UrduPoint:
2025-06-09@13:02:56 GMT

پلاسٹک اسٹرا، کس قدر نقصان دہ ہو سکتی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

پلاسٹک اسٹرا، کس قدر نقصان دہ ہو سکتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کاغذ سے بنی اسٹراز کا استعمال ختم کرنے کی راہ ہموار کی۔ اس موقع پر ٹرمپ نے اسٹراز کے استعمال سے متعلق صورتحال کو ''مضحکہ خیز‘‘ قرار دیا اور بتایا کہ انہوں نے کئی بار کاغذی اسٹرا استعمال کی ہیں اور وہ ''ٹوٹ جاتی ہیں اور پھٹ جاتی ہیں۔

‘‘

اس سے قبل امریکی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت وفاقی دفاتر میں ان اشیا کا استعمال مرحلہ وار طریقے سے ختم کیا جا رہا تھا جو 'سنگل یوز پلاسٹک‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ پلاسٹک سی بنی وہ اشیا ہوتی ہیں جنہیں صرف ایک بار استعمال کے بعد پھینکنا پڑتا ہے۔

تاہم ٹرمپ کے اسٹرا سے متعلق تازہ اقدام کے بعد یہ واضح ہے کہ اس پالیسی کی تعمیل رک گئی ہے۔

(جاری ہے)

ساتھ ہی کچھ حلقوں میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ یہ صورتحال پلاسٹک کے استعمال میں دوبارہ اضافے کا اشارہ ہو سکتی ہے۔

برطانیہ کے کنگز کالج سے وابستہ اربن ویسٹ کے شعبے میں ماہر اور محقق رینڈا کاشیف بھی کچھ ایسا ہی سوچتی ہیں۔ ان کے بقول کاغذی اسٹرا کی بناوٹ میں خامی کو وجہ بناتے ہوئے امریکی صدر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ماحول دوست طریقے سے رہنے میں زحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پلاسٹک اسٹرا کے نقصانات

لگ بھگ ایک دہائی قبل اسٹرا کا ذکر ہونے پر عین ممکن تھا کہ ہمارے ذہنوں میں تکالیف کا شکار جانوروں کا تصور آتا نہ کہ پھٹتی ہوئی کاغذ سے بنی اسٹرا کا۔ سن 2015 میں تو ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں ایک کچھوے کے نتھنے سے ایک پلاسٹک اسٹرا نکالی جا رہی تھی۔ اس کچھوے کے نتھنے سے خون نکل رہا تھا اور وہ بہت تکلیف میں تھا۔

بعد میں یہ ویڈیو پلاسٹک ویسٹ یا پلاسٹک سے پیدا ہونے والے کچرے میں کمی کے لیے ایک مہم کے آغاز کا سبب بھی بنی۔

تب ہی سے پلاسٹک اسٹرا کو پلاسٹک کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی کے عالمی مسئلے کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور اس آلودگی سے سب ہی متاثر ہو رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق انسانی سرگرمیاں سالانہ 380 ملین ٹن پلاسٹک ویسٹ کی وجہ بنتی ہیں اور اس میں 43 ملین ٹن سنگل یوز پلاسٹک ہوتا ہے۔

اس کچرے کا بڑا حصہ ماحول میں آلودگی کی وجہ بنتا ہے، مثلاﹰ ایک اندازہ یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ دنیا بھر کے ساحلوں پر موجود کچرے میں آٹھ بلین پلاسٹک اسٹرا شامل ہیں۔

اس تناظر میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پلاسٹک کبھی بھی مکمل طور پر ڈی کمپوز نہیں ہوتا۔ اس کے چھوٹے ذرات پانی، مٹی، ہوا اور یہاں تک کہ ہمارے جسموں میں بھی پائے گئے ہیں۔

متعدد تحقیقات میں پلاسٹک کو تولیدی صلاحیت میں کمی اور کینسر جیسے امراض سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ پلاسٹک سے سمندر بھی آلودہ ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے رینڈا کاشیف کا کہنا تھا کہ مختلف اندازوں کے مطابق وزن کے اعتبار سے اسٹراز سمندروں کو آلودہ کرنے والے پلاسٹک کا صرف ایک فیصد ہیں لیکن کیونکہ وہ سائز میں چھوٹی اور وزن میں ہلکی ہوتی ہیں تو انہیں جمع کر کے پانی سے صاف کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

تاہم انہوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ پلاسٹک اسٹراز نے اس سوال کا حل پیش کیا کہ 'پلاسٹک کے بحران‘ کو ختم کرنے کا آغاز کیسے کیا جائے۔ مثلاﹰ ماحولیات سے متعلق تشویش کے باعث حالیہ برسوں میں کئی امریکی شہروں اور ریاستوں، برطانیہ، یورپی یونین، کینیڈا اور بھارت میں پلاسٹک اسٹرا کے استعمال کو محدود کیا گیا اور اس پر پابندیاں لگائی گئیں۔

یہی اقدام میکڈونلڈز اور اسٹار بکس جیسے برانڈز کی جانب سے بھی کیے گئے۔

ایسے میں پلاسٹک سے بنی اسٹرا کے مختلف متبادل سامنے آئے، جیسے کاغذ، شیشے یا اسٹیل سے بنی اسٹرا۔ کاشیف کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی متبادل ''پرفیکٹ‘‘ نہیں لیکن سنگل یوز پلاسٹک تو ''بدترین آپشن‘‘ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سنگل یوز اسٹرا عموماﹰ پلاسٹک کی پولی پروپلین قسم سے بنی ہوتی ہیں، جسے عام طور سے ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا۔

بقول کاشیف، ''ہم نے آج تک جس بھی اسٹرا کا استعمال کیا ہے وہ (کسی نا کسی شکل میں) آج تک موجود ہے، یا تو کسی کچرا کنڈی میں یا ہمارے ماحول میں۔ اس کا خاتمہ صرف اس صورت میں ہوا ہو گا کہ اسے جلا دیا گیا ہو، جس کے فضائی آلودگی پھیلتی ہے۔‘‘

ہولی ینگ (م ا/اب ا)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پلاسٹک اسٹرا سنگل یوز ا لودگی اور اس

پڑھیں:

لاہور کا موسم انتہا پر، گرمی 47 ڈگری محسوس کی جا رہی ہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

عید کے تیسرے روز لاہور شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے، جہاں سورج کی تپش اور درجہ حرارت میں اضافے نے شہریوں کو پریشان کر رکھا ہے۔

لاہور میں عید کے تیسرے روز شدید گرمی کا راج ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق شہر میں موسم آئندہ 24 گھنٹوں تک گرم اور خشک رہنے کا امکان ہے۔ درجہ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے جبکہ آج یہ 47 ڈگری تک بھی جا سکتا ہے۔ شہر میں گرم ہوائیں 11 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہیں۔

شدید گرمی کے پیش نظر طبی ماہرین نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ گرمی سے بچنے کے لیے پانی کا زیادہ استعمال کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ سایہ دار جگہوں پر وقت گزارا جائے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر گھر سے باہر نکلنا ضروری ہو تو سر اور کندھے ڈھانپ کر رکھیں اور آنکھوں کو دھوپ سے بچانے کے لیے سیاہ چشمہ استعمال کریں۔ گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث شہریوں کو احتیاط برتنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہیٹ اسٹروک اور دیگر مسائل سے بچا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور کا موسم انتہا پر، گرمی 47 ڈگری محسوس کی جا رہی ہے
  • 200 یونٹس استعمال کے ریٹ کا 201 یونٹ پر یکدم بدل جانا مصیبت ہے
  • بلی کے ذریعے جیل میں چرس اسمگل کی کوشش ناکام
  • کولمبیا میں 6.3 شدت کا زلزلہ، عمارتوں کو نقصان پہنچا
  • خوفناک ،آتشزدگی، 3 فیکٹریاں جل گئیں، کتنا جانی و مالی نقصان ؟ جانئے
  • کراچی: لانڈھی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی فیکٹری میں لگی آگ پر قابو پا لیا گیا
  • دوسرے بڑے شہر پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ، بڑا نقصان ہو گیا
  • انسانی بال سے بھی باریک برطانیہ میں دنیا کی سب سے چھوٹا وائلن تیار
  • عید پر گوشت کا استعمال اور صحت کا خیال کیسے رکھا جائے؟
  • آئی سی سی ججوں پر امریکی پابندیاں نظام انصاف کے لیے نقصان دہ، وولکر ترک