’صحت مند ماحول انسانی حق ہے‘،بین الاقوامی عدالت انصاف
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ممالک کی ذمہ داریوں کے بارے میں بدھ کو اپنی مشاورتی فیصلے میں کہا ہے کہ پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنا ضروری ہے۔ ایسا نہ کرنے والے ممالک پر قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اپنے طرزعمل کو تبدیل کرنا، دوبارہ ایسا نہ کرنے کی ضمانت دینا یا ماحول کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنا پڑ سکتا ہے۔
عدالت کے صدر یوجی ایواساوا نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا، ’’گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی واضح طور پر وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں، اور ان کے اثرات سرحدوں سے پار جا پہنچتے ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورت حال ’’ماحولیاتی تبدیلی سے لاحق شدید اور وجودی خطرے کی عکاسی کرتی ہے۔" ایواساوا کے مطابق ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور اپنی قومی ماحولیاتی حکمت عملیوں میں بلند ترین اہداف مقرر کریں۔
پیسیفک آئی لینڈز اسٹوڈنٹس فائٹنگ کلائمیٹ چینج کے ڈائریکٹر وشال پرساد، نے اس فیصلے کو بحر الکاہل کے عوام کے لیے ’’زندگی کی امید‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا،’’آج دنیا کے سب سے چھوٹے ممالک نے تاریخ رقم کی۔ آئی سی جے کا فیصلہ ہمیں اس دنیا کے قریب لے آیا ہے جہاں حکومتیں اب اپنی قانونی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑ سکتیں۔
‘‘اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی سابق سربراہ میری رابنسن نے اس فیصلے کو ’’انسانیت کے لیے ایک مؤثر قانونی ہتھیار‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا،'’’یہ بحرالکاہل اور دنیا کے نوجوانوں کی طرف سے عالمی برادری کے لیے ایک تحفہ ہے، ایک قانونی موڑ جو ہمیں زیادہ محفوظ اور منصفانہ مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔
‘‘ بین الاقوامی عدالت انصاف کی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہعدالت سے یہ رائے بحرالکاہل میں واقع جزائر پر مشتمل ملک وینوآتو نے مانگی تھی اور اس کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کرنے والے طلبہ کے ایک گروہ نے کام شروع کیا تھا جن کا تعلق بحر الکاہل میں جزائر پر مشتمل ممالک سے ہے۔
ان طلبہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے اور اس حوالے سے جزائر پر مشتمل چھوٹے ممالک کے لیے خاص طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وینوآتو کی جانب سے اقوام متحدہ کے دیگر رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں 29 مارچ 2023 کو جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں عدالت سے دو سوالات پر قانونی مشاورتی رائے دینے کو کہا گیا۔
پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ تحفظ ماحول یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت ممالک کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔
جبکہ دوسرے سوال میں عدالت سے رائے لی گئی ہے کہ اگر کسی ملک کے اقدامات سے ماحول کو نقصان پہنچے تو ان ذمہ داریوں کے تحت اس کے لیے کون سے قانونی نتائج ہو سکتے ہیں۔وانواتو کے وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی رالف ریگنوانو نے عدالت کے اس فیصلے کو ''ماحولیاتی اقدام کے لیے سنگ میل‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ آئی سی جے نے ماحولیاتی تبدیلی کو براہ راست انسانیت کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
‘‘عدالت نے گزشتہ دسمبر میں تقریباً 100 ممالک اور 12 بین الاقوامی اداروں کے بیانات سنے۔ انٹیگوا اور باربودا کے وزیر اعظم گاسٹن براؤن نے عدالت کو بتایا کہ ''بے لگام اخراج‘‘ کے باعث ان کے جزیرے کی سرزمین سمندر کی نذر ہو رہی ہے۔
اس دوران، امریکہ جیسے بڑے اخراج کرنے والے ممالک نے مؤقف اختیار کیا کہ 2015ء کا پیرس معاہدہ پہلے ہی ریاستوں پر ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کی قانونی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔
تاہم، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس تاریخی معاہدے سے علیحدہ کر دیا تھا۔ماحولیاتی قانون کی ماہر جوئے چودھری نے کہا،’’پیرس معاہدہ اہم ہے، لیکن یہ واحد قانونی طریقہ نہیں۔ مختلف قوانین کی ضرورت ہے کیونکہ مسئلہ وسیع ہے۔‘‘
’کھوکھلے وعدوں کے دور کا اختتام‘وانواتو نے عدالت سے یہ بھی وضاحت مانگی کہ اگر کوئی ملک اخراج کو روکنے کی ذمہ داری پوری نہ کرے تو اس کے قانونی نتائج کیا ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ، چین، روس اور یورپی یونین جیسے بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک، جو تاریخی طور پر سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر چکے ہیں، انہیں سب سے زیادہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
چودھری نے کہا، ’’اب تک کے اخراج سے کافی نقصان ہو چکا ہے اور اس کی تلافی ضروری ہے۔‘‘
غریب ممالک، جو ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات جھیل رہے ہیں، طویل عرصے سے امیر ممالک سے نقصانات کا ازالہ مانگتے رہے ہیں۔
عدالت نے انتباہ دیا کہ ’’عالمی درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی نقصان اور تباہی میں اضافہ کرے گا۔" اگر ریاستیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو متاثرہ ممالک قانونی چارہ جوئی کے ذریعے معاوضہ حاصل کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس میں ’’نقصان و تلافی فنڈ‘‘ قائم کیا گیا تھا، لیکن اب تک صرف 700 ملین ڈالر کے وعدے ہوئے ہیں، جبکہ ماہرین کے مطابق 2030 تک نقصانات سینکڑوں ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔
چودھری نے کہا،’’یہ معاملہ درحقیقت جواب دہی کا ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ خالی وعدوں کا دور ختم ہونا چاہیے۔‘‘
فیصلے کے ممکنہ اثراتآئی سی جے کا یہ مشاورتی فیصلہ ان تین فیصلوں میں سے ایک ہے جو حالیہ مہینوں میں ملکوں کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں جاری کیے گئے ہیں۔
اسی ماہ انٹر-امریکن کورٹ آف ہیومن رائٹس نے بھی ایک رائے دی کہ ممالک شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ماحول اور آب و ہوا کو محفوظ بنائیں۔
اگرچہ مشاورتی آراء ملکوں کے لیے قانونی طور پر لازمی نہیں ہوتیں، لیکن ان کی اخلاقی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دنیا بھر میں ماحولیاتی مقدمات کو تقویت دے سکتا ہے۔ اب تک 60 ممالک میں تقریباً 3,000 مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں۔
یہ آئی سی جی کے روبرو آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ ہے جس پر 91 ممالک نے تحریری بیانات داخل کیے اور 97 زبانی کارروائی کا حصہ ہیں۔
لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ ماہر جوانا سیٹزر نے کہا ’’یہ فیصلہ ایک اہم موڑ ہے۔ عدالت نے جو قانونی تشریح پیش کی ہے، وہ عالمی، قومی عدالتوں اور وکلا کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بنے گی۔‘‘
چودھری نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ نومبر میں برازیل میں ہونے والی ماحولیاتی مذاکرات پر بھی اثر ڈال سکتا ہے، کیونکہ اب کچھ معاملات پر قانونی وضاحت موجود ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ ایک واضح قانونی خاکہ دے گا جس کی مدد سے متاثرہ ممالک اور عوام آلودگی پھیلانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکیں گے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین
لوسیا شولٹن نے ہیگ، میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے رپورٹنگ میں تعاون کیا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ماحولیاتی تبدیلی انہوں نے مزید کہا ذمہ داریوں چودھری نے عدالت سے یہ فیصلہ سکتا ہے کے لیے
پڑھیں:
غزہ سے یوکرین تک تنازعات کے پرامن حل میں سفارتکاری کو موقع دیں، گوتیرش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کو قائم رکھیں، تقسیم کے بجائے سفارت کاری کی راہ پر چلیں اور تنازعات کا پرامن حل نکالنے کے عزم کی تجدید کریں۔
پاکستان کی صدارت میں سلامتی کونسل کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سفیروں سے کہا کہ جب کشیدگی بڑھتی ہے اور ممالک کے باہمی اعتماد کو گزند پہنچتی ہے تو بات چیت، ثالثی اور مفاہمت ہی مسائل کے حل کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
آج ان ذرائع کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جب غزہ سے یوکرین تک دنیا میں بہت سی جگہوں پر مسلح تنازعات جاری ہیں اور بین الاقوامی قانون کو بلاخوف و خطر پامال کیا جا رہا ہے۔سلامتی کونسل کے اس اہم اجلاس کی صدارت پاکستان کے وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے کی۔
(جاری ہے)
اس کا مقصد تنازعات کے تصفیے کے لیے موجودہ طریقہ ہائے کار کی افادیت کا اندازہ لگانا، اس حوالے سے بہترین اقدامات کا جائزہ لینا اور طویل جنگوں کو روکنے کے لیے نئی حکمت عملی کو کھوجنا تھا۔
اجلاس میں علاقائی تنظیموں کے ساتھ تعاون کو بڑھانے، قیام امن کے لیے رکن ممالک کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے، وسائل جمع کرنے اور مستقبل میں تنازعات کو روکنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو میثاقِ مستقبل میں بیان کردہ حکمت عملی سے ہم آہنگ کرنے پر بھی بات چیت ہوئی۔
عالمی قانون کے احترام کا مطالبہسیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں مسلح تنازعات جاری ہیں جن میں بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا جا رہا ہے جبکہ بھوک اور نقل مکانی ریکارڈ سطح کو چھو رہی ہے۔
دہشت گردی، متشدد انتہاپسندی اور بین الاقوامی جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث سلامتی ناقابل رسائی ہوتی جا رہی ہے۔اس صورتحال کی قیمت انسانی زندگیوں، تباہ حال معاشروں اور گمشدہ مستقبل کی صورت میں چکانا پڑتی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے غزہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جتنی موت اور تباہی دیکھنے کو ملی ہے اس کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نظر نہیں آتی۔
غزہ میں قحط پھیلنے کا خطرہ ہے جہاں محفوظ طور سے امدادی کارروائیوں کی گنجائش نہیں رہی۔ اقوام متحدہ کے مراکز پر حملے ہو رہے ہیں اور متحارب فریقین کو ان جگہوں کے بارے میں پیشگی مطلع کرنے کے باوجود انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔یہ جگہیں قابل احترام ہیں اور بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت انہیں تحفظ دینا ضروری ہے۔
انتونیو گوتیرش نے کہا کہ امن کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اور دنیا سلامتی کونسل سے توقع رکھتی ہے کہ وہ رکن ممالک کو اس انتخاب میں مدد فراہم کرے گی۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 2.3 کے مطابق تمام ممالک اپنے بین الاقوامی تنازعات پرامن طریقوں سے حل کریں گے۔ علاوہ ازیں، چارٹر کے چھٹے باب میں سلامتی کونسل کو رکن ممالک کے مابین بات چیت، تحقیقات، ثالثی، مفاہمتی اور عدالتی تصفیے کا اختیار دیا گیا ہے۔
گزشتہ سال منظور کیے جانے والے میثاقِ مستقبل کے 16ویں نکتے میں رکن ممالک سے تنازعات کو شروع ہونے سے پہلے ہی سلجھانے کے لیے سفارت کاری کے عزم کی تجدید کے لیے کہا گیا ہے۔
سیکرٹری جنرل نے رواں ماہ سلامتی کونسل کے صدر پاکستان کو سراہا جس نے ان ذرائع سے بھرپور کام لینے کی قرارداد پیش کی جسے اس اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
ثالثی کی دائمی افادیتانتونیو گوتیرش نے کہا کہ سلامتی کونسل کے ارکان، بالخصوص مستقل ارکان کو اپنے اختلافات دور کرنا ہوں گے۔ سرد جنگ کے دوران بھی کونسل نے امن کاری اور انسانی امداد کی رسائی کے حوالے سے غیرمعمولی فیصلے کیے اور تیسری عالمی جنگ کو روکنے میں مدد دی۔
انہوں نے رکن ممالک سے کہا کہ وہ بات چیت کے ذرائع کھلے رکھیں، اتفاق رائے پیدا کریں اور کونسل کو ایسا ادارہ بنائیں جو دور حاضر کے جغرافیائی سیاسی حقائق سے مطابقت رکھتا ہو۔ علاقائی اور ذیلی علاقائی تنظیموں کے مابین مضبوط تعاون بھی وقت کا تقاضا ہے۔ ثالثی دوران جنگ بھی کارآمد ہوتی ہے اور دو سال قبل روس، یوکرین اور ترکیہ کے مابین بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کا معاہدہ اس کی نمایاں مثال ہے جس میں اقوام متحدہ بھی ثالث تھا۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ رکن ممالک کو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی انسانی حقوق، پناہ گزینوں کے قانون اور خودمختاری، علاقائی سالمیت اور سیاسی آزادی کے اصولوں کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہو گا۔