وزارت خزانہ کی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے متعلق وزیر خزانہ کے بیان کی وضاحت
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
وزارت خزانہ کی جانب سے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کے اسمبلی بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وزیر خزانہ نے ملازمین کے پے اسکیلز پر نظر ثانی یا تنخواہوں سے متعلق بات نہیں کی۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی تنخواہوں سے متعلق کوئی اعلان نہیں کیا نہ بیان دیا۔
اعلامیے کے مطابق وزارت خزانہ نے تحریری طور پر ایک رکن اسمبلی کے سوال پر ایوان کو صورتحال سے آگاہ کیا، وزارت خزانہ نے ایوان کو آگاہ کیا کہ فی الوقت اگلے مالی سال کیلئے ایسی تجویز زیرغور نہیں۔
وزارت خزانہ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ایوان کو آگاہ کیا گیا کہ پےاسکیلز پر نظر ثانی اور تنخواہوں، الاؤنسز میں اضافے کی تجویز زیر غور نہیں۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
10سال میں 23 سرکاری اداروں سے قومی خزانے کو 55 کھرب روپے کے نقصان کا انکشاف
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ملک کے 23 سرکاری اداروں (اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز) نے گزشتہ 10 سال کے دوران قومی خزانے کا 55 کھرب روپے (5.19 ارب ڈالرز) کا نقصان کیا ہے اور اس میں اگر صرف قومی ائیرلائن پی آئی اے کی بات کی جائے تو اسے 700 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
یہ ایک ایسا انکشاف ہے جس نے احتساب اور نجکاری کی ضرورت کو ایک مرتبہ پھر اجاگر کیا ہے۔ بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر برائے امور نجکاری محمد علی کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار سرکاری شعبہ جات میں کئی دہائیوں سے پائی جانے والی نا اہلی اور بد انتظامی پروشنی ڈالتے ہیں۔
محمد علی کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال نہ صرف ناپائیدار ہے بلکہ ہر ٹیکس دہندہ پر بوجھ ہے۔ رکن قومی اسمبلی فاروق ستار کی زیر صدارت ہوئے اجلاس میں بتایا گیا کہ رواں ماہ مزید ایک ہزار یوٹیلیٹی اسٹورز بند کیے جائیں گے، سینکڑوں ملازمین فارغ ہو جائیں گے۔ اس صورتحال سے ملازمین کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔
کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ موجودہ 5500 میں سے صرف 1500 یوٹیلیٹی اسٹورز ہی فعال رہیں گے، جبکہ مالی لحاظ سے بہتر حالات والے اسٹورز کی نجکاری کا منصوبہ موجود ہے۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ملازمتوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ان اقدامات کی وجہ سے ملازمین کا مستقبل نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسٹورز کے 2237 ملازمین کو فارغ کیا جا چکا ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران 38 ارب روپے کی سبسڈی کے باوجود یوٹیلیٹی اسٹورز کو رواں سال مختص کردہ 60 ارب روپے نہیں دیے گئے۔
پاور ڈویژن کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ خسارے کا شکار بجلی کی تین تقسیم کار کمپنیاں (سیپکو، حیسکو اور پیسکو) کی نجکاری کیلئے ورلڈ بینک کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔
نوازشریف کا فوری پاکستان واپس آنے کا فیصلہ