سرینگر، سوشل میڈیا پر آزادی کے حق میں پوسٹ کرنے پر 8 کشمیری گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
قابض حکام مقبوضہ جموں و کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں کے خلاف جابرانہ اقدامات کا جواز پیش کرنے کے لئے اکثر انہیں آزادی پسند تنظیموں کا کارکن قرار دیتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے ضلع سرینگر میں بھارتی پولیس نے 8 کشمیری نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر بھارتی تسلط سے آزادی کے حق میں پوسٹ کرنے پر گرفتار کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گرفتار کئے گئے نوجوانوں میں سرینگر کے رہائشی ذوہیب ظہور، ابرار مشتاق اور فرہاد رسول اور جبکہ کولگام کے رہائشی سجاد احمد لون کے علاوہ چار نابالغ بھی شامل ہیں۔ قابض حکام مقبوضہ جموں و کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں کے خلاف جابرانہ اقدامات کا جواز پیش کرنے کے لئے اکثر انہیں آزادی پسند تنظیموں کا کارکن قرار دیتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق اس طرح کے ظالمانہ اقدامات سے کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو دبایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی سوشل میڈیا صارفین کی اظہار رائے کی آزادی پر قدغن عائد کی جا سکتی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
کرغیزستان: نئے میڈیا قانون کے تحت دو صحافیوں کو قید کی سزا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) کرغیزستان وسطی ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں میں سب سے زیادہ جمہوری ملک مانا جاتا رہا ہے۔ لیکن عالمی حقوقِ انسانی اور صحافتی آزادی کے گروپوں نے میڈیا اور سول سوسائٹی پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کریک ڈاؤن تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق جس کی کاپی اے ایف پی کے پاس ہے، بدھ کے روز 'کلوپ‘ نامی آزاد میڈیا ادارے سے وابستہ دونوں کیمرہ مینوں کو ''ریاستی اہلکاروں کی نافرمانی پر اکسانے اور بڑے پیمانے پر ہنگامے برپا کرنے‘‘ کے الزام میں مجرم قرار دیا گیا۔
بالخصوص مغربی ڈونرز کی مالی معاونت سے چلنے والا آزاد میڈیا ادارہ 'کلوپ‘ کرپشن کے کیسز پر رپورٹنگ کرتا ہے۔
(جاری ہے)
اسے گزشتہ سال ''حکومت پر شدید تنقید‘‘ کی بنیاد پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ ادارہ اب بھی کام کر رہا تھا۔
کرغیز صدر جباروف نے خود کہا تھا کہ کلوپ ''کرغیزستان کو صرف نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘
کلوپ کی جانب سے جاری کیے گئے عدالتی ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ان دونوں کیمرہ مینوں نے ابتدائی طور پر جرم قبول کیا، لیکن بعد میں کہا کہ دباؤ کے تحت ان سے اعترافی بیان پر دستخط کروائے گئے۔
استغاثہ کے مطابق کلوپ حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان پر جلاوطن صحافی بولوت تیمیروف سے روابط کا بھی الزام دیا گیا، جو یوٹیوب چینل پر کرپشن مخالف تحقیقات کرتے ہیں اور کرغیز حکام کے لیے ایک بڑا دردِ سر سمجھے جاتے ہیں۔
تاہم کلوپ نے کہا کہ مذکورہ کیمرہ مین تیمیروف کی ویڈیوز میں شامل نہیں تھے، اور خود صحافی نے بھی کہا کہ وہ ان پر اکیلے کام کرتے ہیں۔
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے کلوپ کے صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے کرغیز حکام کے ''شرمناک ہتھکنڈوں‘‘ کی مذمت کی تھی۔
متنازعہ میڈیا قانونکرغیز صدر جباروف نے اگست میں ایک متنازعہ میڈیا قانون پر دستخط کیے تھے جو آزاد اداروں پر حکومتی کنٹرول بڑھاتا ہے۔ صحافیوں اور حقوق کے گروپوں نے اس پر تنقید کی تھی۔
اس قانون کے تحت تمام میڈیا، بشمول آن لائن پلیٹ فارمز، کو حکام کے ساتھ رجسٹریشن کرانا لازمی ہے اور غیر ملکی ملکیت 35 فیصد تک محدود کر دی گئی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون اختلافِ رائے کو دبانے اور صحافتی آزادی کو کچلنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔جباروف نے''غلط معلومات‘‘پھیلانے پر سزائیں بھی دینے کا قانون منظور کیا، جن میں میڈیا اداروں پر 740 ڈالر تک کے جرمانے شامل ہیں۔
حقوق کے گروپوں نے خبردار کیا کہ یہ اقدامات آزادیِ اظہار کے بین الاقوامی معیارات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
وسطی ایشیا میں کبھی صحافتی آزادی کا نسبتاً محفوظ ٹھکانہ سمجھے جانے والا کرغیزستان میں حالیہ برسوں میں میڈیا کی آزادی میں تیزی سے کمی آئی ہے، جس میں صحافیوں کی گرفتاری، قانونی دباؤ اور تنقیدی اداروں کی بندش شامل ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین