امت مسلمہ کے حکمرانوں نے امریکہ کی غلامی قبول کی ہوئی ہے، منعم ظفر خان
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
دعوت افطار سے خطاب میں امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی صحافیوں کا 10 رکنی وفد کو اسرائیل بھیجا گیا ہے، اس طرح کے کسی بھی اقدام پر حکومت پاکستان کو اپنا مؤقف پیش کرنا ہوگا، ہمارا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے، حکومت فوری طور پر اپنا موقف عوام کے سامنے لائے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ امت مسلہ کے حکمرانوں نے امریکہ کی غلامی قبول کی ہوئی ہے، حکمرانوں کی ہاتھوں میں عصائے موسی ہونے کے باجود ان کی ٹانگیں کانپتی ہیں، 57 اسلامی ممالک لاکھوں کی افواج کے باوجود فلسطینی بچوں، ماؤں، بہنوں کی صدائیں بلند ہورہی ہیں، گزشتہ 5 دنوں سے صیہونیوں نے دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا ہے، مسلمان کبھی بھی عددی قوت سے نہیں ڈرتے بلکہ ہمیشہ ایمان کے جذبے سے سرشار رہتے ہیں، عوام اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، گلی گلی مہم چلائیں اور معاشی طور پر اسرائیل کو نقصان پہنچائیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی علاقہ جمشید کے تحت فاطمہ جناح کالونی نیو ایم اے جناح روڈ نزد فاروقی مسجد میں دعوت افطارسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دعوت افطار سے ڈپٹی سکریٹری جماعت اسلامی کراچی راشد قریشی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر چیئرمین یوسی 5 عاطف شبیر، چئیرمن یوسی 4 کلیم الحق عثمانی و دیگر بھی موجود تھے۔
منعم ظفر نے کہا کہ جماعت اسلامی سیاسی سطح پر صدا بلند کرے گی اور اہل غزہ و فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی جاری رکھے گی، ایک جانب اسرائیل فلسطین پر ظلم کررہا ہے اور دوسری جانب اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے، اطلاعات کے مطابق پاکستانی صحافیوں کا 10 رکنی وفد کو اسرائیل بھیجا گیا ہے، اس طرح کے کسی بھی اقدام پر حکومت پاکستان کو اپنا مؤقف پیش کرنا ہوگا، ہمارا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے، حکومت فوری طور پر اپنا موقف عوام کے سامنے لائے، اسرائیل ایک ناجائز بچہ ہے جسے ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے، مہنگائی و بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن حکمرانوں کی شاہ خرچیاں ختم نہیں ہورہی، حکمرانوں نے اپنی تنخواہوں میں 188 فیصد اضافہ کیا ہے، جماعت اسلامی کراچی کی ساڑھے تین کروڑ عوام کے ساتھ ہے، جماعت اسلامی عید کے فوری بعد 27 اپریل کو حقوق کراچی مہم کو از سر نو شروع کرے گی۔
منعم ظفر خان نے مزید کہا کہ 15 ماہ تک اسرائیل بمباری کرتا رہا پھر جنگ بندی کی گئی، غزوہ بدر میں 313 صحابہ تھے جنہوں نے اپنے سے کئی گناہ بڑے لشکر سے مقابلہ کیا، اگر اللہ پر ایمان ہو اس کے راستے پر صبر و استقامت کا راستہ اختیار کیا جائے تو کوئی بھی طاقت شکست نہیں دے سکتی، غزوہ بدر معرکہ نہیں دو تہذیبوں اور نظریات کی جنگ تھی، ایک جانب کلمہ گو اور دوسری جانب بتوں کی پوجا کرتے تھے، 15 ماہ گزرنے کے باوجود جب فلسطینی ماؤں، بہنوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ وہ ایک ہی بات کرتے ہیں کہ ہمارے لیے اللہ کی نصرت ہی کافی ہے، ایمانی کیفیت نے ہی اسرائیل کو شکست فاش سے دوچار کردیا، اسرائیل نے پورے غزہ کو ملیا میٹ کردیا ہے لیکن اہل غزہ کی آزادی کے جذبہ ایمانی کو ختم نہیں کرسکا، اہل غزہ و فلسطینی مسلمانوں کے جذبہ سے ہی ایک دن بیت المقدس ضرور آزاد ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی کراچی
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔