نومولود کو دھاتی چمچ پسند نہیں!
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
پچھلی بار ہم نے ویکیوم ڈیلیوری کے حوالے سے بات کی تھی اور آج فورسیپس کی باری ہے۔ فورسییپس فولادی دھات سے بنے ہوئے چمچ نما اوزاروں کو کہا جاتا ہے جن کی مدد سے زچگی کے دوران بچے کے سر کو کھینچا جاتا ہے۔
چمچ کی شکل والے دونوں حصے وجائنا میں ڈال کر بچے کے کانوں کے گرد لگائے جاتے ہیں۔ وجائنا سے باہر موجود ہینڈل کو لاک کیا جاتا ہےاور پھر ہینڈل کو کھینچتے ہوئے بچے کے سر کو باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بچے کا سر بے ڈھب کیوں ہے؟
زچگی کے عمل میں دنیا کے کسی بھی اور شعبے کی طرح پیچیدگیاں ہونے کا احتمال ہر وقت رہتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے شعبوں کی پیچیدگی میں انسانی جان کی بجائے بے جان چیزوں کے نقصان کا احتمال ہوتا ہے جبکہ زچگی میں 2 انسانی جانوں کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
فورسیپس 17ویں صدی میں ایجاد ہوئے اور مقصد وہی کہ اگر بچہ پیدا نہ ہو رہا ہو اور بچے کو آکسیجن ٹھیک طرح نہ مل رہی ہو تب بچے کے سر کے دونوں طرف فورسیپس لگا کر اسے باہر نکالا جائے۔
فورسیپس سے ہماری آشنائی تب ہوئی جب ’آتش‘ کو گائنی کی اے بی سی بھی نہیں آتی تھی۔ لیکن ہنر سیکھنے سے پہلے ہی فورسییپس ہمارے جسم پر چل گئے اور پہلی زچگی میں ہی بیڑا غرق ہو گیا۔
زچگی کے بعد بچی کا سر اتنا عجیب دکھتا تھا کہ ہماری امی کا دل ہی بیٹھ گیا یہ سوچ کر کہ شاید بچی نارمل نہیں ہے۔ بعد میں عقدہ کشائی ہوئی کہ اسٹیل کے بنے ہوئے دھاتی چمچوں نے ماں بیٹی کو خوب مزہ چکھایا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: میرا یہ حال کیوں ہوا؟
اسپیشلائزیشن کا دور شروع ہوا تو ہم نے فورسیپس، ویکیوم اور سیزیرین کے درمیان تنقیدی جائزہ لینا شروع کیا کہ کس کی کارکردگی بہتر ہے؟ آپس کی بات ہے کہ فورسیپس ہمارے نزدیک ناپسندیدہ ترین ٹھہرے اور ہم نے ہمیشہ ویکیوم اور سیزیرین کو فورسیپس پر ترجیح دی۔
ان دنوں کیوی ویکیوم نے جنم نہیں لیا تھا۔ اس لیے اگر سیزیرین کے دوران بچے کا سر باہر نکالنے میں مشکل ہوتی تو فورسیپس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ فورسیپس کو کانوں سے پھسل کر بچے کی ٹھوڑی پر کٹ لگاتے کئی بار دیکھا اور برتا بھی سو وہ مزید ناپسندیدہ ہو گئے۔
ہمارے حساب کتاب کے مطابق پیٹ کٹنے اور وجائنا کٹنے میں کوئی فرق نہیں۔ وجائنا کبھی بھی اصلی حالت میں واپس نہیں جاتی اور کئی بار تو اس قدر کٹ پھٹ جاتی ہے کہ نقصان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: زچگی کے عمل کا دوسرا فریق
بات ہو رہی تھی فورسیپس ڈیلیوری کی، کئی ممالک میں فورسیپس ڈلیوری کو محدود کر دیا گیا ہے اور سیزیرین کو اس کے مقابلے میں محفوظ قرار دیا گیا ہے۔
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دھاتی اوزار وجائنا جیسی تنگ جگہ میں داخل ہو کر جس میں پہلے سے بچے کا سر بھی موجود ہو، کیا قیامت ڈھا سکتے ہیں۔ اور کھینچنے کے عمل کے دوران وجائنا کے آس پاس پیشاب اور پاخانے والے اعضا کس حد تک متاثر ہو سکتے ہیں۔لیکن مشکل یہ ہے کہ لیبر روم میں زچہ بچہ کے ساتھ جو چاہے ہو، مگر پیٹ نہ کٹے تو زچہ کی بلے بلے ہو جاتی ہے چاہے بعد میں وہ ساری عمر تاوان بھرتی رہے۔
چلیے آپ کو اپنے اناڑی پن کے دور کا ایک قصہ بھی سنا دیتے ہیں تاکہ آپ کو علم ہو کہ ہر طرح کا کھیل کھیل کر ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟
بڑے شہروں میں یہ پریکٹس عام ہے کہ چھوٹے چھوٹے نرسنگ ہومز کو جب ایمرجینسی میں مریض کا سیزیرین کروانا ہو تو وہ کسی ٹرینی ڈاکٹر یا نئے نئے اسپیشلسٹ بنے ڈاکٹر کو بلا لیتے ہیں، ان کے لیے یہ انتظام کم خرچ بالا نشین اور ڈاکٹر کے لیے نئی نئی اسپیشلائزیشن کی پریکٹس اور کچھ آمدنی بھی۔
مزید پڑھیں: بچہ پیدا کرنے کے لیے ویجائنا کٹوائیں یا پیٹ؟
لیجیے صاحب، دیکھا دیکھی ہمیں بھی شوق ہوا اس زمانے میں کہ 2،4 جگہ اپنا نام لکھوائیں اور جب نرسنگ ہوم والے زچ ہو جائیں تو اپنی فہرست میں لکھے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز میں سے کسی ایک کو بلا لیں۔ مقصد وہی کہ 4 پیسے اضافی کما لیں، بچوں کے اسکولز کی فیس ہی نکل آئے گی۔ ایسے میں کبھی کبھار قرعہ ہمارے نام نکل آتا۔ سوچیے پنڈی کی سرد رات میں گرم گرم بستر سے نکل کر جب جانا پڑتا تو کیسا لگتا ہو گا؟ کیا کریں یہ ایسی جنگ ہے جو زنانیوں کو ہی کھیڈنی پڑتی ہے۔ ایسی ہی ایک تاریک رات میں نرسنگ ہوم سے بلاوا آیا۔ مرتے کیا نہ کرتے ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے چلے گئے فوراً۔ سیزیرین مشکل تھا، فربہ اندام مریضہ، پچھلے سیزیرین کی وجہ سے جسم کی سب تہیں آپس میں الجھی ہوئی، اب بچہ نکالنے کی کوشش کریں تو نکلے نہیں۔ ویکیوم تھا نہیں تھک کے فورسیپس لگا کر بچہ نکالا، اس کھینچا تانی میں ایک چمچ پھسل کر بچے کی ٹھوڑی پر چھوٹا سا زخم بنا گیا۔
ہم بتا چکے ہیں کہ زچگی میں کبھی بھی کوئی بھی گڑبڑ ہو سکتی ہے لیکن تجربہ کار ہاتھوں میں اس کا احتمال کم رہ جاتا ہے۔ جیسے ڈیزائنر درزی سے غلطی ہونے کا چانس نہ ہونے کے برابر اور اگر ہو تو شرمندگی اپنے آپ سے کہ کیا سیکھا ہنر۔ ایسے ہی ہمیں بھی ہوئی گو کہ تب ہاتھ میں ایسی ہنر کاری نہیں اتری تھی جو برسہا برس کے تجربے سے بعد میں عطا ہوئی۔ لیکن اس چھوٹی سی پیچیدگی کے بعد بھی ہم اتنے افسردہ ہوئے کہ آپریشن فیس لینے سے ہی انکار کر دیا اور ساتھ ہی کانوں کو ہاتھ لگائے کہ تب تک پرائیویٹ پریکٹس کا نام نہیں لیں گے جب تک ۔ ۔ ۔ سمجھ جائیے نا اب اپنے منہ سے کیا کہیں!
مزید پڑھیے: چھلاوہ حمل!
اسی لیے ہم سب ڈاکٹرز کو نصیحت کرتے ہیں کہ انسانی جان کے ساتھ ہوئی غلطی کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں۔ اس میدان میں اس وقت تک مت اترنا جب تک سارے پیچ وخم سے واقف نہ ہوجاؤ۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اوزاروں سے ڈیلیوری فورسیپس فورسیپس زخم جاتا ہے زچگی کے کے لیے بچے کے
پڑھیں:
فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی) ایف بی آر کی سینئر قیادت نے کہا ہے کہ ادارے کا کسٹمز فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ایف بی آر کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔ فیس لیس اسیسمنٹ سسٹم کا آغاز ریونیو کے لیے نہیں کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد بد عنوانی کا خاتمہ تھا۔ اس نظام پر عمل کرنے کی وجہ سے جو لوگ متاثر ہوئے ہیں وہی اس کا رول بیک جاتے ہیں۔ ایف بی آر ہی کے ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل آٖ ف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی رپورٹ کے بعض مندرجات کی تردید کے لئے پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ اس ابتدائی نوعیت کی رپورٹ کو میڈیا کو لیک کیا گیا۔ ہمیں یہ بعد میں ملی اور میڈیا پر اس کے مندرجات کی غلط تشریح کی گئی۔ اس لیکج میں وہ افسر ملوث ہیں جن کی ذاتی نوعیت کی شکایات ہیں۔ رپورٹ میں ایسی چیزیں لائی گئی تھیں جو غلط تھیں۔ انکوائری کمیٹی بنا دی گئی ہے جس کی رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی۔ فیس لیس اسیسمنٹ سسٹم کو پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے گا۔ اس کو رول بیک نہیں کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال، ممبر کسٹمز آپریشن سید شکیل شاہ اور دیگر اعلی افسروں نے میڈیا سے بات چیت میں کیا۔ چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ کسٹم کے فیس لیس اسیسمنٹ نظام کو ریونیو کے مقصد کے لیے شروع نہیں کیا تھا، اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسٹم کلیئرنس میں رشوت کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر میں کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس ہے۔ گاڑیوں کی کلیئرنس کا سکینڈل سامنے آیا۔ اس میں دو افسروں کو گرفتار کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں تاجروں کی ہڑتال کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کسٹم کلیئرنس کا پرانا نظام واپس دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ ادارے میں وہ آٹھ اگست 2024 کو تعینات ہوئے تھے، انہوں نے اب تک کبھی کسی افسر کی تعیناتی سفارش پر نہیں کی ہے۔ ممبر کسٹم آپریشن شکیل شاہ نے کہا کہ ایف بی آر میں اصلاحات کے پلان پر عمل ہو رہا ہے۔ انہی میں سے ایک فیس لیس کسٹم اسیسمنٹ ہے، کیونکہ زیادہ تر امپورٹس کراچی کی بندرگاہ سے ہوتی ہیں، اس لیے وہاں یہ سسٹم شروع کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے بیرون ملک سے آنے والی درآمدات کے لیے مختلف مختلف اشیاء کو کلیئر کرنے کے لیے گروپس بنا دیے جاتے تھے جس میں درآمد کرنے والے کو یہ پتہ ہوتا تھا کہ اس کی چیز کلیئرنس کس نے کرنی ہے اور اس سے ساز باز کرنا ممکن ہوتا تھا۔ اب ایک ہال میں 40 افسر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی افسر کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جس جی ڈی پر کام کر رہا ہے وہ کس کی ہے اور سارا کام ایک ہی ہال کے اندر ہوتا ہے اور اس کی سخت نگرانی ہوتی ہے اور ہال میں ٹیلی فون یا ای میل کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ درآمدی اشیاء کی کلیئرنس میں ٹائم بڑھنے کا تاثر بھی درست نہیں ہے۔ معمولی تاخیر ضرور ہوتی ہے لیکن اس کے کچھ بیرونی عوامل بھی ہیں جن میں بندرگاہ پر بہت زیادہ رش اور پروسیجرل رکاوٹیں موجود ہیں اور اس کی وجہ ایف سی اے نہیں ہے۔ انہوں نے بعض آڈٹ آبزرویشن کے لیک ہونے کے حوالے سے کہا کہ ان میں چیزوں کو غلط طور پر بیان کیا گیا اور بعض باتیں تو کلی طور پر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی اس غیر قانونی لیک کے ذمہ دار ہیںیا جان بوجھ کر مس رپورٹنگ کر رہے ہیں ان کا احتساب کیا جائے گا۔ ہم اس سسٹم کو مزید بہتر بنائیں گے اور اصلاحات کو ڈی ریل کرنے والوں کے خلاف تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔