یمن، امریکا اور اسرائیل کا قبرستان
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یمنی انتہائی سادہ زندگی گزارنے والا، وہ حد درجہ قناعت پسند ہے۔ یمنی صبر کا پیکر، ایسا صبر جو انسانی طاقت سے بھی بڑھ کر ہے۔ یمنی انتہائی ضدی، روزانہ فطرت کی سختیوں سے نبرد آزما رہتا ہے۔ یمنی جنگجو مزاج، اس کے نزدیک زندگی ایک معرکہ ہے، ایک جنگ کا میدان، اسی لیے وہ اپنی روایتی جنبّیہ (خنجر) ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور اسے آخری سانس تک نہیں چھوڑتا۔ وہ ہتھیار کو مردانگی کی علامت سمجھتا ہے اور زندگی کو ایک جنگل، جہاں زندہ رہنے کے لیے خود کا دفاع ضروری ہے۔ ترجمہ و ترتیب: سیدہ نقوی
اگر اسرائیل نے غزہ کو مکمل طور پر تباہ کردیا، حزب اللہ کو کمزور کردیا اور شام میں مغربی و ترک حمایت سے حکومت کی تبدیلی کو ممکن بنایا تو یہ تمام کامیابیاں یمن کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گی۔ جو بھی یمن میں رہا ہو اور اس کے عوام کے ساتھ گھلا ملا ہو، وہ اس حقیقت کو بخوبی سمجھتا ہے۔ یمنی انسان تمام عربوں سے مختلف صفات کا حامل ہے۔
یمنی انتہائی سادہ زندگی گزارنے والا، وہ حد درجہ قناعت پسند ہے۔ یمنی صبر کا پیکر، ایسا صبر جو انسانی طاقت سے بھی بڑھ کر ہے۔ یمنی انتہائی ضدی، روزانہ فطرت کی سختیوں سے نبرد آزما رہتا ہے۔ یمنی جنگجو مزاج، اس کے نزدیک زندگی ایک معرکہ ہے، ایک جنگ کا میدان، اسی لیے وہ اپنی روایتی جنبّیہ (خنجر) ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور اسے آخری سانس تک نہیں چھوڑتا۔ وہ ہتھیار کو مردانگی کی علامت سمجھتا ہے اور زندگی کو ایک جنگل، جہاں زندہ رہنے کے لیے خود کا دفاع ضروری ہے۔
یمنی زندگی کی آسائشوں سے بے نیاز، یہاں تک کہ بجلی کی عدم دستیابی بھی اس کے لیے مسئلہ نہیں۔ ہم جب یمن کے دیہات میں بجلی کے بغیر رہتے تھے تو طلبہ تیل کے چراغوں کے ساتھ خوشی خوشی ہمارے پاس آتے اور کہتے، "یہ ہماری ثقافت ہے، ہمیں اندھیرے اور فانوس سے محبت ہے، ہمیں کوئی شکایت نہیں" جبکہ ہم خود بجلی کی عدم دستیابی پر پریشان ہوتے۔
یمنیوں کی محفلیں، قہوہ اور "قات" (روایتی پودا) ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے، جس سے وہ ایسی مسرت محسوس کرتے ہیں جیسے کوئی مغربی شخص لاس ویگاس یا مالدیپ میں لطف اندوز ہوتا ہو، ان کی سادہ محفلوں کا مقابلہ مغرب یا خلیجی طرزِ زندگی سے کیا جائے تو وہ صرف مسکرا کر کہتے ہیں: "عادی يا أستاذ، لهم الدنيا، و لنا الآخرة" (استاد جی! دنیا ان کے لیے ہے، اور آخرت ہمارے لیے)۔
یمنی عوام کا اعتقاد، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی سادہ اور مشکل زندگی خدا کی طرف سے مقدر ہے۔ ان کے مطابق دنیاوی آسائشیں مغرب اور خلیجی ممالک کے لیے ہیں جبکہ یمن، فلسطین، نیجر اور دیگر محروم اقوام کو آخرت نصیب ہوگی اور آخرت ہی اصل کامیابی ہے۔ ہم اکثر اس سوچ پر حیران ہوتے اور اسے قدامت پسندی سمجھتے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہی نظریہ انہیں بے مثال صبر اور ہمت عطا کرتا ہے، جو جنگجو اور بہادر افراد تیار کرتا ہے۔ یمنی خودکفیل ہے، اسے بیرونی دنیا سے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنی زمین میں کاشت کرتا ہے اور اسی پر قانع رہتا ہے۔ یمن کے پاس وسیع و عریض سمندری حدود ہیں، جہاں مچھلی کی دولت بے پناہ ہے۔
صعدہ، حجہ، عمران، اور المحویت کی پہاڑیاں اتنی مضبوط اور پیچیدہ ہیں کہ ایٹمی حملے بھی ان پر اثر نہیں ڈال سکتے۔ ایک چینی کمپنی نے صعدہ میں سڑکیں تعمیر کیں، اور اس کے سربراہ نے یمنی صدر کو مشورہ دیا کہ ان پہاڑوں کے اندر سرنگیں اور خفیہ راستے بنائے جائیں کیونکہ یہ علاقے کسی بھی قسم کے حملے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یمنی عوام چٹانوں کی طرح سخت، پرندوں کی مانند نرم دل، اور غیرت و عزت کے معاملے میں ناقابل شکست ہیں۔ وہ اپنی زندگی کو میدانِ جنگ سمجھتے ہیں اور ہار تسلیم نہیں کرتے۔ سلام ہو یمن پر، یمن کے پہاڑوں پر، اور یمن کے بہادر مردوں پر۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یمنی انتہائی وہ اپنی ہے اور کے لیے اور اس یمن کے
پڑھیں:
قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا، خواجہ محمد آصف
ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ امریکا اور مغرب میں جو رائے عامہ بن رہی ہے، یہ اسرائیل کے لیے زیادہ خطرناک ہے، امریکا اور باقی دنیا میں رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہو رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا، مسلم ممالک کو نیٹو کے طرز پر اتحاد بنانا چاہیے، مجھے مسلم ممالک کے اجلاس میں مایوسی نہیں ہوئی۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معرکۂ حق میں تو ہم نے ثابت کر دیا کہ بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، اسے سوڈان سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر لائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ حماس کی قیادت امریکا کی مرضی سے قطر میں بیٹھی تھی، غلط فہمی نہیں ہونی چاہیِئے، یہ سب کچھ امریکا کی مرضی کے ساتھ ہوا ہے، مسلم دنیا کو سمجھنا چاہیِِئے اور اپنے دوست نما دشمن میں تفریق کر لیں، بڑا واقعہ ہے، کچھ وقت لگے گا لیکن کچھ نہ کچھ ہوگا۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ شام میں امریکا کی مرضی سے حکومت آئی ہے، اسرائیل اس پر بھی حملے سے باز نہیں آرہا، امریکا اور مغرب میں جو رائے عامہ بن رہی ہے، یہ اسرائیل کے لیے زیادہ خطرناک ہے، امریکا اور باقی دنیا میں رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہو رہی ہے۔