شام، 5 سالہ عبوری آئین کے مطابق اسلامی فقہ قانون سازی کا منبع قرار
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
خلاصے کے مطابق یہ عبوری آئین خواتین کو تعلیم اور کام میں حصہ لینے کے حق اور انہیں سیاسی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور آزادی رائے، اظہار رائے، میڈیا، اشاعت اور پریس کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شورش زدہ عرب ملک شام کی عبوری صدر احمد الشراح نے عبوری آئین پر دستخط کردیے ہیں، جو 5 سال کی عبوری مدت کے لیے نافذ العمل ہوگا، عبوری آئین میں اسلامی فقہ کا مرکزی کردار برقرار رکھا گیا ہے، جبکہ خواتین کے حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس عبوری آئین کا مقصد صدر احمد الشرع کی زیر قیادت عبوری حکومت کو بنیاد فراہم کرنا ہے، جنہوں نے دسمبر میں ایک بغاوت کی قیادت کی تھی جس کے نتیجے میں بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا تھا۔
عبوری آئین پر دستخط کی تقریب کے دوران پڑھے جانے والے خلاصے کے مطابق اسلامی فقہ قانون سازی کا منبع ہوگی، یہ پچھلے آئین سے مختلف معلوم ہوتا ہے جس میں اسے قانون سازی کا اہم ذریعہ قرار دیا گیا تھا۔ عبوری آئین ساز کمیٹی کے ایک رکن نے عبوری آئین کے مسودے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہ ہم نے قانون سازی کے ذرائع میں اسلامی فقہ کو قانون سازی کا منبع قرار دیا ہے، یہ فقہ ایک حقیقی خزانہ ہے جسے ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔
خلاصے کے مطابق یہ عبوری آئین خواتین کو تعلیم اور کام میں حصہ لینے کے حق اور انہیں سیاسی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور آزادی رائے، اظہار رائے، میڈیا، اشاعت اور پریس کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ احمد الشرع نے فروری میں کہا تھا کہ صدارتی انتخابات کے انعقاد میں 4 سے 5 سال لگیں گے، شام کا سابقہ آئین، جو 2012 میں قانون بنا تھا، جنوری میں معطل کر دیا گیا تھا۔ واضح رہے یہ نعرے اس وقت لگائے جا رہے ہیں جب اقتدار پر قابض باغی گروہ نے اقلیتی گروہوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قانون سازی کا اسلامی فقہ کے مطابق
پڑھیں:
پنجاب حکومت کو گندم کی قیمتیں مقرر کرنے سے متعلق بنائے گئے قانون پر عملدرآمد کا حکم
لاہور ہائی کورٹ نے گندم کی قیمت مقرر نہ کیے جانے کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ سنادیا۔
عدالت نے پنجاب حکومت کو قیمتوں کےتعین سے متعلق بنائے گئے قانون پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔
عدالتی فیصلے میں محکمہ زراعت کی گندم کے فی من اخراجات کی رپورٹ کو شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق فی من گندم کی لاگت 3 ہزار 533 روپے ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سرکاری اداروں نے سیزن کے دوران آئین کے تحت اپنا کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی اخراجات کو مدنظر رکھ کر فی من قیمت کا تعین کیاگیا۔
عدالت نے نشاندہی کی کہ سرکاری وکیل کے مطابق قیمتوں کے تعین کے لیے قانون بنا دیا گیا ہے تاہم کم زمین والے اور ٹھیکے پر کاشتکاری کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ سرکاری اداروں نے تسلیم کیا ہے کہ گندم خوراک کا ایک بنیادی جزو ہے۔
یاد رہے کہ یہ درخواست صدر کسان بورڈ کی جانب سے 8 اپریل 2025 کو دائر کی گئی تھی جس میں وفاقی اور پنجاب حکومت سمیت دیگر اداروں کو فریق بنایا گیا تھا۔