پانی کا مسئلہ، سفارتی حل یا تصادم؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
جو معاہدے کے تحت جائز ہے اور مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب)پر ہندوستان کے منصوبوں کو معاہدے کی خلاف ورزی نہیں سمجھاجاتا، البتہ پاکستان مسلسل ان پر اعتراضات کرتا رہا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ہندوستان کی طرف سے ڈیمز کی تعمیر سے دریاؤں کے ’’بہاؤ کی مقدار اور وقت‘‘متاثر ہوتا ہے، جو معاہدے کی روح کے خلاف ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہندوستان نے تین دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج)کا پانی مکمل طور پر اپنے استعمال میں لے لیا ہے، جس کو وہ قانونی طور پرجائزسمجھتا ہے اورمغربی دریاؤں پر ہندوستان کے منصوبوں کو معاہدے کی خلاف ورزی نہیں سمجھاجاتا ، لیکن سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان انہیں اپنے مفادات کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں پانی کے وسائل پر کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
ہمالیائی گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرنے بھی گلشیئرز کے پگھلنے، غیر یقینی بارشوں، اور شدید گرمی کی لہروں نے دریاؤں کے بہا ؤکو غیر مستقل بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر، دریائے سندھ کا 80 فیصد پانی ہمالیہ کے گلیشیئرز سے آتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یہ صورتحال دونوں ممالک میں پانی کی دستیابی کو غیر یقینی بنا رہی ہے۔
بھارت کی جانب سے دریاؤں پر مزید ڈیم بنانے کی حکمت عملی پاکستان میں پانی کے شدید بحران کا سبب بن سکتی ہے۔
پاکستان کا انحصار مغربی دریاؤں پر ہے، اس لئے اگر بھارت پانی روکنے کی پالیسی اپناتا ہے تو پاکستان میں زرعی پیداوار شدید متاثر ہو سکتی ہے، جو معیشت اور خوراک کی دستیابی کے لیے خطرہ بنے گی۔
پاکستان اور بھارت کی بڑھتی ہوئی آبادی پانی کی طلب میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ آبادی اور زراعت کے دبا ؤکی وجہ سے پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے بڑا پانی کا ’’اسٹریسڈ‘‘ملک ہے، جہاں فی کس پانی کی دستیابی 1,000 کیوبک میٹر سالانہ سے بھی کم ہو چکی ہے۔ ہندوستان میں بھی 60 کروڑ افراد پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ زراعت (جو دونوں ممالک کی معیشت کا 20-25 فیصد ہے)کے لئے پانی کی مسلسل طلب تنازعات کو ہوا دے رہی ہے۔
جیو پولیٹیکل تنائو یعنی کشمیر تنازعہ پاکستان بار بار ہندوستان پر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتا ہے اور بھارتی دہشت گردی کے معاملات پر تعلقات کشیدہ ہونے سے پانی کے معاملات پر بات چیت مشکل ہو گئی ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہندوستان پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے پاکستان کی طرف جانے والے پانی کے بہائو کو کنٹرول کر کے پاکستان پر دبائو ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ جو 21ویں صدی کا سب سے طویل المدتی اور کامیاب معاہدہ سمجھا جاتا تھا، کیا سندھ طاس معاہدہ ناکام ہو چکا ہے اور موجودی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں؟
ڈیٹا شیئرنگ کے فقدان کی بنا پر دونوں ممالک دریا کے بہا ؤکے اعداد و شمار کو شفاف طریقے سے شیئر نہیں کرتے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے عدم احتساب کی بنا پر بھی معاہدے میں گلوبل وارمنگ یا گلیشیئرز کے پگھلائو ؤجیسے عوامل شامل نہیں۔
ہندوستان معاہدے کے مطابق تمام متنازعہ مسائل کے حل کی ثالثی کے لئے ورلڈ بینک کی بجائے دو طرفہ مذاکرات پر زور دے رہا ہے جس کی بنا پر ان مجوزہ مسائل کے حل میں تاخیر ہو رہی ہے جس کے لئے بھارت مکمل ذمہ دار ہے۔ معاہدے میں گلوبل وارمنگ یا گلیشیئرز کے پگھلا ؤجیسے عوامل شامل نہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا حل معاہدے کے تحت موجود طریقہ کار سے ہی ممکن ہے اور مسئلے کے ممکنہ حل کے لئے فوری طور پر ان عوامل پر عمل کرنا ہو گا۔
دونوں ممالک کو سندھ طاس معاہدے کا جدید جائزہ لیتے ہوئے معاہدے کے پرانے نکات پر نظر ثانی کر کے بدلتے حالات کے مطابق اسے اپڈیٹ کرنا ہوگا۔
پاکستان کو مزید ڈیم اور آبی ذخائر تعمیر کرنے ہوں گے تاکہ پانی کے ذخیرے کو بڑھایا جا سکے۔ بین الاقوامی فورمز پر آبی تنازعات کو بہتر سفارتکاری کے ذریعے حل کیا جائے۔
دونوں ممالک کو پانی کے مئوثر استعمال، جدید زراعتی نظام اور پانی کی بچت کی پالیسیوں کو اپنانا ہوگا۔
موسمیاتی تبدیلیوں، ڈیٹا شیئرنگ، اور نئی ٹیکنالوجیز کو معاہدے میں شامل کیا جائے۔
ڈرپ ایریگیشن، اسمارٹ واٹر گرڈز، اور واٹر ری سائیکلنگ پلانٹس جیسی جدید ٹیکنالوجی سے پانی کے استعمال میں کارکردگی بڑھائی جا سکتی ہے۔
اگر دونوں ممالک پانی کے انتظام کو جیو پولیٹکس سے بالاتر رکھنے میں ناکام رہے، تو یہ تنازعہ کشیدگی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق2050ء تک پاکستان میں پانی کی دستیابی موجودہ سطح سے 50فیصدکم ہو جائے گی، جو صورتحال کو مزید سنگین بنا دے گی جو ایک خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے۔
مزید برآں، بھارت نے حال ہی میں سندھ طاس معاہدے میں ترامیم کا نوٹس جاری کیا ہے، جس میں موجودہ حالات کے پیش نظر معاہدے پر نظرثانی کی بات کی گئی ہے۔ پاکستان نے اس نوٹس پر باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا، لیکن یہ معاملہ دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ان حالات میں، پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات کے حل کے لئے مئوثر مذاکرات اور بین الاقوامی ثالثی کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم اور معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنایا جا سکے۔
سوال یہ ہے کیا پانی کے نام پر جنگ ہو سکتی ہے؟ پانی کی قلت اور اس پر کنٹرول کے باعث دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، براہِ راست جنگ کے امکانات کم ہیں، ، لیکن پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اور آبی وسائل پر کنٹرول کی کشمکش مستقبل میں تنازعات کو شدت دے سکتی ہے۔ ۔کیونکہ سندھ طاس معاہدہ اب بھی فعال ہے، اور اس کی پاسداری بین الاقوامی دبائو کے تحت کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی ثالثی کے راستے موجود ہیں، جن کے ذریعے تنازعات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس بحران کو روکنے کے لیے سفارتی اور تکنیکی حل ناگزیر ہیں، تاکہ پانی کے وسائل کو منصفانہ اور پائیدار طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔ جوہری طاقت ہونے کے ناطے پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی تصادم کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں، اس لیے دونوں ممالک جنگ سے گریز کریں گے۔ البتہ، اگر پانی کی قلت مزید بڑھتی ہے اور سفارتی حل تلاش نہ کیا گیا، تو مستقبل میں خطے میں آبی تنازعات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ پانی کا مسئلہ ان دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان ایسی جنگ کا سبب بن جائے جو نہ صرف اس خطے کو بلکہ دنیا کو تاریکی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
پانی کی جنگ کا خطرہ حقیقی ہے، لیکن یہ ناگزیر نہیں۔ جنگ سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ دونوں ممالک کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دریائے سندھ کا نظام ایک مشترکہ اثاثہ ہے، جسے تباہ کرنے کی بجائے سنبھالنا ضروری ہے۔ جیسا کہ موہن داس گاندھی نے کہا تھا کہ ’’پانی کی لڑائی جیتنے سے کہیں بڑھ کر، اسے بانٹنے کی ضرورت ہے‘‘۔ کیا ہندوستان اپنے قومی باپ کی نصیحت پر کان دھرنے کو تیار ہے؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان موسمیاتی تبدیلیوں سندھ طاس معاہدے معاہدے کے تحت بین الاقوامی آبی تنازعات پانی کی قلت تنازعات کو معاہدے میں کی دستیابی اور بھارت معاہدے کی میں پانی پانی کے سکتا ہے سکتی ہے کے لئے کیا جا رہی ہے ہے اور
پڑھیں:
موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ دنیا بھر کو درپیش ہے، وزیر بلدیات سندھ
وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ دنیا بھر کو درپیش ہے۔
انہوں نے ایکسپو سینٹر کراچی میں منعقد ہونے والے دوسرے پاکستان انٹرنیشنل کجھور فیسٹول سے بحثیت مہمان خصوصی خطاب کیا اور بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کی۔
تقریب سے سی سی او ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی محمد فیض احمد، قونصل جنرل یو اے ای ڈاکٹر بخیت العتیق و دیگر نے بھی خطاب کیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ کجھور فیسٹول کا افتتاح کرنا میرے لیے باعث افتخار ہے، کجھور فیسٹول ہمارے خلیجی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کا ثبوت بھی ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ سندھ کے کئی علاقوں میں بہترین کجھور پیدا کی جاتی ہے اور ہمارے یہاں کجھور سے بے شمار چیزیں بنائی جا رہی ہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ کجھور کی صعنت کو کئی مسائل کا سامنا ہے، ماحولیاتی تبدیلی کجھور کی صعنت کے لیے کافی نقصان دے ثابت ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے کجھور سے دیگر مصنوعات کے ریسرچ سینٹر بنائے ہیں۔ کجھور فیسٹول کا مقصد دیگر ممالک میں کجھور کی ایکسپورٹ کو فروغ دینے میں مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ میں متحدہ عرب امارات حکومت، سفیر اور قونصل جنرل کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس فیسٹیول کے انعقاد سے سندھ اور پاکستان بھر کے کسانوں کو رابطے بڑھانے کے موقع فراہم کئے ہیں، جس سے پاکستان کے نہ صرف کاشتکاروں کو فائدہ ہو گا بلکہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر بھی بڑھیں گے، سندھ حکومت اس ایکسپو کی معاونت کیلئے موجود ہے۔
بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ دنیا بھر کو درپیش ہے۔ مختلف بین الاقوامی ریسرچرز یہاں آئے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی ماہرین سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے طریقہ ہائے کار سیکھیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ پوری دنیا نے قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے بھی اس کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج اسرائیل پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا ہے۔ اب تمام مسلمان ممالک ممکنہ طور پر کوئی پالیسی مرتب کریں گے۔
https://www.youtube.com/watch?v=HmeFsmU9zkU