شرم مگر تم کو نہیں آتی …….
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
اقبال ؒ نے کہا تھا’’ جدا ہودیں سیاست سے رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ ہم نے دیکھ رہے ہیں، بھگت رہے ہیں ، آج سے نہیں پون صدی سے ۔ ابوالکلام نے تو کسی اور تناظر میں کہا تھا کہ’’ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ‘‘ہم جس سیاست سے مسلسل ڈسے جارہے ہیں ، اس کی آنکھ میں شرم اور زبان وکردار میں حیا بھی باقی نہیں رہی ، ورنہ اس قدر سفاک بھی کوئی حکمران ہو سکتا ہے کہ قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر عوام کا مذاق اڑائے کہ ’’جانتے ہیں ، ان پر بڑا بوجھ ہے ، لیکن ہمارے پاس ان کے لئے کوئی ریلیف نہیں ۔‘‘ اور عین اسی دن گشتی مراسلے کے ذریعے کابینہ خود اپنی تنخواہوں میں 188فیصد اضافے کا اعلان کرکے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا بھی بندوبست کرے ۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ ’’تمہارے لئے کوئی ریلیف نہیں ، ہماری لوٹ مار کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘ حالانکہ ابھی چند ہفتے قبل ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں 10گناتک اضافہ کیا گیاتھا۔ بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ ملک وقوم کے مفاد میں قانون سازی کے وقت ایک دوسرے کا گریبان چاک کرتے ہوئے اس کا راستہ روکنے والے حکومت اور اپوزیشن کےارکان اس فیصلے کے وقت یوں شیر وشکر تھے ، جیسے ایک ماں کے جائے بھی کیاہوں گے۔حیرت ہوتی ہے کہ سیاست واقتدار کی اس کان میں جو بھی گیا نمک بن گیا،ممبر و محراب میں مساوات محمدیﷺ اور فقر بو ذری ؓ کا درس دینے والے ہوں،انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ہوں، عوام کی محبت کا دم بھرنے والے یا جعلی آزادی کے ڈھونگ نعرے لگانے والے ، کسی ایک کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ کھڑا ہو کر اختلاف کرتا،احتجاج کرتا،بائیکاٹ کردیتا کہ جب تک عام آدمی کو ریلیف نہیں ملتا میں اتنا بڑا اضافہ نہیں لوں گا ۔ پنجابی کی کہاوت ہے ،’’ چوری کا مال اور لاٹھیوں کے گز ‘‘پہلی بار سمجھ آیا ، تنخواہ دار کے 10سے 15فیصد اضافے کے لئے خزانے میں گنجائش نہیں لیکن اپنے لئے سینکڑوں فیصد اضافہ بھی جائز ۔
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ابو بکر ؓ یاد آئے ، آقا ومولا سیدنا محمدﷺ کے رفیق خاص، خیرالبشر بعد ازانبیاء،امام المتقین خلیفۃ الرسول۔ اپنے عہد کے بڑے تاجر تھے،خلافت کا بار گراں کندھوں پرآیا تو ذاتی کاروبار اس لئے بھی ممکن نہ رہا کہ جہاں خلیفہ کا کاروبار ہوگا ، وہاں کسی اور کی دکان کیسے چلے گی؟گزر اوقات کیسے ہوگی ؟اس وقت کی کابینہ بیٹھی ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمان ؓ،سیدنا علی ؓاور دیگر چند صاحب الرائے اور صائب الرائے یاران نبیﷺ، پوچھا ،ابوبکر کتنے میں گزارہ ہوجائے گا ، کتنا معاوضہ مقرر کردیں ، فرمایا مدینے کے مزدور کے برابر۔ کہا گیا متمول خاندان سے ہو،گزارا کیسے ہوگا،فرمایا جب میرا گزارا نہیں ہوگا تو مزدور کا معاوضہ بڑھا دوں گا۔اک وہ حکمران تھے ، اور ایک یہ ۔چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ نام لیتے ہیں ، دین کا ، نعرے لگاتے ہیں ، عوامی حقوق کے اور لوٹ مار میں سب سے آگے ، دنیا میں بڑے بڑے سفاک موجود ہیں ،مگر اس قدر بے رحم رویہ کہیں سنا نہ دیکھا کہ ایک ہی مجلس میں عام آدمی کو ٹھینگا دکھا دیا جائےاور اپنے معاوضے جو پہلی ہی کم نہ تھے،ان میں بے پناہ اضافہ کردیا جائے۔سوال یہ ہے کہ لوٹ مار اور کیا ہوتی ہے؟ ڈکیتی اور کس کو کہا جاتا ہے ؟شورش نےٹھیک ہی کہا تھا کہ
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کھانے میں ان کا پسندیدہ میٹھاموجود تھا جو خلافت ملنے کے بعد سے نہ کھایا تھا۔ پوچھا یہ کہاں سے آیا ، بتایا گیا کہ بیت المال کے معاوضہ میں سے کئی روز سے تھوڑا تھوڑا پس انداز کر رہے تھے ، اس سے یہ اضافی کھانا ممکن ہو سکا ۔ فورا ناظم بیت المال کو لکھا میرے وظیفے میں اتنا کم کردیا جائے کہ گزارہ اس کے بغیر بھی ہو سکتا ہے ۔ وِصال کا وقت قریب آیا تواس خرچ کا حساب لگایا گیا جو دور خلافت میں آپ نے بیت المال سے لیا تھا،حکم دیا میرے بعد فلاں جائداد فروخت کرکے رقم خزانے میں جمع کروادینا ۔ وصیت فرمائی کہ خلیفہ بننے کے وقت سے میرے مال میں جس قدر اضافہ ہوا ، اسے میرے بعد والے خلیفہ کے پاس بھیج دینا۔ ایک یہ ہمارے حکمران ہیں ، قوم پر اللہ کا عذاب ۔ملک بھاری قرضوں میں جکڑا ہے ، مگر ان کی عیاشیاں کم ہونے میں نہیں آرہیں ، کوئی حساب ہی نہیں ۔ ابو بکرؓ کے معیار کو نہیں پہنچ سکتے تو کم ازکم بانی پاکستان کی ہی پیروی کرلو ،جنہوں نے کابینہ کے اجلاس میں چائے پلانے سے بھی روک دیا تھا۔ بیماری کے عالم میں علم ہوا کہ سرکاری خرچ پر ذاتی خادم کو بلاکر کھانا پکوایا گیا ہے تو اس کا خرچ اپنی جیب سے ادا کرکے رخصت کردیا ۔ نا معلوم ہماری کس اجتماعی جرم کی سزاہے ، یکے بعد دیگرے کیسے کیسے نمونے ہماری قسمت میں لکھے ہیں کہ دین سے انہیں رغبت نہیں ، اپنی تاریخ اور جمہوری اقدار سے کوئی لینا دینا نہیں ، ایک ہی مقصد ہے ، لوٹو ، دونوں ہاتھوں سے لوٹو۔ پھر اقبال کی ایک فریاد یاد آگئی ۔
گرگوں کرد لا دینی جہاں را
ز آثار بدن گفتند جان را
ازاں فقرے کہ با صدیقؓ دادی
بشورے آ در این آسودہ جاں را
بہ مردان خدا دادیم پیغام
کہ کوبند آن در دیر کھن را
دلِ دزدانِ سرمایۂ افرنگ
چو مسمار حرم لرزاں کنن را
کلیسا کی بغل در سینۂ دیر
نہاں کردند نورِ صبح دم را
مسلماں زین دو حرفے شد مسلمان
کہ جان در باختند آن صادقاں را
ز چنگالِ کلیسا فقر بربود
ز دامن ہائے دیر آلود جاں را
(لا دینی نے دنیا کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے، لوگوں نے روح کی بجائے جسمانی اثرات کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔اے اللہ! وہ جو تُو نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو عطا کیا تھا،اس مردہ روح میں دوبارہ وہی ہلچل پیدا کر دے ۔ اللہ نے سچے بندوں کو پیغام دیا ہے،کہ وہ پرانے باطل معبدوں کے دروازے توڑ دیں۔مغرب کے سرمایہ داروں کے دلوں میں خوف پیدا کر دے۔جیسے کعبہ کے دشمنوں پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔کلیسا (مذہبی استحصالی نظام) نے دیر (بت پرستوں کے مندر) میں پناہ لے لی ہے۔ انہوں نے اسلام کی روشنی کو چھپا دیا۔ مسلمان ان دو چیزوں سے مسلمان بنا،اپنی جان دینااورایمان پر ثابت قدم رہنا، وہ لوگ (صحابہؓ) اپنی جان دے کر سچے مسلمان بنے۔ کلیسا (مغربی نظام) نے اسلام کا سادہ طرزِ زندگی چھین لیا۔ مسلمانوں کی روح کو بت پرستی کے اثرات میں آلودہ کر دیا۔)
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
اسلام آباد:رہنما تحریک انصاف علی محمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دفاع کے لیے پاکستان کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، آج سے نہیں جب سے پاکستان بنا ہے ہندوستان کی نظریں ہمارے ملک پہ ہیں اور اس کا الٹی میٹلی مقصد یہی ہے کہ پاکستان کے حصے بخرے کیے جائیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمیں کسی خیال کی جنت میں نہیں رہنا چاہیے، آدھا ملک گنوانے کے بعد ہم نے کرتوت ٹھیک نہیں کیے، ہم نے اپنے ملک کوٹھیک نہیں کیا، اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر نہیں چلے لیکن پاکستانی قوم کو سلام ہے کہ جب بھی پاکستان کی سلامتی پر حرف آتا ہے تو ہم سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ پہلا وار تو بہرحال ہندوستان کی طرف سے آیا اور انہوں نے بڑا ہی کاری وار کیا کیونکہ جو واقعہ وہاں پہ پیش آیا اگر چار جانیں گئی ہوں تو افسوس ہی کرتے ہیں، پاکستان نے بھی کیا لیکن اس پر جس طرح انھوں نے سیاست کی اور اپنے ایک دم سے پانچ منٹ کے اندر اندر ان کے سارے چینل آگ اگلنے لگے پاکستان کے خلاف، اس سے سب کو شک پڑ گیا کہ بھئی یہ کوئی واقعہ ہوا بھی ہے اور کس طرح ہوا ہے؟پھر جب بات نکلی اور کھلی تو پتہ چلا کہ یہ تو ہمیشہ سے ہی فالس فلیگ آپریشنز کرتے آئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ پہلگام والا جو واقعہ ہوا تھا اس کی تو مذمت بالکل سب نے کی ہے، پوری دنیا کرتی ہے جو ٹریرسٹ اٹیک وہاں ہوا ہے لیکن اس کے بعد ہندوستان کی حکومت کی طرف سے جو ردعمل آیا اس کی بھی ہمیں اتنی ہی مذمت کرنی چاہیے کہ ایک ملک کو بغیر کسی ثبوت کہ بغیر سوچے سمجھے آپ نے الزام لگا دیا ہے اور پاکستان جو چاہتا ہے کہ اس خطے میں امن رہے اس پر آپ نے ایسی لغو قسم کی باتیں کہ جو ٹریٹی آپ یک طرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی اس کو آپ ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں وہ سمجھ سے باہر ہے، بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نہروں کے حوالے سندھ کے لوگ بے چینی اور پریشانی میں تھے، اس کو دیکھتے ہوئے ہم نے فیڈرل گورنمنٹ کو اپروچ کیا تھا اور کہا تھا کہ آپ نے سی سی آئی کا اجلاس بلانا ہے۔