WE News:
2025-11-03@07:26:48 GMT

موت کے سوداگر

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

موت کے سوداگر

یمن اور جبوتی کے ساحلوں پر 4 کشتیوں کے الٹنے سے 186 مسافر لاپتہ ہوئے، یہ ایک ایسا زخم ہے جو ہر دفعہ نئے انداز میں ہرا ہو جاتا ہے، ہر دفعہ نئی ٹھیس دے جاتا ہے۔

بےرحم موجوں سے لڑنے والے وہ بدنصیب تھے جو پیٹ کی آگ اور غربت کی زنجیروں سے بھاگ کر کسی بہتر زندگی کی تلاش میں نکلے تھے، لیکن افسوس صد افسوس ان کی منزل سمندر کی گہرائیاں بن گئیں۔

ماں کا بیٹا، باپ کی امید، بہن کا مان — سب سمندر کی بے رحم موجوں میں کھو گئے اور پیچھے صرف چیختی خاموشی رہ گئی۔

درحقیقت اصل قاتل سمندر نہیں، بلکہ وہ درندہ صفت اسمگلر تھے جو گلی گلی چند سکوں کے عوض زندگیاں بیچتے پھرتے ہیں۔

یمن کے موسمیاتی ادارے نے بروقت خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی، لیکن سوداگرانِ موت نے وارننگ کو ہوا میں اڑا دیا، بس اس فکر میں کہ کہیں سرحدی گشت والے ان پر نظر نہ ڈال لیں۔ ان کے لیے یہ لوگ انسان نہیں، صرف چلتی پھرتی رقم تھے۔ جو ڈوب جائے، وہ ان کے نصیب کا لکھا تھا اور جو پار لگ جائے، وہ اگلے شکار کے لیے ایک اور گواہی۔

یہ بے رحم کھیل ہے جو ہمیں اجنبی نہیں لگتا۔ بحیرۂ روم، اوقیانوس، یا بحیرۂ ایجیئن، ان سمندروں نے جانے کتنے پاکستانی نوجوانوں کی لاشیں ساحل پر اچھالیں ہیں، مگر ہمارے ایوانوں میں ابھی بھی راوی چین حس چین لکھتا ہے۔

فروری میں لیبیا کے قریب ایک کشتی الٹنے سے 16 پاکستانی ڈوب گئے۔ جنوری میں موریطانیہ سے اسپین کے لیے روانہ ہونے والی ایک اور کشتی 13 دن تک سمندر میں بھٹکتی رہی، یہاں تک کہ پیاس، بھوک اور موت نے اس میں سوار 50 پاکستانیوں کو نگل لیا۔

کچھ خوش نصیب بچ گئے، مگر ان کی کہانیاں سنیں تو معلوم ہو کہ مرنے والے شاید زیادہ خوش قسمت تھے، کیونکہ زندہ بچ جانے والوں کو مراکش میں ہتھوڑوں سے مارا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔

یہ صرف چند واقعات نہیں، بلکہ ایک سلسلہ ہے جو نہ رکنے والا ہے۔ میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ صرف اس سال انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں کم از کم 40 پاکستانی قتل ہو چکے ہیں۔

اور جو بچ گئے، وہ یا تو کسی خفیہ پناہ گاہ میں چھپے بیٹھے ہیں، یا پھر اگلے موقع کی تلاش میں ہے کہ شاید اس بار قسمت مہربان ہو جائے۔

ترکیہ، جو یورپ کے دروازے پر کھڑا ہے، پاکستانی تارکینِ وطن کے لیے ایک اہم پڑاؤ بن چکا ہے۔ ہزاروں پاکستانی قانونی ویزے پر وہاں پہنچتے ہیں، اور پھر غیر قانونی راستوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔

محتاط اندازوں کے مطابق ترکیہ میں اس وقت 6,000 سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ ان میں سے کئی انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں یورپ پہنچنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ افسوس در افسوس حقیقت اکثر بہت تلخ ہوتی ہے۔

دسمبر 2023 میں ترکیہ اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کے تحت غیر قانونی پاکستانی مہاجرین کی واپسی کے لیے ایک تیز تر نظام قائم کیا جائے گا۔

دیر عاید درست عاید لیکن یہاں ایک معصومانہ سوال تو بنتا ہے، کیا یہ مسئلے کا حل ہے یا صرف  دل کو بہلا دینے والا وقتی بندوبست؟ جب تک لوگ اپنے ملک میں مواقع نہیں دیکھیں گے، وہ خطرناک راستوں کو اپنانے سے باز نہیں آئیں گے۔

پاکستان دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہے، جہاں سب سے زیادہ غیر قانونی مہاجرین یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا ہماری معیشت واقعی اتنی تباہ حال ہے کہ نوجوانوں کے پاس سمندر میں ڈوبنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا؟

حقیقت یہ ہے کہ حکومت اگر سنجیدہ ہو تو اس مسئلے کو جڑ سے ختم کر سکتی ہے۔ چھوٹے کاروباروں کے لیے آسان قرضے، فنی تربیت کے مواقع، اور بیرونِ ملک قانونی ملازمت کے لیے دو طرفہ معاہدے۔

یہ سب وہ اقدامات ہیں جو اس بحران کو روک سکتے ہیں۔ اگر ترکیہ اور یورپی یونین کے درمیان ایسا معاہدہ ممکن ہے جس کے تحت ترکیہ غیر قانونی مہاجروں کو روکنے کے لیے مالی امداد حاصل کرتا ہے، تو پاکستان کیوں ترکیہ کے ساتھ ایک ایسا نظام ترتیب نہیں دے سکتا جس سے محفوظ، قانونی اور باعزت ہجرت ممکن ہو سکے؟

ہر نئے سانحے پر ہماری حکومت بیان جاری کر دیتی ہے، فائلوں میں ایک نیا نوٹ لگ جاتا ہے، اور چند دنوں کے لیے ایک دو لوگوں کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ مگر نظام وہیں کا وہیں رہتا ہے، کیونکہ اصل مجرموں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ یا شاہد لگا نہیں سکتا۔

اس سال ایف آئی اے نے 2 بڑے انسانی اسمگلروں کو گرفتار کیا، جن میں سے ایک تو باقاعدہ طور پر “ریڈ بُک” میں شامل تھا۔ بہرحال سوال یہ ہے کہ کیا اس سے کچھ فرق پڑا؟ جب تک پورے نیٹ ورک کا خاتمہ نہیں ہوتا، یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

فیض احمد فیض سے  پوچھا جائے تو کہیں گے:

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

دُرِ اکرم

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے لیے ایک جاتا ہے

پڑھیں:

ترکیہ کا 102 واں یوم جمہوریہ، کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں تقریب

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(اسٹاف رپورٹر) کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں ترکیہ کے 102 ویں یوم جمہوریہ پر تقریب کا انعقاد کیا گیا، اس موقع پر ترک قونصل جنرل ارگل کادک، دیگر عہدیداروں نے شرکت کی، تقریب میں پاک، ترکیہ دوستی کے رنگوں کی نمائش کی گئی، جہاں طلبا نے فن کے ذریعے اس رشتے کی اہمیت کو اجاگر کیا، ترک تاریخ، ثقافت پر پروگرام کے علاوہ دوستی پر دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی جب کہ تصاویری نمائش کا بھی انعقاد کیا گیا، ساتھ ساتھ طلبا نے فوڈ فیسٹیول کا میلہ بھی سجایا، جہاں شرکاء ترک پکوانوں سے لطف اندوز ہوئے۔ خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر وسیم قاضی نے کہا کہ پاک، ترکیہ تعلقات مشترکہ تاریخ و باہمی احترام پر قائم ہیں، جب بھی ایک قوم نے آواز دی، دوسری نے ہمیشہ وفاداری اور یکجہتی کا جواب دیا۔ قونصل جنرل ارگل کادک نے کہا کہ یہ دن دونوں ممالک کے درمیان گہری دوستی کی علامت ہے، جو باہمی احترام اور ثقافتی تعلقات پر مشتمل ہے۔ انہوں نے میڈیکل طلبا کیلئے اسکالر شپس کا اعلان بھی کیا۔ ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد خان نے کہا کہ ثقافتی تبادلے تعلقات کو مزید فروغ دیں گے۔ آخر میں مہمان کو تحائف پیش کئے گئے۔

اسٹاف رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار آج ایک روزہ دورے پر ترکیہ جائیں گے
  • ترکیہ کے رنگ میں رنگا پاکستان
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب
  • ترکیہ: آتشزدگی سے ہلاکتوں کے مقدمے میں ہوٹل کے مالک کو عمر قید
  • ترکیہ کا 102 واں یوم جمہوریہ، کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں تقریب
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار پیر کو ترکیہ روانہ ہوں گے
  • پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم