کراچی میں خسرہ پھر زور پکڑ گیا، سرکاری ہسپتالوں میں درجنوں بچے داخل
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
قومی ادارہ صحت برائے اطفال میں بھی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے اور یومیہ 6 سے زائد بچے خسرہ سے متاثر ہوکر ایمرجنسی میں پہنچ رہے ہیں اور روزانہ خسرہ کے 8 سے 10 کیسز رپوٹ ہورہے ہیں۔ سول ہسپتال کراچی میں بھی روزانہ خسرہ کے 4 سے 6 نئے کیسز سامنے آرہے ہیں جبکہ 12 مریض سول ہسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ عباسی شہید ہسپتال میں بھی خسرہ کے 6 مریض داخل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کراچی میں خسرہ پھر زور پکڑ گیا، سرکاری ہسپتالوں میں درجنوں بچے داخل کرا دیے گئے، سندھ انفیکشس ڈیزیزز ہسپتال نیپا کا آئسولیشن وارڈ مریضوں سے بھرگیا۔ تفصیلات کے مطابق کراچی خسرہ کے کیسز میں پھر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، سرکاری ہسپتالوں میں خسرہ سے متاثرہ درجنوں بچے داخل کرائے جاچکے ہیں۔ سندھ انفکشس ڈیزیزز ہسپتال کا آئسولیشن وارڈ مریضوں سے فُل ہوگیا، ہسپتال میں خسرہ سے متاثرہ 17 مریض زیر علاج ہیں جن میں سے 8 بچے ایک سال سے کم عمر کے ہیں۔ قومی ادارہ صحت برائے اطفال میں بھی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے اور یومیہ 6 سے زائد بچے خسرہ سے متاثر ہوکر ایمرجنسی میں پہنچ رہے ہیں اور روزانہ خسرہ کے 8 سے 10 کیسز رپوٹ ہورہے ہیں۔
سول ہسپتال کراچی میں بھی روزانہ خسرہ کے 4 سے 6 نئے کیسز سامنے آرہے ہیں جبکہ 12 مریض سول ہسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ عباسی شہید ہسپتال میں بھی خسرہ کے 6 مریض داخل ہیں، قطر ہسپتال اورنگی ٹاؤن میں رواں سال اب تک خسرہ کے 12 بچے رپورٹ ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ خسرہ ایک وبائی مرض ہے جو زیادہ تر بچوں پر حملہ آور ہوتا ہے، حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے والے بچے اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں، نزلہ، زکام کھانسی اور خارش خسرہ کی ابتدائی علامت ہیں، خسرہ قوت مدفعت کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور شدت اختیار کرنے پر جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: روزانہ خسرہ کے سول ہسپتال ہسپتال میں کراچی میں ہیں جبکہ میں بھی
پڑھیں:
جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل
دنیا ایک نئے جوہری دور میں داخل ہو رہی ہے، جہاں امریکا اور مغرب کا جوہری اجارہ داری کا خواب بتدریج ختم ہو رہا ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ جوہری ہتھیار دوسرے ممالک تک پھیلیں گے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کتنی تیزی سے یہ عمل مکمل ہوگا۔
آنے والے برسوں میں دنیا میں جوہری طاقتوں کی تعداد 9 سے بڑھ کر 15 یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ اگرچہ مغرب اس امکان کو عالمی تباہی کے مترادف سمجھتا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی دنیا کی سیاسی ساخت کو بنیادی طور پر متاثر نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی عالمی قیامت کا باعث بنے گی۔
جوہری طاقت: جنگی تاریخ میں انقلابجوہری ہتھیاروں کی ایجاد نے عالمی سیاست میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی۔ ان کی موجودگی نے طاقتور ریاستوں کو بیرونی جارحیت سے تقریباً ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ چند ممالک – خاص طور پر روس اور امریکا – ایسی جوہری طاقت رکھتے ہیں کہ انہیں کسی عالمی اتحاد کے ذریعے بھی شکست دینا ممکن نہیں رہا۔
یہ بھی پڑھیے روس کے نئے غیر جوہری دفاعی ہتھیار نے پوری دنیا کو چونکا دیا
چین بھی اب اس جوہری اشرافیہ میں شامل ہونے کی طرف گامزن ہے، اگرچہ اس کا ذخیرہ ابھی تک امریکا اور روس کے مقابلے میں محدود ہے۔
سلامتی مہنگی، خواہشات محدودعالمی سطح پر جوہری سپرپاور بننا انتہائی مہنگا عمل ہے۔ چین جیسے وسائل سے مالا مال ملک نے بھی حالیہ برسوں میں اس منزل کی طرف پیش رفت کی ہے، لیکن بیشتر ممالک کے لیے یہ راستہ قابلِ برداشت نہیں۔
خوش قسمتی سے زیادہ تر ممالک کو اس حد تک جانے کی ضرورت بھی نہیں۔ بھارت، پاکستان، ایران، برازیل، جاپان، اسرائیل جیسے ممالک کی جوہری خواہشات علاقائی تحفظ تک محدود ہیں، نہ کہ عالمی تسلط تک۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے چھوٹے جوہری ہتھیار عالمی طاقت کے توازن کو متزلزل نہیں کرتے۔
جوہری پھیلاؤ: خطرہ نہیں، استحکام کا ذریعہ؟ماضی میں کئی معروف مغربی اور روسی ماہرین کا یہ مؤقف رہا ہے کہ محدود سطح پر جوہری پھیلاؤ دراصل عالمی استحکام کو بڑھا سکتا ہے۔ جوہری ہتھیار کسی بھی جارحیت کی قیمت بہت بڑھا دیتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ریاستیں حملے سے پہلے کئی بار سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
یہ اصول شمالی کوریا کے طرزعمل میں واضح دیکھا جا سکتا ہے، جو معمولی جوہری صلاحیت کے باوجود واشنگٹن کے سامنے قدرے جری ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس، ایران نے معاہدوں پر بھروسہ کیا، اور جون 2025 میں امریکا اور اسرائیل کے حملے کا نشانہ بن گیا۔ اس واقعے نے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ جوہری تحفظ کے بغیر ریاستیں غیرمحفوظ ہیں۔
عدم پھیلاؤ کا نظام ناکام؟عالمی جوہری عدم پھیلاؤ کا نظام رفتہ رفتہ غیر مؤثر ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا جیسے ممالک نے اس نظام کی خلاف ورزی کی، مگر کسی کو سزا نہیں ملی۔ دوسری طرف ایران نے ضوابط پر عمل کیا اور اس کی قیمت چکائی۔
یہ منظرنامہ دیکھ کر جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک اب خود کو جوہری طاقتوں کی صف میں شامل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ چاہے امریکی حمایت سے خاموشی سے ہو یا خود مختارانہ طور پر۔
کیا 15 جوہری طاقتیں دنیا کا خاتمہ ہوں گی؟اگرچہ مغرب میں بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں مزید جوہری ریاستوں کا مطلب تباہی ہے، لیکن حقیقت میں ایسا ضروری نہیں۔
نئے جوہری ممالک – خواہ ایران ہو یا جاپان – فوری طور پر روس یا امریکا جیسے بڑے ذخائر نہیں بنا سکتے۔ ان کی جوہری طاقت زیادہ سے زیادہ دفاعی سطح تک محدود ہوگی، نہ کہ مکمل عالمی خطرہ۔
یہ بھی پڑھیے ایران جوہری افزودگی ترک نہیں کرے گا یہ قومی وقار کا مسئلہ ہے، عباس عراقچی
ہاں، علاقائی جنگوں کا خطرہ ضرور رہے گا۔ مثلاً بھارت اور پاکستان، یا ایران اور اسرائیل کے درمیان لیکن یہ تصادم عالمی تباہی کا سبب نہیں بنیں گے۔ اور ایسی صورتحال میں غالب امکان ہے کہ روس اور امریکا جیسے بڑے جوہری ممالک صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے مداخلت کریں گے۔
اصل خطرہ کہاں ہے؟ماہرین کے مطابق اصل خطرہ ان نئے جوہری ممالک سے نہیں، بلکہ مغرب – خصوصاً واشنگٹن کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں سے ہے۔
امریکا کی مشرقی ایشیا میں مداخلت، چین کو روکنے کے جنون میں اپنے اتحادیوں کو خطرے میں ڈالنا، اور ہر قیمت پر اسٹریٹیجک غلبہ برقرار رکھنے کی خواہش – یہی وہ عناصر ہیں جو دنیا کو واقعی بحران میں دھکیل سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا جوہری ہتھیار چین