مشی خان دانش تیمور کے 4 شادیوں کے بیان پر برس پڑیں
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
پاکستان کی معروف سینئر اداکارہ و میزبان مشی خان نے سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغام شیئر کیا ہے۔
اداکارہ نے اپنی اس نئی ویڈیو میں اداکار و میزبان دانش تیمور کو 4 شادیوں کی اجازت سے متعلق دیے گئے بیان پر آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
مشی خان نے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ویڈیو پیغام میں ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا صرف 4 شادیوں کا موضوع ہی رہ گیا ہے بات کرنے کے لیے، باقی سب موضوع ختم ہو گئے ہیں؟
View this post on InstagramA post shared by Mishi Khan MK (@mishikhanofficial2)
مشی خان نے سماج کی اصلاح کے لیے متعدد موضوعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دین میں ان موضوعات سے متعلق بھی بات کی گئی ہے مگر ہم ان کا ذکر بالکل بھی نہیں کرتے۔
اداکارہ کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پلیٹ فارم پر بیٹھ کر اپنے الفاظ کا چناؤ بہتر رکھنا بہت بڑی ذمے داری کا کام ہے مگر ہم اپنی سب ذمے داریاں بھول جاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے دانش تیمور کے اس بیان سے بہت دکھ پہنچا ہے۔
واضح رہے کہ معروف پاکستانی اداکار اور میزبان دانش تیمور نے اپنے 4 شادیوں سے متعلق دیے گئے بیان پر معافی مانگ لی ہے۔
اپنے بیان پر شدید تنقید کا سامنا کرنے کے بعد دانش تیمور نے اپنے مداحوں کے لیے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے معذرت کی اور اپنی بات کو مزید واضح کیا ہے۔
ویڈیو میں دانش تیمور نے کہا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ سب مجھ سے ناراض ہیں، کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی عائزہ خان کی بے عزتی کی ہے، لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
یاد رہے کہ دانش تیمور نے حال ہی میں اپنی رمضان ٹرانسمیشن کے دوران 4 شادیوں سے متعلق بات کی تھی جس پر سوشل میڈیا صارفین نے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
دانش تیمور نے میزبان رابعہ انعم سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ مجھے 4 شادیوں کی اجازت خدا کی طرف سے ہے، میں کر نہیں رہا ’فی الحال‘ یہ اور بات ہے۔
ان کے اس بیان میں ’فی الحال‘ کے لفظ نے تنازع کو جنم دیا تھا۔
سوشل میڈیا صارفین اور مداحوں نے اداکار کے اس کو اس طرح لیا تھا کہ گویا وہ مستقبل میں مزید شادیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دانش تیمور نے
پڑھیں:
سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
اسلام ٹائمز: معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے۔ تحریر: ساجد علی گوندل
 sajidaligondal55@gmail.com 
 
 قرآنِ مجید، انسان کی خلقت کو محض ایک حیاتیاتی واقعہ نہیں۔۔۔۔۔۔ بلکہ ایک معنوی راز سے تعبیر کرتا ہے: "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون" (ذریات/56) "میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے خلق کیا۔" مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے "لِيَعْبُدُونِ اَیْ لیَعْرِفُون" یعنی خالق نے مخلوق کو اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا۔۔۔۔ یوں عبادت اور معرفت ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں؛ معرفت باطن ہے تو عبادت اس کا ظہور۔۔۔۔۔ جب پہچان دل میں اترتی ہے تو بدن خود بخود سجدہ ریز ہوتا ہے۔۔۔۔۔ عبادت دراصل معرفت کی شعوری و عملی صورت ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت محض حرکات و سکنات کا نام نہیں بلکہ نفی و اثبات پر مشتمل ایک مکمل نظام ہے، جس میں پہلے نفی: لا إله۔۔۔۔ یعنی ہر غیرِ خدا کا انکار ہے اور پھر إلا الله۔۔۔۔ کے ذریعے توحید تک رسائی ہے۔
 
 عبادت کا آغاز اندر کے بت توڑنے سے ہوتا ہے۔ خواہ وہ بت خواہشات کے ہوں۔۔۔۔۔ خود پسندی کے یا پھر مادی۔۔۔۔۔ جب انسان اپنی پسند۔۔۔۔ اپنی چاہت۔۔۔۔ اپنی خواہش کو قربان کرتا ہے تو عبد بنتا ہے۔۔۔۔ اور یہی وہ راستہ ہے، جو انسان کو ظاہر سے حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ "فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى"(بقرہ/256) ۔۔۔۔۔ عبادت کا آغاز انکار میں اور اس کا کمال اقرار میں ہے۔۔۔۔ ہاں عبودیت ہی انسانی کمالات میں اعلیٰ و ارفع ترین منزل ہے، جس کو قرآن نے "سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ"(بنی اسرائیل/01) کی صورت میں بیان کیا اور عبودیت ہی وہ آئینہ ہے، جس میں رسالت کا نور جلوہ افروز ہوتا ہے۔ عبودیت کائنات کا سب سے بڑا شرف ہے۔
 
 قرآن کے نزدیک نہ صرف انسان بلکہ تمام موجودات اسی دائرہ بندگی میں شامل ہیں: "إِنْ كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا"(مریم /93) عبد ہونا محض حکمِ شرع کا تقاضا نہیں بلکہ حقیقتِ وجود کا جوہر ہے۔۔۔۔۔ ہاں عبودیت فنا کا مقدمہ ہے۔۔۔۔۔۔  فنا کا مطلب مٹ جانا نہیں بلکہ حقیقتِ مطلقہ میں باقی رکھنا ہے: "كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۩ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّك" (رحمن/26, 27) کائنات کا ہر ذرہ اسی فنا کے سفر میں ہے، ہر وجود اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ فنا وہ مرحلہ ہے، جہاں انسان اپنی مرضی کو مٹا کر خدا کی مشیّت میں ڈوب جاتا ہے۔۔۔۔۔
   
 مختصر یہ کہ معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے۔