بلوچستان سمیت ملک بھر میں امن و امان کی ابتر صورتحال ہے، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
مدرسہ خاتم النبیین (ص) جیکب آباد میں علماء و عوام سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ جعلی مینڈٹ کی حامل حکومت مکمل طور پر ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے ماہ مبارک رمضان بہار قرآن، عبادت، بندگی، روزے اور اعتکاف کا مہینہ ہے۔ ہمیں اس مبارک مہینے میں زیادہ وقت قرآن کریم کی تلاوت اور قرآن فہمی پر خرچ کرنا چاہئے۔ ہر مسجد میں روزانہ کی بنیاد پر اجتماعی تلاوت قرآن کریم اور درس قرآن کا اہتمام لازمی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مدرسہ جامعۃ المصطفیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیکب آباد علمائے کرام اور عوام سے ماہ مبارک رمضان میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مدرسہ خاتم النبیین (ص) میں روزانہ تلاوت قرآن کریم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ علماء کرام کو چاہئے کہ وہ خطبات جمعہ میں عوام کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی نصیحت کے ساتھ ساتھ تعمیر کردار کی تلقین کریں، جبکہ نماز جمعہ کا دوسرا خطبہ حالات حاضرہ پر مشتمل ہونا چاہئے۔ جس میں عوام کو امت مسلمہ کے مسائل و مشکلات اور اسلام دشمن سامراجی قوتوں کے شیطانی منصوبوں سے آگاہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں امن و امان کی ابتر صورتحال ہے۔ بلوچستان میں ٹرین کے سینکڑوں مسافروں کو اغواء کیا جا رہا ہے۔ جبکہ سندھ میں ڈاکو راج ہے، جو حکومت کے کنٹرول میں نہیں آ رہا۔ جعلی مینڈٹ کی حامل حکومت مکمل طور پر ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے عوام اس وقت سراپا احتجاج ہیں۔ کیونکہ دریائے سندھ سے غیر قانونی کینالز نکالے جا رہے ہیں۔ سندھ کو اعتماد میں لئے بغیر یکطرفہ طور پر سندھ کے پانی پر ڈاکہ قبول نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ مقصود نے کہا کہ
پڑھیں:
پوتا پوتی انور کہہ کر بلاتے ہیں، انور مقصود کا بچوں سے دوستی کا انوکھا فلسفہ
پاکستان کے نامور ادیب، مزاح نگار اور دانشور انور مقصود نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی جس میں اُن کی گفتگو نے نہ صرف ناظرین کو مسکرانے پر مجبور کیا بلکہ کئی گہرے معاشرتی پہلوؤں پر سوچنے کی راہیں بھی کھول دیں۔
گوہر رشید کے ساتھ اس بےتکلف نشست میں انور مقصود نے زندگی، رشتوں، تنقید، تعریف اور معاشرے کے رویوں پر اپنے مخصوص شائستہ انداز میں خیالات کا اظہار کیا۔
گفتگو کے دوران انور مقصود نے بتایا کہ ان کا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے رشتہ محض ایک بزرگ کا نہیں بلکہ دوستی پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بچے انہیں اُن کے نام سے پکارتے ہیں تو انہیں خوشی ہوتی ہے، عجیب نہیں لگتا۔ ان کے بقول، جب وہ بچوں سے پوچھتے ہیں کہ "مجھے انور کیوں کہتے ہو؟" تو وہ معصومیت سے جواب دیتے ہیں کہ "آپ ہمیں ہمارے نام سے کیوں پکارتے ہیں؟" انور صاحب نے کہا کہ بچوں کے ساتھ دوستی کرنا ہی اُن سے محبت کا سب سے خوبصورت طریقہ ہے، اور یہی ہر رشتے کی بنیاد ہونی چاہیے۔
تنقید کے رویے پر بات کرتے ہوئے انور مقصود نے کہا کہ اکثر لوگ دوسروں پر تنقید اس لیے کرتے ہیں تاکہ اپنی کمزوریاں چھپا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ خود کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، وہ دوسروں کی کامیابی کو دیکھ کر تنقید کا راستہ اپناتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر کسی شعبے کا ماہر شخص تعمیری تنقید کرے تو وہ قابل غور ہوتی ہے، لیکن اگر تنقید کرنے والا متعلقہ فن سے ناواقف ہو تو وہ صرف حسد کی علامت ہے۔
معاشرتی تضادات پر بات کرتے ہوئے انور مقصود نے ایک دلچسپ مشاہدہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں دیواروں پر نظر دوڑائی جائے تو مردانہ طاقت کے اشتہارات عام نظر آتے ہیں، لیکن کہیں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ خواتین کی طاقت بڑھائیں۔ ان کے بقول یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرے میں مرد خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ طاقت کے دعوے صرف مردوں کے لیے کیے جاتے ہیں۔
انور مقصود کی یہ گفتگو سوشل میڈیا پر بھی موضوعِ بحث بنی، جہاں ناظرین نے ان کے انداز، بصیرت اور معاشرتی تنقید کو سراہا۔ ان کے جملے، چاہے طنز کے پیرائے میں ہوں یا محبت بھرے انداز میں، ہمیشہ سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں اور دیر تک سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔