زاہد چوہدری: محکمہ صحت نے ڈاکٹرز، نرسز اور تمام ملازمین کو سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کے تبصروں اور تنقید سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔

 ایک اعلامیہ کے مطابق محکمہ صحت نے تمام میڈیکل عملے کو سوشل میڈیا کا استعمال محدود رکھنے کی تاکید کی ہے اور وفاقی حکومت کی سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق گائیڈلائنز پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ کسی بھی نوعیت کی معلومات سوشل میڈیا پر شیئر نہ کریں۔ محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ نے تمام میڈیکل انسٹی ٹیوشنز اور ٹیچنگ ہسپتالوں کے سربراہان کو اس بارے میں مراسلہ جاری کیا ہے۔

اسلاموفوبیا عالمی امن، بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ایک خطرہ ہے: مریم نواز

یہ قدم میو ہسپتال کے حالیہ واقعے کے بعد اٹھایا گیا ہے جس میں میڈیکل پروفیشنلز کی جانب سے سوشل میڈیا پر تنقید کی گئی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد سوشل میڈیا پر غلط معلومات کی روک تھام اور میڈیکل پروفیشن کی عزت و وقار کو برقرار رکھنا ہے۔

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر

پڑھیں:

پی ای سی اے بل اور ہمارا آئینی امتحان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سال کے آغاز میں، 29 جنوری کو صدرِ پاکستان نے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (PECA) میں ترمیم پر دستخط کیے۔ حکومت نے اسے جعلی خبروں، ریاست مخالف بیانیے اور ڈیجیٹل انتشار سے نمٹنے کے لیے ضروری قدم قرار دیا، مگر اس بل کی منظوری کے طریقہ کار، اس کے غیر واضح الفاظ، اور بے پناہ اختیارات نے ایک بنیادی سوال کو جنم دیا: کیا ہم جمہوریت میں جی رہے ہیں یا محض ریاستی کنٹرولڈ براڈکاسٹ کے سبسکرائبر بن چکے ہیں؟
اس قانون کا پس منظر چند خوفناک سوشل میڈیا سانحات سے جڑا ہے: مشہور انفلوئنسر ثنا یوسف کا پْراسرار قتل، ٹک ٹاک اسٹارز پر بڑھتے تشدد، اور حافظ آباد میں اجتماعی زیادتی کا دل دہلا دینے والا واقعہ۔ ان جذباتی لمحوں نے سوشل میڈیا کو غصے اور بے بسی سے بھر دیا، اور ریاست نے ان ہی جذبات کی آڑ میں ایک ایسا بل منظور کر لیا جو ڈیجیٹل اظہار کی نئی تعریف طے کرتا ہے۔ اور اگرچہ یہ بل کئی مہینے پہلے منظور ہو چکا ہے، اس کے اثرات آج بھی ہماری ڈیجیٹل فضا پر گہرے سائے کی مانند چھائے ہوئے ہیں۔
آئین پاکستان قانون سازی کا واضح جمہوری طریقہ بتاتا ہے: پارلیمانی بحث، عوامی مشاورت، کمیٹی کی جانچ پڑتال، اور سینیٹ کی منظوری۔ مگر پی ای سی اے میں ان تمام مراحل کو نظرانداز کرتے ہوئے، بل کو چند منٹوں میں منظور کر لیا گیا۔ صحافیوں کو نظر انداز کیا گیا، کوئی عوامی مشاورت نہ ہوئی اور ہر قدم پر خاموشی کو ترجیح دی گئی۔ یہ عمل کسی جمہوری ریاست سے زیادہ ایک آمرانہ ’’ڈیجیٹل ڈرامے‘‘ کی قسط معلوم ہوتا ہے۔
اس قانون کے تحت ریاستی اداروں پر تنقید، مبینہ غلط معلومات، یا طنزیہ پوسٹس پر تین سال قید، جرمانہ، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بندش کی سزا ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی، ’’سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی‘‘ اور سائبر کرائم ٹربیونلز جیسے ادارے تجویز کیے جا رہے ہیں جنہیں وسیع اختیارات دیے جائیں گے مگر عدالتی نگرانی نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ حکومت کے نزدیک یہ قانون نظم و ضبط کے لیے ہے، لیکن وکلا، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان اسے ’’خوف کی زبان‘‘ میں لپٹا ہوا ’’خاموشی کا قانون‘‘ سمجھتے ہیں۔
اصل خطرہ یہی ہے کہ اگر ہم اس طرح کے قوانین کو جذباتی ہنگاموں کی بنیاد پر معمول بنا لیں، تو کل کو یہی جواز آزادیِ اظہار، لباس، عقیدے یا سوچ پر پابندی کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر عوام کو ان کی آزادیوں میں تبدیلی کے وقت شریک نہ کیا جائے، تو جمہوریت صرف ایک رسمی اصطلاح بن کر رہ جائے گی۔ پی ای سی اے بل صرف ایک قانونی دستاویز نہیں بلکہ عوامی یادداشت اور آئینی حوصلے کا امتحان ہے۔ یہ ہم سے سوال کرتا ہے کہ ہم اس خاموش تجاوز پر خاموش رہیں گے یا سوال، تنقید اور اظہارِ رائے کا حق واپس لیں گے؟ کیونکہ اگلی قسط تیار ہو رہی ہے۔ کیا ہم بولیں گے، یا خاموشی ہی ہماری آئندہ شناخت بنے گی؟

متعلقہ مضامین

  • پی ای سی اے بل اور ہمارا آئینی امتحان
  • سندھ میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی، سخت کارروائی کا اعلان
  • ٹرمپ انتظامیہ کا مزید 36 ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی عائد کرنے پر غور
  • سندھ میں پلاسٹک شاپنگ بیگز پر مکمل پابندی، حکام کا سخت کارروائی کاعندیہ
  • ایران و عراق میں ہزاروں پاکستانی پھنس گئے، سفارتی رابطے منقطع، ایران جانے پر پابندی عائد
  • اہلکاروں کی چھٹیوں پر پابندی عائد، نوٹیفکیشن جاری
  • امیر مگر بے وفا مرد کا انتخاب کروں گی: کومل میر
  • سوشل میڈیا کا استعمال
  • طلاق کے کیسز کے حل کیلئے’’ سکھ دا ویلا ‘‘نئی سکیم تیار
  • آئی سی سی نے کس طرح کے کیچز پکڑنے پر پابندی عائد کی؟ ویڈیو دیکھیں