پنجاب میں 10 فیصد آبادی صاف پانی سے محروم، بیمار بچوں کی نشوونما متاثر، ایکسپریس فورم
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
لاہور:
بدقسمتی سے پنجاب میں آج بھی 10 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، آلودہ پانی پینے سے لوگ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں،بچوں کی اسٹنٹڈ گروتھ ہور ہی ہے۔
1 ہزار نئے واٹر فلٹریشن پلانٹس سے دیہات میں صاف پانی فراہم کیا جا رہا ہے، رینالہ خورد میں نہری پانی کو صاف کرکے ہزاروں افراد کو فراہم کیا جا رہا ہے۔ لاہور، قصور، رحیم یار خان سمیت بیشتر اضلاع کے پانی میں آرسینک مقدار خطرناک حد تک ہے۔
ان خیالات کا اظہار حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ’’پانی کے عالمی دن‘‘ پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔ ڈی جی پنجاب صاف پانی اتھارٹی چیف انجینئر ذوہیب بٹ نے کہا کہ تمام افراد کو صاف پانی تک رسائی دینے کیلیے اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔
ابتداء میں ہم ایسے اضلاع ہدف ہیں جہاں صاف پانی موجود نہیں، جن دیہات میں 4 ہزار سے زائد آبادی موجود ہے وہاں ایک واٹر پلانٹ لگایا ہے اور اب تک ایک ہزار سے زائد پلانٹس لگائے جا چکے ہیں، رینالہ خورد میں نہر پانی کو صاف کرکے 15 ہزار افراد کو فراہم کیا جا رہا ہے۔
واٹر ایکسپرٹ مبارک علی سرور نے کہا کہ رواں برس پانی کے عالمی دن کا موضوع ’’ پانی امن کیلئے‘‘ ہے جو سب کے لیے پانی تک رسائی پر زور دیتا ہے، پنجاب میں 90 فیصد افراد کو صاف پانی تک رسائی ہے۔صاف پانی نہ ملنے سے لوگ متعدد بیماریوں کا شکار اور بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کم ہو رہی ہے ۔
انھوں نے کہا کہ لاہور، قصور، رحیم یار خان سمیت بیشتر اضلاع کے پانی میں آرسینک کی مقدار خطرناک حد تک ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صاف پانی افراد کو کو صاف
پڑھیں:
وفاقی حکومت کا اقتصادی سروے: 2کروڑ 48 لاکھ بچوں کا اسکولوں سے باہر رہنے کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اقتصادی سروے رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں 2 کروڑ 48 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں جبکہ ملک میں شرح خواندگی 60 اعشاریہ 6 فیصد ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اقتصادی سروے 25-2024 کے مطابق تعلیم کے شعبے پر مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا محض 0.8 فیصد خرچ کیا گیا۔
اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر شرح خواندگی 60.6 فیصد رہی، مردوں کی شرح خواندگی 68 فیصد اور خواتین کی شرح خواندگی 52.8 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ خواجہ سراؤں کی خواندگی 40.2 فیصد ہے، یعنی مرد خواتین سے 16 فیصد زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔
رواں مالی سال میں شہری علاقوں میں خواندگی کی شرح 74 فیصد جبکہ دیہات میں 51.6 رہی، پنجاب 66.3 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے، سندھ میں 57.5 فیصد، خیبرپختونخوا میں 51.1 فیصد اور بلوچستان میں 42.0 فیصد خواندگی کی شرح ہے۔
ملک میں 2 کروڑ 48 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں، بلوچستان 69 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے، سندھ میں 47 فیصد، پنجاب میں 32 فیصد اور خیبرپختونخوا میں سب سے کم 30 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں اس وقت یونیورسٹیوں کی کل تعداد 269 ہے، مجموعی یونیورسٹیوں میں سے 160 سرکاری اور 109 نجی یونیورسٹیاں ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر 61 ارب 10 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، یونیورسٹی سطح پرپی ایچ ڈی فیکلٹی ممبرز کی شرح 37.97 فیصد ہے۔
اقتصادی رپورٹ کے مطابق ہر چوتھا تعلیمی ادارہ بجلی سے محروم ہے، پاکستان کے ہر تیسرے ادارے میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔