Express News:
2025-11-05@01:07:35 GMT

ریت کی طرح

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

اگرچہ آبادی کے لحاظ سے صوبہ بلوچستان، پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے لیکن قدرتی دولت اور وسائل کے معاملے سے دیکھا جائے تو بلوچستان وطن عزیزکا سب سے زرخیز اور مالا مال صوبہ ہے۔ پھر یہاں گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور چین کے تعاون سے شروع ہونے والے عظیم منصوبے سی پیک کی وجہ سے مستقبل قریب میں بلوچستان ملک کی معاشی ترقی میں نہ صرف اہم کردار ادا کرنے جا رہا ہے بلکہ مقامی لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے پہلو بہ پہلو ان کی زندگیوں میں چھائے غربت، پسماندگی، بے بسی، مایوسی، بے چینی، جہالت اور افلاس کے اندھیروں کو دور کر کے ان کے گھروں میں خوشحالی اور مالی استحکام کا موجب بھی بن سکتا ہے۔

ہمارے دشمن اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سی پیک کی تکمیل سے پاکستان خطے کا اہم ترین ملک بن جائے گا، اس کی معیشت مستحکم ہوجائے گی جس سے اس کی سلامتی و استحکام ہوگا۔ اسی سبب وطن دشمن قوتوں نے پاکستان کے اس اہم ترین صوبے کو ٹارگٹ کر رکھا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ بھارت نے اول دن سے ہی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور اس کے وجود کو مٹانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور افغانستان جس نے پاکستان کے قیام کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا آج کل بھارت کا ہم پیالہ و ہم نوالہ بن کر اس کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں سہولت کاری کا کردار ادا کر رہا ہے۔

گزشتہ ڈیڑھ دو برس سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پے درپے ہونے والے واقعات کے تانے بانے افغانستان میں موجود فتنہ الخوارج کے شرپسند عناصر سے ملتے ہیں جن کی نشان دہی حکومتی سطح پر بار بارکی جا چکی ہے افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی باور کرایا جا چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ گزشتہ ہفتے جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے میں بھی دہشت گرد افغانستان میں موجود اپنے سرپرستوں سے مسلسل رابطے میں تھے جیساکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا انکشاف کیا تھا۔ مقام اطمینان کہ تمام 33 دہشت گردوں کو پاک فوج کے بہادر جواں ہمت اہلکاروں نے بڑی مہارت و احتیاط کے ساتھ نشانہ بنا کر ہلاک اور تین سو سے زائد مغویوں کو بازیاب کرا لیا۔

دہشت گرد عناصر چیک پوسٹوں، تھانوں، فوجی تنصیبات، بسوں اور ٹرکوں وغیرہ پر حملے کرتے رہے ہیں۔ لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ قبل ازیں دہشت گردوں نے ہوائی جہاز تک اغوا کیے لیکن ٹرین اغوا کرنے کا پاکستان میں یہ پہلا واقعہ ہے جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی۔پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت کے ایک خفیہ جاسوس کل بھوشن یادیو کو بلوچستان ہی سے گرفتارکیا گیا تھا جس نے برملا پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

اس کے بعد اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوام متحدہ اپنی ذمے داری پوری کرتے ہوئے اس ڈوزیئر پر غور و فکر کرکے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بھارت کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی جاتی کہ وہ عالمی قوانین کا احترام کرے لیکن افسوس کہ جس طرح مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں حق خود ارادیت کی قراردادیں نصف صدی سے زائد عمل درآمد کے انتظار میں ہیں اور کشمیری مائیں بہنیں، بیٹیاں، بچے، بوڑھے اور جوان ’’آزادی‘‘ کی جنگ لڑ رہے ہیں اور بھارت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے ان کی آواز دبانے میں ناکام چلا آ رہا ہے۔ بعینہ بلوچستان کو علیحدہ کرنے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا اس کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان ڈوزیئر بھی کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی طرح بے اثر رہے گا جو المیہ ہے۔

ہمیں اپنی جنگ خود لڑنی ہے۔ دہشت گردوں نے بڑی تیزی کے ساتھ بلوچستان اور کے پی کے میں اپنی مذموم کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ جعفر ایکسپریس حملے کے فوری بعد دہشت گردوں نے پنجگور میں پولیس چوکی اور نوشکی میں سیکیورٹی فورسزکے قافلے پر حملہ کیا، اسی طرح ایک زیر تعمیر ڈیم پر حملہ کرکے سات مزدوروں کو اغوا کرکے لے گئے، کے پی کے میں ٹانک میں چیک پوسٹ پر حملہ کیا تاہم سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرکے اسے ناکام بنا دیا اور دس خوارج کو جہنم واصل کر دیا۔

لکی مروت اور بنوں میں بھی دہشت گردوں نے چوکیوں پر حملے کیے جنھیں پولیس فورسز نے ناکام بنایا۔ پشاورکی ایک مسجد میں بم دھماکہ کرکے معروف عالم مفتی منیر شاکرکو شہید کر دیا۔ قبل ازیں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ میں جمعے کی نماز میں خود حملہ کرکے نامور عالم دین مولانا حامد الحق، جو مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے تھے کو شہید کردیا گیا تھا۔ بیرونی مداخلت کے باعث بلوچستان کے حالات تیزی سے بگڑتے جا رہے ہیں۔ بھارت بلوچستان میں بنگال کی تاریخ دہرانا چاہتا ہے۔

پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ کا یہ بیان کہ افغانستان میں جدید امریکی ہتھیاروں کی موجودگی پاکستان اور ہمارے شہریوں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ انتہائی غور طلب اور فوری کارروائی کا متقاضی ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ 2022 میں جب امریکا رسوا کن انداز میں افغانستان سے نکلا تھا تو اربوں ڈالرکا فوجی ساز و سامان افغانستان ہی میں چھوڑگیا۔

امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کا تقریباً 7.

2 ارب ڈالر کا فوجی ساز و سامان افغانستان میں رہ گیا ہے جس میں تین لاکھ اٹھاون ہزار پانچ سو تیس رائفلیں، 64 ہزار مشین گنیں، 25,327 گرینیڈ لانچر اور 22,174 مختلف سطحوں پر چلنے والی گاڑیاں شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ اسلحہ ہے جنھیں کالعدم ٹی ٹی پی سمیت مختلف دہشت گرد تنظیمیں بلوچستان اور کے پی کے میں اپنی دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران خوارج سے جو اسلحہ برآمد کیا اس کی کڑیاں افغانستان کے بازاروں میں ملنے والے اسلحے سے ملتی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں آج بھی امریکی اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے پر سیاسی و عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھے، بلوچوں کی آواز سنے، ان کے مسائل کا ادراک اور ان کے حل کے لیے جامع، ٹھوس اور دور رس نتائج کے حامل جلد فیصلے کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مٹھی سے ریت کی طرح سرکتا بلوچستان کوئی گہرا گھاؤ لگا جائے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان میں دہشت گردی کے اقوام متحدہ پاکستان کے رہا ہے

پڑھیں:

فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر

دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی،طالبان سے مذاکرات کی بات کرنے والے افغانستان چلے جائیں تو بہتر ہے، غزہ فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریں گے، جنرل احمد شریف چوہدری
افغانستان میں ڈرون حملے پاکستان سے نہیں ہوتے نہ امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ ہے،،بھارت کو زمین، سمندر اور فضا میں جو کچھ کرنا ہے کرلے اس بار جواب زیادہ شدید ہوگا،سینئر صحافیوں کو بریفنگ

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی۔پاکستان اپنی سرحدوں، عوام کی حفاظت کیلئے تیار ہے۔سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوںنے کہا کہ فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے ۔27 ویں آ ئینی ترمیم کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے۔27 ویں آ ئینی ترمیم پر تجاویز مانگیں تو اپنی سفارشات دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں امن فوج کا حصہ بننے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی۔۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہم سب کو متحد ہو کر کام کرنا ہے، 2014 میں 38 ہزار مدارس تھے اب ایک لاکھ کے قریب مدارس بن چکے، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔مدارس کی رجسٹریشن اب بھی ایک سوال ہے۔سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ ہیں۔منتخب سیاستدان ریاست بناتے ہیں اور اداروں کا کام ریاست کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا، کورکمانڈر پشاور نے بھی ریاستی اور سرکاری تعلق کے تحت ملاقات کی، جبکہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ تصوراتی ہے، یہ فیصلہ ہم نے نہیں حکومت نے کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیراہ میں پوست کی فصل کو تلف کر رہے ہیں۔تیراہ اور کے پی میں خفیہ آپریشنز کامیابی سے جاری ہیں۔دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اس سال6200 انٹیلی جنس آپریشنز کئے گئے ۔آپریشنز کے دوران1667 دہشتگرد مارے گئے۔ جب کہ دہشت گرد حملوں میں 206 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، سیکیورٹی فورسز نے جھڑپوں میں 206افغان طالبان اور 100 سے دہشتگردوں کو ہلاک کیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آپریشنز زیادہ ہورہے ہیں اور کے پی میں دہشت گرد زیادہ مارے جارہے ہیں، یہ لوگ فوج کے خلاف کام کرتے ہیں اور عشر کے نام پر ٹیکس لیتے ہیں، یہ لوگ جسے عشر کہتے ہیں یہ بھتہ ہے، یہ بارڈر اوپن چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے حشیش لائی جاسکے، اس کا حصہ طالبان کو بھی جاتا ہے اور وارلارڈز کو بھی ملتا ہے، یہ آئس ہماری یونیورسٹیوں تک جارہی ہے ہماری نوجوان نسل کو خراب کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی عمائدین، دہشت گرد، جرائم پیشہ لوگ مل کر قانون کے خلاف کام کر رہے ہیں، کئی بار فوج نے علاقہ کلیٔر کیا مگر سول انتظامیہ اور پولیس سیاسی دبا وکے سبب کام نہیں کرپا رہی، اسمگلرز دہشت گردوں سے مل کر کام کر رہے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت کو عوام اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں، افغانستان سے جڑے معاملات کا حل صرف وہ حکومت ہے جو عوام کی نمائندہ ہو، افغانستان کی شرائط معنی نہیں رکھتی، دہشتگردی کا خاتمہ اہم ہے۔انہوں نے کہاکہ بس بہت ہوگیا افغانستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، افغان طالبان سے سیکیورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے۔دوحہ، استنبول مذاکرات کا ایجنڈا افغانستان سے سرحد پار دہشتگردی کا خاتمہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پالیسی بنانے میں خودمختار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں منشیات اسمگلرز کی افغان سیاست میں مداخلت ہے اور وہاں سے بڑے پیمانے پر منشیات پاکستان اسمگل کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کو پاکستان کا رسپانس فوری اور موثر تھا، پاکستان کے رسپانس کے وہی نتائج نکلے جو ہم چاہتے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز ہے، افغانستان میں ہرقسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور افغانستان دہشت گردی پیدا کررہا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیلا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہمارے ہاں علما، میڈیا اور سیاست دانوں کو یک زبان ہونا ہوگا تب فیصلے کرسکیں گے۔افغان طالبان رجیم تبدیل کرنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم افغان معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت سمندر میں اور فالز فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، تاہم ہم نظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت نے جو بھی کرنا ہے کرلے، اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا،میزائل تجربے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں ڈویلپمنٹ ہوتی رہتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟
  • بیرونی مداخلت اور سازشوں کے خلاف ٹھوس موقف
  • وال چاکنگ پر اب دہشت گردی کے مقدمات درج ہوں گے
  • فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
  • فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
  • فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج
  • افغانستان سے دراندازی ناکام، سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 3 خوارج ہلاک، افغان بارڈر فورس کا اہلکار بھی شامل
  • سرحد پار دہشت گردی ، فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں گے، وزیر دفاع
  • سرحد پار دہشت گردی کیخلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رہیں گے، وزیر دفاع
  •  بدقسمتی سے اسمبلی فورمز کو احتجاج کا گڑھ بنا دیا گیا : ملک محمد احمد خان