WE News:
2025-06-09@13:30:23 GMT

نومولود کو دھاتی چمچ پسند نہیں!

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

پچھلی بار ہم نے ویکیوم ڈیلیوری کے حوالے سے بات کی تھی اور آج فورسیپس کی باری ہے۔ فورسییپس فولادی دھات سے بنے ہوئے چمچ نما اوزاروں کو کہا جاتا ہے جن کی مدد سے زچگی کے دوران بچے کے سر کو کھینچا جاتا ہے۔

چمچ کی شکل والے دونوں حصے وجائنا میں ڈال کر بچے کے کانوں کے گرد لگائے جاتے ہیں۔ وجائنا سے باہر موجود ہینڈل کو لاک کیا جاتا ہےاور پھر ہینڈل کو کھینچتے ہوئے بچے کے سر کو باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بچے کا سر بے ڈھب کیوں ہے؟

زچگی کے عمل میں دنیا کے کسی بھی اور شعبے کی طرح پیچیدگیاں ہونے کا احتمال ہر وقت رہتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے شعبوں کی پیچیدگی میں انسانی جان کی بجائے بے جان چیزوں کے نقصان کا احتمال ہوتا ہے جبکہ زچگی میں 2 انسانی جانوں کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

فورسیپس 17ویں صدی میں ایجاد ہوئے اور مقصد وہی کہ اگر بچہ پیدا نہ ہو رہا ہو اور بچے کو آکسیجن ٹھیک طرح نہ مل رہی ہو تب بچے کے سر کے دونوں طرف فورسیپس لگا کر اسے باہر نکالا جائے۔

فورسیپس سے ہماری آشنائی تب ہوئی جب ’آتش‘ کو گائنی کی اے بی سی بھی نہیں آتی تھی۔ لیکن ہنر سیکھنے سے پہلے ہی فورسییپس ہمارے جسم پر چل گئے اور پہلی زچگی میں ہی بیڑا غرق ہو گیا۔

زچگی کے بعد بچی کا سر اتنا عجیب دکھتا تھا کہ ہماری امی کا دل ہی بیٹھ گیا یہ سوچ کر کہ شاید بچی نارمل نہیں ہے۔ بعد میں عقدہ کشائی ہوئی کہ اسٹیل کے بنے ہوئے دھاتی چمچوں نے ماں بیٹی کو خوب مزہ چکھایا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: میرا یہ حال کیوں ہوا؟ 

اسپیشلائزیشن کا دور شروع ہوا تو ہم نے فورسیپس، ویکیوم اور سیزیرین کے درمیان تنقیدی جائزہ لینا شروع کیا کہ کس کی کارکردگی بہتر ہے؟ آپس کی بات ہے کہ فورسیپس ہمارے نزدیک ناپسندیدہ ترین ٹھہرے اور ہم نے ہمیشہ ویکیوم اور سیزیرین کو فورسیپس پر ترجیح دی۔

ان دنوں کیوی ویکیوم نے جنم نہیں لیا تھا۔ اس لیے اگر سیزیرین کے دوران بچے کا سر باہر نکالنے میں مشکل ہوتی تو فورسیپس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ فورسیپس کو کانوں سے پھسل کر بچے کی ٹھوڑی پر کٹ لگاتے کئی بار دیکھا اور برتا بھی سو وہ مزید ناپسندیدہ ہو گئے۔

ہمارے حساب کتاب کے مطابق پیٹ کٹنے اور وجائنا کٹنے میں کوئی فرق نہیں۔ وجائنا کبھی بھی اصلی حالت میں واپس نہیں جاتی اور کئی بار تو اس قدر کٹ پھٹ جاتی ہے کہ نقصان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: زچگی کے عمل کا دوسرا فریق

بات ہو رہی تھی فورسیپس ڈیلیوری کی، کئی ممالک میں فورسیپس ڈلیوری کو محدود کر دیا گیا ہے اور سیزیرین کو اس کے مقابلے میں محفوظ قرار دیا گیا ہے۔

آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دھاتی اوزار وجائنا جیسی تنگ جگہ میں داخل ہو کر جس میں پہلے سے بچے کا سر بھی موجود ہو، کیا قیامت ڈھا سکتے ہیں۔ اور کھینچنے کے عمل کے دوران وجائنا کے آس پاس پیشاب اور پاخانے والے اعضا کس حد تک متاثر ہو سکتے ہیں۔لیکن مشکل یہ ہے کہ لیبر روم میں زچہ بچہ کے ساتھ جو چاہے ہو، مگر پیٹ نہ کٹے تو زچہ کی بلے بلے ہو جاتی ہے چاہے بعد میں وہ ساری عمر تاوان بھرتی رہے۔

چلیے آپ کو اپنے اناڑی پن کے دور کا ایک قصہ بھی سنا دیتے ہیں تاکہ آپ کو علم ہو کہ ہر طرح کا کھیل کھیل کر ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟

بڑے شہروں میں یہ پریکٹس عام ہے کہ چھوٹے چھوٹے نرسنگ ہومز کو جب ایمرجینسی میں مریض کا سیزیرین کروانا ہو تو وہ کسی ٹرینی ڈاکٹر یا نئے نئے اسپیشلسٹ بنے ڈاکٹر کو بلا لیتے ہیں، ان کے لیے یہ انتظام کم خرچ بالا نشین اور ڈاکٹر کے لیے نئی نئی اسپیشلائزیشن کی پریکٹس اور کچھ آمدنی بھی۔

مزید پڑھیں: بچہ پیدا کرنے کے لیے ویجائنا کٹوائیں یا پیٹ؟

لیجیے صاحب، دیکھا دیکھی ہمیں بھی شوق ہوا اس زمانے میں کہ 2،4 جگہ اپنا نام لکھوائیں اور جب نرسنگ ہوم والے زچ ہو جائیں تو اپنی فہرست میں لکھے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز میں سے کسی ایک کو بلا لیں۔ مقصد وہی کہ 4 پیسے اضافی کما لیں، بچوں کے اسکولز کی فیس ہی نکل آئے گی۔ ایسے میں کبھی کبھار قرعہ ہمارے نام نکل آتا۔ سوچیے پنڈی کی سرد رات میں گرم گرم بستر سے نکل کر جب جانا پڑتا تو کیسا لگتا ہو گا؟ کیا کریں یہ ایسی جنگ ہے جو زنانیوں کو ہی کھیڈنی پڑتی ہے۔ ایسی ہی ایک تاریک رات میں نرسنگ ہوم سے بلاوا آیا۔ مرتے کیا نہ کرتے ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے چلے گئے فوراً۔ سیزیرین مشکل تھا، فربہ اندام مریضہ، پچھلے سیزیرین کی وجہ سے جسم کی سب تہیں آپس میں الجھی ہوئی، اب بچہ نکالنے کی کوشش کریں تو نکلے نہیں۔ ویکیوم تھا نہیں تھک کے فورسیپس لگا کر بچہ نکالا، اس کھینچا تانی میں ایک چمچ پھسل کر بچے کی ٹھوڑی پر چھوٹا سا زخم بنا گیا۔

ہم بتا چکے ہیں کہ زچگی میں کبھی بھی کوئی بھی گڑبڑ ہو سکتی ہے لیکن تجربہ کار ہاتھوں میں اس کا احتمال کم رہ جاتا ہے۔ جیسے ڈیزائنر درزی سے غلطی ہونے کا چانس نہ ہونے کے برابر اور اگر ہو تو شرمندگی اپنے آپ سے کہ کیا سیکھا ہنر۔ ایسے ہی ہمیں بھی ہوئی گو کہ تب ہاتھ میں ایسی ہنر کاری نہیں اتری تھی جو برسہا برس کے تجربے سے بعد میں عطا ہوئی۔ لیکن اس چھوٹی سی پیچیدگی کے بعد بھی ہم اتنے افسردہ ہوئے کہ آپریشن فیس لینے سے ہی انکار کر دیا اور ساتھ ہی کانوں کو ہاتھ لگائے کہ تب تک پرائیویٹ پریکٹس کا نام نہیں لیں گے جب تک ۔ ۔ ۔ سمجھ جائیے نا اب اپنے منہ سے کیا کہیں!

مزید پڑھیے: چھلاوہ حمل!

اسی لیے ہم سب ڈاکٹرز کو نصیحت کرتے ہیں کہ انسانی جان کے ساتھ ہوئی غلطی کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں۔ اس میدان میں اس وقت تک مت اترنا جب تک سارے پیچ وخم سے واقف نہ ہوجاؤ۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

اوزاروں سے ڈیلیوری فورسیپس فورسیپس ڈیلیوری فورسیپس زخم نومولود اور فورسیپس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اوزاروں سے ڈیلیوری فورسیپس فورسیپس زخم جاتا ہے زچگی کے کے لیے بچے کے

پڑھیں:

عید الاضحی کا اہم پیغام

مسجد الحرام کے امام شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے دعا کروائی کہ ’’ اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرمائے اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے والے ظالموں کو برباد کردے اور ان کے قدم اکھیڑ دے، انھوں نے مزید کہا کہ والدین سے صلہ رحمی، نرمی اور وعدوں کی تکمیل بھی دین کا حصہ اور حیا ایمان کی شاخ ہے ۔ ہمسایوں کا خیال رکھیں، یتیموں، بیواؤں اورکمزور طبقات سے ہمدردی اور شفقت کا برتاؤ کریں۔

 بلاشبہ مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن حمید نے حجاج اور امت مسلمہ کو نہایت اہم اور جامع پیغام دیا ہے۔ حج اور عید الاضحیٰ صرف انفرادی عبادات نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے عظیم پیغامات کے حامل مواقع ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں مادیت، مفاد پرستی اور مطلق العنانیت غالب ہے، عید الاضحی اور حج ایثار، قربانی، اتحاد اور انسانی فلاح و بہبود کے کئی سبق لے کر آتے ہیں۔

درحقیقت عید الاضحی صرف جانور کی قربانی کا نام نہیں، بلکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بے مثال اطاعت، ایثار اور قربانی کی وہ روشن یاد ہے جس نے ہمیں یہ سبق دیا کہ اللہ کی رضا کے لیے ہر قسم کی قربانی پیش کی جا سکتی ہے کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ یہ دن ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ قربانی کا اصل مقصد صرف رسمی عبادت ادا کرنا نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا انسانی، معاشرتی اور روحانی پیغام ہے۔

اسلامی فلسفہ قربانی یہ ہے کہ بندہ اپنی ہر خواہش کو خالق و مالک کے حکم اور مرضی و منشاء پر قربان کر دے۔ عید قرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لیے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی ضروری ہے۔فلسطینی عوام کے لیے یہ دن خوشیوں کے بجائے آنسوؤں، ملبوں، شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد کے گراف میں اضافے کا پیغام لے کر آیا ہے۔ غزہ کی گلیاں خون سے رنگین ہیں، بچے عید کی نئی پوشاکوں کے بجائے کفن میں لپیٹے جا رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ کے مینار ایک بار پھر صہیونی جارحیت کی گواہی دے رہے ہیں۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ اس انسانی المیے پر عالم اسلام کا کیا رویہ ہے؟ فلسطینیوں کے لیے ہر عید ایک نیا امتحان لے کر آتی ہے۔ رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کے حملوں میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گاہوں حتیٰ کہ عبادت گاہوں پر بھی بمباری کی جا رہی ہے۔ مگر عالم اسلام کا اجتماعی ردِ عمل صرف زبانی بیانات اور چند علامتی احتجاجی جلسوں سے آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)، جو مسلمانوں کے اجتماعی فیصلوں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے، اپنی موجودگی کو ثابت کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔ جب امت کا ایک حصہ بدترین نسل کشی کا شکار ہو، تو او آئی سی کا خاموش رہنا یا رسمی بیانات جاری کرنا نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ یہ اس کی افادیت پر بھی ایک بڑا سا سوالیہ نشان ہے۔ غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت نے جہاں معصوم فلسطینیوں کے لیے قیامتِ صغریٰ برپا کر دی ہے، وہیں عالمی سطح پر امن اور انصاف کے اداروں کی مکمل ناکامی کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔

یہ صورت حال نہ صرف فلسطینیوں کے لیے المیہ ہے بلکہ بحیثیت مجموعی پوری انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ بن چکی ہے۔ معصوم بچوں کے خون سے سرخ ہوتی گلیاں اور زخمی خواتین کی درد ناک چیخیں عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ عالمی ادارے، مسلم ممالک اور دیگر بڑی قوتیں اسرائیل کو غزہ کے بے قصور و بے بس عوام پر ظلم سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔

 اس وقت دنیا میں انسانی حقوق کی حالت بدترین ہو چکی ہے۔ بھوک و افلاس سے مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی نسل پرستی کے واقعات روز کا معمول ہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر اپنی تہذیب و ثقافت کو کمزور اقوام پر تھوپا جا رہا ہے۔ آج جو لوگ انسانیت کا راگ الاپتے ہیں، وہ درحقیقت انسانیت سے عاری ہیں۔ نسلی، لسانی، علاقائی اور مذہبی تعصبات نے انسان کو انسان ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

دولت کی ہوس اور عالمی نظام نے ہمدردی، محبت اور انسان شناسی کے جذبات کو ختم کر دیا ہے۔ طاقتور قوموں کی توسیع پسندانہ پالیسیاں سمندروں کو خون سے رنگین کر رہی ہیں۔ عالمی امن کے علم بردار ادارے سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونے بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس ناک صورت حال عورتوں کی ہے۔ آزادی اور مساوات کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود سب سے زیادہ ظلم و تشدد کی شکار خواتین ہی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک اگر اپنے ہی بنائے ہوئے عالمی منشور پر صدقِ دل اور دیانت داری سے عمل کرتے تو کسی حد تک دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن سکتی تھی۔ ظلم و ستم کے بازار بند ہو جاتے، صنفِ نازک کے استحصال کا سلسلہ تھم جاتا اور سامراجی و استعماری قوتیں خود بخود مٹ جاتیں۔ لیکن افسوس کہ جن قوتوں نے اس منشور کے نفاذ کی ذمے داری لی، ان کی نیت صاف نہ تھی، اور وہ اس منشور کی آڑ میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل چاہتے تھے۔آج افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس اہم فریضے کو محض ایک دنیاوی تہوار سمجھ کر ایسے کام شروع کردیے ہیں، جس سے اس اہم فریضے کے ادائیگی کا مقصد پورا نہیں ہوتا، روحِ عبادت پر نمود و نمائش غالب آگئی ہے۔

ہرکوئی قربانی کے نام پر اپنی حیثیت اور استطاعت کی شیخی بگاڑتا نظر آتا ہے۔ اور قربانی کا گوشت جس پر سب سے پہلا حق مستحقین کا ہوتا ہے انھیں اُن کا حق اول تو ملتا ہی نہیں اور جو ملتا ہے تو وہ جو بچ جاتاہے رشتے داروں، ہمسائیوں وغیرہ سے وہ اُن کے حصے میں آتا ہے جسے بڑے حقیرانہ انداز میں، عجیب سے تیور دکھا کر انھیں دیا جاتا ہے جیسے کوئی بہت احسان کر رہے ہوں اور جو سفید پوش ہیں انھیں یہ دن بھی ایسے ہی فاقے میں گزارنا پڑتا ہے، کیونکہ ہاتھ وہ نہیں پھیلا سکتے۔ جو نعمتیں خدا نے ہمیں عطا کی ہیں وہ خدا کے دیے ہوئے میں سے بے بس، لاچار، مستحقین اور خاص کرکے سفید پوش لوگوں پر خرچ کرنا ہمارا فرض ہے۔ بہت سے والدین ایسے مواقعوں پر اپنے بچوں کی حسرتوں کو پورا نہیں کرسکتے اُن کی معصومیت کا خاص خیال رکھیں۔ گوشت دیتے ہوئے کوئی ایسے الفاظ استعمال نہ کریں جن سے اُن کی دل آزاری ہو۔

کسی کے دیے ہوئے گوشت میں سے اُن کو حصہ نہ دیں بلکہ اپنے حصے میں سے اُنکا حق انھیں دیں۔ ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالہ خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انھیں دگنی خوشی ملے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔ آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کر کے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں۔ اسی روش کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ معاشرہ کے مستحق افراد کی فکر بڑی حد تک مفقود ہے۔ جب ہم قریب ترین عزیزوں کے علاوہ کسی کو جانتے ہی نہ ہونگے تو اُس کے مشکل وقت کا علم کیسے ہوگا اور استطاعت کے باوجود اُس کی مشکل آسان کرنے کی ہمیں توفیق کیسے ہوگی؟ ہمارے اسلاف کا طریقہ یہ تھا کہ دوسرے وقت کے لیے کچھ بچا کر نہیں رکھتے تھے۔

بعض افراد سب کچھ تو کیا تھوڑا بہت بھی ضرورتمندوں کو دینے کے روادار نہیں ہوتے۔ جو لوگ فراخدل واقع ہوئے ہیں اُن کا طریقہ بھی کچھ ایسا ہے کہ دست تعاون اُس کی جانب دراز کرتے ہیں جو دست سوال دراز کرتا ہے، اُن لوگوں کی کیفیت جاننے کی کوشش نہیں کرتے جنھیں، ضرورتمند ہونے کے باوجود دست سوال دراز کرنے کی عادت نہیں یا وہ اشارے کنائے میں اپنی بات کہتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا مذہب ارتکازِ دولت کی حوصلہ شکنی اور تقسیم ِ دولت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اگر ہم ضرورتمندوں کی اُس طرح مدد کریں جس طرح مدد کرنے کا حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس قوم کی مالی حالت دگرگوں رہے، اس کے نوجوان تعلیم سے بے بہرہ رہیں اور اس کی مجموعی شبیہ پر سوال اُٹھے۔ آج انسانیت درد سے کراہ رہی ہے۔

ایک طرف کچھ لوگ زندگی کی بلند ترین سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو دوسری طرف کروڑوں انسان بھوک، پیاس، غربت، جہالت، بے شعوری، بے روزگاری، غلامی اور تنگ دستی کا شکار ہیں۔ طاقتور اقوام آج بھی غریب ملکوں کو زیر نگیں رکھنے کی سازشیں کر رہی ہیں۔اگر آج کی دنیا 1400 سال قبل حجۃ الوداع کے موقع پر محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کے دیے گئے پیغام جس میں انسانیت، بقائے باہمی اور حقوقِ انسانی پر زور دیا گیا تھا، پر عمل کرے تو جنگ و تباہی سے بچ سکتی ہے اور امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پسند کی شادی کرنے پر میاں بیوی قتل؛ سابق منگیتر ملوث نکلا
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟
  • صیہونی فوج کو 10,000 سے زائد اہلکاروں کی کمی کا سامنا، ترجمان کا انکشاف
  • تین سال پہلے کے نرخ اب؟
  • بس اب بہت ہو چکا
  • عید الاضحی کا اہم پیغام