WE News:
2025-07-26@10:48:34 GMT

معذور خواتین اور لڑکیاں آن لائن ہراسانی کا زیادہ نشانہ

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

معذور خواتین اور لڑکیاں آن لائن ہراسانی کا زیادہ نشانہ

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ رکن ممالک کو آن لائن ہراسانی روکنے اور جسمانی معذور خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی یقینی بنانا ہوگی۔

ان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے میں جسمانی معذور افراد کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے۔ ہر جگہ ایسے لوگوں کو امتیازی سلوک اور مستردگی کا سامنا رہتا ہے جبکہ جسمانی معذوری کا شکار خواتین اور لڑکیاں اس صورتحال سے کہیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں جنہیں بدسلوکی کا ہدف بنایا اور نظرانداز کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا ہراسانی اور بلیک میلنگ سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بات کرتے ہوئے ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ آج کی آن لائن دنیا میں ہراسانی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔

معذوری، تفریق اور تشدد

جسمانی معذور افراد کے حقوق پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار حبا ہغراس نے کونسل میں اسی انتباہ کو دہراتے ہوئے کہا کہ خواتین کے حقوق کو فروغ و تحفظ دینے میں پیش رفت جمود کا شکار ہے۔ پائیدار ترقی کے اہداف کو دیکھا جائے تو پیش رفت 14 فیصد تنزلی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جسمانی معذور خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے یہ صورتحال اور بھی خراب ہے جنہیں کئی طرح کی تفریق کا سامنا ہے۔ انہیں صںفی بنیاد پر اور اپنی معذوری کی وجہ سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ تعلیم اور روزگار میں بہت پیچھے ہیں اور انہیں تشدد و بدسلوکی بالخصوص جبری اسقاط حمل، گھریلو تشدد اور جنسی استحصال کا خطرہ دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے۔

مددگار ٹیکنالوجی کی خامیاں

وولکر ترک کا کہنا تھا کہ جسمانی معذور افراد کے لیے کئی طرح کی مددگار ٹیکنالوجی مردوں نے مردوں کے لیے تیار کی ہیں جیسا کہ بعض بیساکھیاں صرف مردوں کے لیے ہی موزوں ہوتی ہیں جبکہ انہیں خواتین کے لیے بھی یکساں فائدہ مند ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی زیادتی و ہراسانی کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟

اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے سماعت و بصارت سے محروم افراد کے لیے عالمی ادارے کے صدر سنجا ترکزے نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، جسمانی معذوری کے حامل صرف 10 فیصد لوگوں کو ہی مددگار ٹیکنالوجی تک رسائی ہے۔

یہ ٹیکنالوجی محض سادہ آلات نہیں ہوتے بلکہ ان کی بدولت جسمانی معذور افراد کو زندگی میں اپنا کردار بھرپور طور سے ادا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ایسی دنیا محض ایک خواب نہیں جس میں تمام معذور افراد کو مساوی مواقع ملیں بلکہ اسے ممکن بنانا سبھی کی مشترکہ ذمہ داری بھی ہے اور تمام لوگوں کو باہم مل کر اسے حقیقت کا روپ دینا ہے۔

سوشل میڈیا کی ذمہ داری

جسمانی معذور افراد کے حقوق کی علمبردار نکی للی نے کونسل میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ نے سائبر ہراسانی اور آن لائن نفرت کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم کو ٹیکنالوجی کی تیاری میں جسمانی معذور افراد کو بھی شامل کرنا ہو گا اور ہراسانی و نفرت پر مبنی پوسٹ حذف کرنے اور انہیں جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے عمل کو تیز رفتار بنانا ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: آن لائن رشتہ ایپس پر ہراسانی کے خطرات کیوں بڑھتے جا رہے ہیں؟

انہوں نے جسمانی معذور افراد کے حقوق پر اقوام متحدہ کے کنونشن (یو این سی آر پی ڈی) کا خیرمقدم کرتے ہوئے کونسل کے ارکان سے اپیل کی کہ وہ ایسے قابل رسائی ڈیجیٹل نظام پر سرمایہ کاری یقینی بنائیں جس میں تمام لوگوں کے ساتھ مساوی سلوک ہو۔

’آن لائن ہراسانی پر احتساب کا مضبوط طریقہ اختیار کیا جائے اور ایسی مشمولہ پالیسیاں بنائی اور نافذ کی جائیں جن کی بدولت ہر فرد معاشرے میں مساوی کردار ادا کر سکے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اقوام متحدہ انٹرنیٹ جنسی ہراسانی سوشل میڈیا نکی للی وولکر ترک.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ انٹرنیٹ سوشل میڈیا وولکر ترک جسمانی معذور افراد کے حقوق اقوام متحدہ سوشل میڈیا کرتے ہوئے آن لائن کا کہنا کے لیے

پڑھیں:

بھارت: غیرملکی کے نام پر ملک بدری، نشانہ بنگالی بولنے والے مسلمان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے جمعرات کے روز اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی حکام نے سینکڑوں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش جانے پر مجبور کیا ہے۔ ادارے نے بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت پر سیاسی فائدے کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو نے بنگلہ دیشی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سات مئی سے 15جون کے درمیان کم از کم 1,500 مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو سرحد پار زبردستی بے دخل کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کو مارا پیٹا گیا اور ان کی بھارتی شناختی دستاویزات بھی تباہ کر دی گئیں۔

بھارت نے "بنگلہ دیش" کے غیر قانونی تارکین وطن کو سرحد پار بھیجنے کی بات تو تسلیم کی ہے، تاہم حکومت نے اس بارے میں کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں کہ وہ اب تک ایسے کتنے لوگوں کو بنگلہ دیش بھیج چکا ہے۔

(جاری ہے)

ایچ آر ڈبلیو کی ایشیا ڈائریکٹر ایلین پیئرسن نے کہا، "بھارت کی حکمران بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) بھارتی شہریوں سمیت بنگالی مسلمانوں کو غیر قانونی طور پر ملک سے باہر نکال کر امتیازی سلوک کو ہوا دے رہی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "بظاہر غیر قانونی تارکین وطن کی تلاش میں بھارتی حکومت ہزاروں کمزور لوگوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے، لیکن ان کے اقدامات مسلمانوں کے خلاف وسیع تر امتیازی پالیسیوں کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔

" دراندازوں کے خلاف مودی کی جدوجہد

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے طویل عرصے سے بے قاعدہ ہجرت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے۔ انتخابات کے دوران اپنی عوامی تقریروں میں وہ اکثر بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین وطن پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور انہیں "درانداز" کہتے ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ہلاکت خیز پہلگام حملے کے فوراً بعد، وزارت داخلہ نے مئی میں ہی ریاستوں کو غیر دستاویزی بنگلہ دیشی تارکین وطن کو پکڑنے کے لیے 30 دن کی ڈیڈ لائن دی تھی۔

نئی دہلی کا دعویٰ ہے کہ ایسے تمام افراد کو نکالنے کا عمل غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کے لیے کیے گئے ہیں۔

البتہ تازہ رپورٹ میں ایسی تیز ترین کارروائیوں پر یہ کہہ کر تنقید کی گئی ہے کہ حکومت کی وجہ "ناقابل یقین" ہے، کیونکہ اس نے "کام کے مناسب حقوق، گھریلو ضمانتوں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات" کو نظر انداز کیا ہے۔

پیئرسن نے کہا، "حکومت مظلوموں کو پناہ دینے کی بھارت کی طویل تاریخ کو کم تر کر رہی ہے کیونکہ وہ اس سے سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔"

مئی میں بھارتی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ حکام نے تقریباً 40 روہنگیا پناہ گزینوں کو زبردستی حراست میں لیا اور بحریہ کے جہازوں کے ذریعے بین الاقوامی پانیوں میں چھوڑ دیا۔ سپریم کورٹ نے اسے "خوبصورتی سے تیار کی گئی ایک کہانی" قرار دیا ہے، تاہم مودی حکومت نے ابھی تک عوامی طور پر ان الزامات کی تردید نہیں کی ہے۔

مسلمان مہاجر مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا

ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کو ڈی پورٹ کیے جانے والوں میں سے کچھ تو بنگلہ دیشی شہری تھے، تاہم بہت سے وہ بھارتی شہری بھی ہیں، جو بنگلہ دیش سے متصل بھارت کی پڑوسی ریاستوں کے بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ اس لیے ممکن ہوا، کیونکہ حکام نے نکالنے سے پہلے ایسے متاثرہ افراد کی شہریت کی تصدیق سمیت کسی ضابطے پر عمل کیے بغیر انہیں تیزی سے ملک بدر کر دیا۔

نکالے گئے ایسے افراد میں سے 300 لوگ مشرقی ریاست آسام سے ہیں، جہاں متنازعہ شہریت کی تصدیق کا عمل نافذ کیا گیا ہے۔ دوسرے بنگالی بولنے والے مسلمان وہ ہیں، جو بھارتی ریاست مغربی بنگال سے کام کی تلاش میں گجرات، مہاراشٹر، راجستھان، اتر پردیش، اوڈیشہ اور دہلی ہجرت کر کے آئے تھے۔

بھارت میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنانا، ہندو قوم پرست تحریک کی خصوصیت ہے جس کی قیادت مودی کی جماعت بی جے پی اور اس سے متعلقہ گروہوں نے کی ہے۔

بنگلہ دیشی امیگریشن کے اس مسئلے کے اب بھاتی ریاست مغربی بنگال میں بھی مرکزی اہمیت حاصل کرنے کا امکان ہے، جہاں بی جے پی جیتنے میں ناکام رہی ہے اور وہاں 2026 میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ 'ہمیں لگا کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے'

ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ اس نے ایک درجن سے زیادہ ایسے متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کا انٹرویو کیا ہے، جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو بنگلہ دیش سے بے دخل کیے جانے کے بعد بھارت دوبارہ واپس آئے ہیں۔

مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک تارکین وطن کارکن ناظم الدین شیخ جو پانچ سال سے بھارت کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی میں رہتے ہیں، نے بتایا کہ پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، پھر ان کی بھارتی شہریت ثابت کرنے والے ان کی شناختی دستاویزات کو پھاڑ دیا اور پھر انہیں 100 سے زائد دیگر افراد کے ساتھ سرحد پار بنگلہ دیش لے گئے۔

انہوں نے کہا، "اگر ہم بہت زیادہ بولتے تو وہ ہمیں مارتے تھے۔

انہوں نے مجھے میری پیٹھ اور ہاتھوں پر لاٹھیاں ماریں۔ وہ ہمیں مار رہے تھے اور ہم سے کہہ رہے تھے کہ تم یہی کہتے رہو کہ ہم بنگلہ دیشی ہیں۔"

آسام کے ایک اور کارکن نے اسی طرح کی اپنی آزمائش کو یاد کرتے ہوئے کہا، "میں ایک لاش کی طرح بنگلہ دیش میں چلا گیا۔ چونکہ ان کے پاس بندوقیں تھیں، اس لیے میں نے سوچا کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے اور میرے خاندان میں سے کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔"

صلاح الدین زین (مہیما کپور)

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • آمریت کے مقابلے میں انسانی حقوق کا تحفظ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری، یو این چیف
  • شام: سویدا میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران مراکز صحت بھی نشانہ
  • دارالحکومت میں ’’پولیس اسٹیشن آن ویلز‘‘ اور ’’آن لائن ویمن پولیس اسٹیشن‘‘ قائم
  • آسان پاس ورڈ لگانے کی غلطی: 158 سال پرانی کمپنی بند،سینکڑوں افراد بے روزگار
  • فیصل آباد،ملکی تاریخ کے سب سے بڑا آن لائن فراڈ نیٹ ورک کے مرکزی ملزم ملک تحسین اعوان کا مزید 5روزہ جسمانی ریمانڈ دیدیا گیا
  • پاکستان میں حاملہ خواتین کی شرح اموات دیگر اسلامی ممالک سے زیادہ ہے، پاپولیشن کونسل
  • طالبان، لوٹنے والے افغان شہریوں کے ’حقوق کی خلاف ورزیاں‘ کر رہے ہیں، اقوام متحدہ
  • بھارت: غیرملکی کے نام پر ملک بدری، نشانہ بنگالی بولنے والے مسلمان
  • بارشوں کے دوران مختلف حادثات میں اموات کی مجموعی تعداد 252 تک جاپہنچی ،121 بچے، 85 مرد اور46 خواتین شامل
  • خاتون، مرد قتل کیس: سردار شیر باز ساتکزئی کا مزید 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور