پر جانبداری کے الزامات اس وقت لگے جب انہوں نے لندن میں بی این پی رہنما طارق رحمان سے ملاقات کی، جس پر جماعت اور این سی پی نے برہمی کا اظہار کیا۔
آگے کیا چیلنجز ہیں؟عبوری حکومت قانون وامان کے بگڑتے حالات کا سامنا کر رہی ہے۔
عالمی بینک کے سابق ماہرِ معاشیات زاہد حسین نے عبوری حکومت کو ''خوش مزاج اور دلیر‘‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ’’بے بس اور حیران‘‘بھی کہا۔
انسانی حقوق کی تنظیم "آئین و ثالث کیندر" (قانون و مصالحت مرکز) کے مطابق اس سال 124 ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے اعدادوشمار میں بھی قتل، زیادتی اور ڈکیتیوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کو قابلِ اعتماد انتخابات کرانے کے لیے فوج کی مکمل حمایت اور اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر مقابلہ کر سکیں۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر مامون المصطفیٰ نے کہا کہ بروقت انتخابات کے لیے یونس کو ''فوج کی غیر مشروط اور مستقل حمایت‘‘ حاصل کرنا ہو گی۔
ادارت: صلاح الدین زین