گھر سے نوٹوں کے بورے نکلنے پر بھارتی ہائیکورٹ کا جج صاف مکر گیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
نئی دہلی(نیوز ڈیسک)دہلی ہائی کورٹ کے جج یشونت ورما نے اپنے گھرسے بڑی مقدار میں جلے ہوئے نوٹوں کے نکلنے کے واقعے کو بالکل بے وقوفانہ اور ناقابل یقین قرار دے دیا۔
بھارتی میڈیا کےمطابق بھارتی سپریم کورٹ نے ہفتے کو جسٹس یشونت ورما کے رہائش گاہ سے مبینہ طور پر جلنے والی کرنسی کی ویڈیوز اور تصاویر جاری کردیں، جس کے بعد دہلی ہائی کورٹ کے جج نے اپنے عمارت سے کسی بھی کرنسی نوٹ کے نکالے جانے یا ضبط کیے جانے کی سختی سے تردید کردی۔
بھارتی چیف جسٹس نے سنجیو کھنہ کے ذریعے دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سوالات کے جواب میں جسٹس ورما نے کہا ہے کہ یہ فرض کرتے ہوئے ہوئے کہ ویڈیو فوراً واقعے کے وقت کی ہے، یا اس جگہ پر لی گئی ہو، میں سختی سے تردید کرتا ہوں کہ وہاں سے کوئی بھی کرنسی نوٹ ضبط یا بازیاب نہیں کی گئی۔
جسٹس ورما نے کہا کہ وہ 14 مارچ کو واقعے کی رات اپنے گھر میں موجود نہیں تھے، انہوں نے مزید کہا کہ ان کی بیٹی اور عملے نے انہیں بتایا کہ حکام نے آتشزدگی بجھانے کے بعد کسی بھی جلی ہوئی کرنسی کے تھیلے نکالنے یا لے جانے کا کوئی ثبوت نہیں دکھایا۔
جسٹس نے ورما نے کہا کہ اپنے جواب میں کہا کہ جو چیز مجھے حیران کن لگتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی جلی ہوئی کرنسی کے تھیلے کا مکمل طور پرغائب ہونا ہے، جنہیں کبھی بازیاب یا ضبط نہیں کیا گیا۔ ہم یہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ نہ تو میری بیٹی، پی ایس، اور نہ ہی گھریلو عملے کو یہ جلی ہوئی کرنسی کے تھیلے دکھائے گئے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ میرے عملے نے مجھے بتایا کہ وہاں سے کیسی بھی کرنسی کو نہیں نکالا گیا جو مبینہ طور پر سائٹ پر پائی گئی ہو یا جو عمارت سے نکالی گئی ہو۔
دہلی پولیس کمشنر نے جسٹس ورما کے رہائش گاہ سے جلی ہوئی نوٹوں کے ایک تھیلے کی بازیابی کی ویڈیو دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ شیئر کی۔
اپنے عمارت سے جلی ہوئی نقدی نکالے جانے کی تردید کرتے ہوئے جسٹس ورما نے کہا کہ جو چیز صاف کی گئی وہ ملبہ تھا اور جو کچھ ان کے مطابق بچایا جا سکتا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بچوں کا نازیبا مواد دیکھنا، محفوظ رکھنا جرم قرار دے دیا
انہوں نے اپنی بات کو دہراے ہوئے کہا کہ عملے کو سائٹ پر موجود کسی بھی نقدی یا کرنسی کے باقیات دکھائے نہیں گئے۔
جسٹس ورما نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا نہ تو انہوں نے اور نہ ہی ان کے اہل خانہ نے اپنے اسٹور روم میں کوئی نقدی رکھی تھی، جسٹس ورما نے کہا کہ وہاں نقدی رکھنے کا خیال ”بالکل بے وقوفانہ“ ہے۔
چیف جسٹس دہلی ہائی کورٹ جسٹس یشونت شرما نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ یہ تصور یا تجویز کہ ہم نے یہ نقدی رکھی یا ذخیرہ کی وہ بالکل بے وقوفانہ ہے۔
انہوں یہ تجویز کہ کوئی نقدی کو کھلے، آزادانہ طور پر رسائی حاصل کرنے والے اور عام طور پر استعمال ہونے والے اسٹور روم میں رکھے گا جو عملے کے رہائشی حصے کے قریب یا کسی ویئر ہاؤس میں ہو، یہ ناقابل یقین اور غیر معقول بات ہے۔
جسٹس یشونت ورما نے کہا کہ ان کی رہائش گاہ پر نقدی ملنے کے الزامات واضح طور پر انہیں پھنسانے اور بدنام کرنے کی سازش دکھائی دیتے ہیں۔
مزیدپڑھیں:مندر میں کروڑوں کا نذرانہ، عطیات کی صورت سونا اور چاندی کی بارش
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جسٹس ورما نے کہا ورما نے کہا کہ انہوں نے جلی ہوئی چیف جسٹس کرنسی کے نے اپنے کسی بھی
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔