نان ٹیکس ریونیو میں 55 فیصد، ٹیکس ریونیو میں 45 فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا، علی امین گنڈاپور
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ نان ٹیکس ریونیو میں 55 فیصد اور ٹیکس ریونیو میں 45 فیصد کا ریکارڈ اضافہ کیا ہے۔
پشاور سے جاری بیان میں علی امین گنڈا پور نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں دستیاب وسائل سے 72 ارب روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اے ڈی پی اسکیموں کا بیک لاک 13 سال سے کم کر کے ساڑھے 7 سال تک لے آئے ہیں جبکہ صحت انصاف کارڈ پر مانیٹرنگ کے بعد 90 کروڑ روپے سے زیادہ بچت کی گئی۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے مزید کہا کہ صوبہ کے عوام کےلیے 40 ارب روپے کا سولر پروجیکٹ شروع کیا گیا، تعلیمی اداروں، مساجد اور سرکاری اداروں کو سولر پر لایا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی، مالی مشکلات کے باوجود مختلف سیکٹرز میں کامیابیاں حاصل کیں، کے پی حکومت کے معاشی اصلاحات کا ملکی و غیر ملکی اداروں نے اعتراف کیا۔
علی امین گنڈاپور نے یہ بھی کہا کہ محکمہ پولیس میں ہنگامی طور پر اصلاحات کا آغاز کیا، 30 بلین سے زیادہ کا اسلحہ، گاڑیاں اور آلات مرحلہ وار خریدے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 105 گاڑیوں کو بلٹ پروف کیا جارہا ہے جس پر 321 ملین خرچ ہو رہے ہیں، 4 ہزار ایس ایم جیز حاصل کی گئی ہیں، جبکہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں 2423 اہلکار بھرتی کیے جارہے ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ سیکیورٹی ڈویژن میں 3797 آسامیاں تخلیق کی جارہی ہیں، 1200 اہلکاروں کو ایلیٹ فورس کی ایڈوانس تربیت فراہم کی گئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پشاور سمیت 4 اضلاع میں سیف سٹی کے قیام پر 2 اعشاریہ 2 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے، ایک سال میں کم و بیش ایک ہزار اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ پولیس شہداء کےلیے بھی نقد رقم، پلاٹس اور نوکریاں دی جارہی ہیں، شہداء کے لواحقین کو 367 ملین روپے اب تک دیے جاچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مختلف اضلاع میں 994 ملین روپے سے 501 پلاٹس دیے گئے ہیں، شہدا کے بچوں میں سے 281 اے ایس آئیز بھرتی کیے جاچکے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور ٹیکس ریونیو میں خیبر پختونخوا نے کہا کہ
پڑھیں:
فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی) ایف بی آر کی سینئر قیادت نے کہا ہے کہ ادارے کا کسٹمز فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ایف بی آر کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔ فیس لیس اسیسمنٹ سسٹم کا آغاز ریونیو کے لیے نہیں کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد بد عنوانی کا خاتمہ تھا۔ اس نظام پر عمل کرنے کی وجہ سے جو لوگ متاثر ہوئے ہیں وہی اس کا رول بیک جاتے ہیں۔ ایف بی آر ہی کے ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل آٖ ف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی رپورٹ کے بعض مندرجات کی تردید کے لئے پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ اس ابتدائی نوعیت کی رپورٹ کو میڈیا کو لیک کیا گیا۔ ہمیں یہ بعد میں ملی اور میڈیا پر اس کے مندرجات کی غلط تشریح کی گئی۔ اس لیکج میں وہ افسر ملوث ہیں جن کی ذاتی نوعیت کی شکایات ہیں۔ رپورٹ میں ایسی چیزیں لائی گئی تھیں جو غلط تھیں۔ انکوائری کمیٹی بنا دی گئی ہے جس کی رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی۔ فیس لیس اسیسمنٹ سسٹم کو پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے گا۔ اس کو رول بیک نہیں کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال، ممبر کسٹمز آپریشن سید شکیل شاہ اور دیگر اعلی افسروں نے میڈیا سے بات چیت میں کیا۔ چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ کسٹم کے فیس لیس اسیسمنٹ نظام کو ریونیو کے مقصد کے لیے شروع نہیں کیا تھا، اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسٹم کلیئرنس میں رشوت کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر میں کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس ہے۔ گاڑیوں کی کلیئرنس کا سکینڈل سامنے آیا۔ اس میں دو افسروں کو گرفتار کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں تاجروں کی ہڑتال کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کسٹم کلیئرنس کا پرانا نظام واپس دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ ادارے میں وہ آٹھ اگست 2024 کو تعینات ہوئے تھے، انہوں نے اب تک کبھی کسی افسر کی تعیناتی سفارش پر نہیں کی ہے۔ ممبر کسٹم آپریشن شکیل شاہ نے کہا کہ ایف بی آر میں اصلاحات کے پلان پر عمل ہو رہا ہے۔ انہی میں سے ایک فیس لیس کسٹم اسیسمنٹ ہے، کیونکہ زیادہ تر امپورٹس کراچی کی بندرگاہ سے ہوتی ہیں، اس لیے وہاں یہ سسٹم شروع کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے بیرون ملک سے آنے والی درآمدات کے لیے مختلف مختلف اشیاء کو کلیئر کرنے کے لیے گروپس بنا دیے جاتے تھے جس میں درآمد کرنے والے کو یہ پتہ ہوتا تھا کہ اس کی چیز کلیئرنس کس نے کرنی ہے اور اس سے ساز باز کرنا ممکن ہوتا تھا۔ اب ایک ہال میں 40 افسر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی افسر کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جس جی ڈی پر کام کر رہا ہے وہ کس کی ہے اور سارا کام ایک ہی ہال کے اندر ہوتا ہے اور اس کی سخت نگرانی ہوتی ہے اور ہال میں ٹیلی فون یا ای میل کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ درآمدی اشیاء کی کلیئرنس میں ٹائم بڑھنے کا تاثر بھی درست نہیں ہے۔ معمولی تاخیر ضرور ہوتی ہے لیکن اس کے کچھ بیرونی عوامل بھی ہیں جن میں بندرگاہ پر بہت زیادہ رش اور پروسیجرل رکاوٹیں موجود ہیں اور اس کی وجہ ایف سی اے نہیں ہے۔ انہوں نے بعض آڈٹ آبزرویشن کے لیک ہونے کے حوالے سے کہا کہ ان میں چیزوں کو غلط طور پر بیان کیا گیا اور بعض باتیں تو کلی طور پر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی اس غیر قانونی لیک کے ذمہ دار ہیںیا جان بوجھ کر مس رپورٹنگ کر رہے ہیں ان کا احتساب کیا جائے گا۔ ہم اس سسٹم کو مزید بہتر بنائیں گے اور اصلاحات کو ڈی ریل کرنے والوں کے خلاف تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔