یمن اور جبوتی کے ساحلوں پر 4 کشتیوں کے الٹنے سے 186 مسافر لاپتہ ہوئے، یہ ایک ایسا زخم ہے جو ہر دفعہ نئے انداز میں ہرا ہو جاتا ہے، ہر دفعہ نئی ٹھیس دے جاتا ہے۔
بےرحم موجوں سے لڑنے والے وہ بدنصیب تھے جو پیٹ کی آگ اور غربت کی زنجیروں سے بھاگ کر کسی بہتر زندگی کی تلاش میں نکلے تھے، لیکن افسوس صد افسوس ان کی منزل سمندر کی گہرائیاں بن گئیں۔
ماں کا بیٹا، باپ کی امید، بہن کا مان — سب سمندر کی بے رحم موجوں میں کھو گئے اور پیچھے صرف چیختی خاموشی رہ گئی۔
درحقیقت اصل قاتل سمندر نہیں، بلکہ وہ درندہ صفت اسمگلر تھے جو گلی گلی چند سکوں کے عوض زندگیاں بیچتے پھرتے ہیں۔
یمن کے موسمیاتی ادارے نے بروقت خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی، لیکن سوداگرانِ موت نے وارننگ کو ہوا میں اڑا دیا، بس اس فکر میں کہ کہیں سرحدی گشت والے ان پر نظر نہ ڈال لیں۔ ان کے لیے یہ لوگ انسان نہیں، صرف چلتی پھرتی رقم تھے۔ جو ڈوب جائے، وہ ان کے نصیب کا لکھا تھا اور جو پار لگ جائے، وہ اگلے شکار کے لیے ایک اور گواہی۔
یہ بے رحم کھیل ہے جو ہمیں اجنبی نہیں لگتا۔ بحیرۂ روم، اوقیانوس، یا بحیرۂ ایجیئن، ان سمندروں نے جانے کتنے پاکستانی نوجوانوں کی لاشیں ساحل پر اچھالیں ہیں، مگر ہمارے ایوانوں میں ابھی بھی راوی چین حس چین لکھتا ہے۔
فروری میں لیبیا کے قریب ایک کشتی الٹنے سے 16 پاکستانی ڈوب گئے۔ جنوری میں موریطانیہ سے اسپین کے لیے روانہ ہونے والی ایک اور کشتی 13 دن تک سمندر میں بھٹکتی رہی، یہاں تک کہ پیاس، بھوک اور موت نے اس میں سوار 50 پاکستانیوں کو نگل لیا۔
کچھ خوش نصیب بچ گئے، مگر ان کی کہانیاں سنیں تو معلوم ہو کہ مرنے والے شاید زیادہ خوش قسمت تھے، کیونکہ زندہ بچ جانے والوں کو مراکش میں ہتھوڑوں سے مارا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔
یہ صرف چند واقعات نہیں، بلکہ ایک سلسلہ ہے جو نہ رکنے والا ہے۔ میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ صرف اس سال انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں کم از کم 40 پاکستانی قتل ہو چکے ہیں۔
اور جو بچ گئے، وہ یا تو کسی خفیہ پناہ گاہ میں چھپے بیٹھے ہیں، یا پھر اگلے موقع کی تلاش میں ہے کہ شاید اس بار قسمت مہربان ہو جائے۔
ترکیہ، جو یورپ کے دروازے پر کھڑا ہے، پاکستانی تارکینِ وطن کے لیے ایک اہم پڑاؤ بن چکا ہے۔ ہزاروں پاکستانی قانونی ویزے پر وہاں پہنچتے ہیں، اور پھر غیر قانونی راستوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔
محتاط اندازوں کے مطابق ترکیہ میں اس وقت 6,000 سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ ان میں سے کئی انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں یورپ پہنچنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ افسوس در افسوس حقیقت اکثر بہت تلخ ہوتی ہے۔
دسمبر 2023 میں ترکیہ اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کے تحت غیر قانونی پاکستانی مہاجرین کی واپسی کے لیے ایک تیز تر نظام قائم کیا جائے گا۔
دیر عاید درست عاید لیکن یہاں ایک معصومانہ سوال تو بنتا ہے، کیا یہ مسئلے کا حل ہے یا صرف دل کو بہلا دینے والا وقتی بندوبست؟ جب تک لوگ اپنے ملک میں مواقع نہیں دیکھیں گے، وہ خطرناک راستوں کو اپنانے سے باز نہیں آئیں گے۔
پاکستان دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہے، جہاں سب سے زیادہ غیر قانونی مہاجرین یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا ہماری معیشت واقعی اتنی تباہ حال ہے کہ نوجوانوں کے پاس سمندر میں ڈوبنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا؟
حقیقت یہ ہے کہ حکومت اگر سنجیدہ ہو تو اس مسئلے کو جڑ سے ختم کر سکتی ہے۔ چھوٹے کاروباروں کے لیے آسان قرضے، فنی تربیت کے مواقع، اور بیرونِ ملک قانونی ملازمت کے لیے دو طرفہ معاہدے۔
یہ سب وہ اقدامات ہیں جو اس بحران کو روک سکتے ہیں۔ اگر ترکیہ اور یورپی یونین کے درمیان ایسا معاہدہ ممکن ہے جس کے تحت ترکیہ غیر قانونی مہاجروں کو روکنے کے لیے مالی امداد حاصل کرتا ہے، تو پاکستان کیوں ترکیہ کے ساتھ ایک ایسا نظام ترتیب نہیں دے سکتا جس سے محفوظ، قانونی اور باعزت ہجرت ممکن ہو سکے؟
ہر نئے سانحے پر ہماری حکومت بیان جاری کر دیتی ہے، فائلوں میں ایک نیا نوٹ لگ جاتا ہے، اور چند دنوں کے لیے ایک دو لوگوں کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ مگر نظام وہیں کا وہیں رہتا ہے، کیونکہ اصل مجرموں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ یا شاہد لگا نہیں سکتا۔
اس سال ایف آئی اے نے 2 بڑے انسانی اسمگلروں کو گرفتار کیا، جن میں سے ایک تو باقاعدہ طور پر “ریڈ بُک” میں شامل تھا۔ بہرحال سوال یہ ہے کہ کیا اس سے کچھ فرق پڑا؟ جب تک پورے نیٹ ورک کا خاتمہ نہیں ہوتا، یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
فیض احمد فیض سے پوچھا جائے تو کہیں گے:
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے لیے ایک جاتا ہے
پڑھیں:
اسلام آباد: غیر قانونی رہائش پذیر افغان شہریوں کیخلاف کریک ڈاؤن
— فائل فوٹواسلام آباد میں سی ٹی ڈی نے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔
پولیس کے مطابق اسلام آباد میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر تقریباََ 1900 افغان شہریوں کو اب تک افغانستان واپس بھجوایا گیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ دوران چیکنگ 1050 افغان شہریوں کے پاس سفری دستاویزات نہیں پائی گئیں۔
پولیس کے مطابق جانچ پڑتال میں تقریباََ 350 افغان شہریوں کے ویزے ایکسپائر ہوگئے تھے۔