اظہار رائے کی آزادی سلب کر کے بھارت اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا، عزیر احمد غزالی
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
پاسبان حریت کے رہنما کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ بھارتی غاصب پولیس کی جانب سے آزادی، حق خودارادیت اور انصاف کے حق میں سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے کی پاداش میں نوجوانوں کو گرفتار کرنا آزادی اظہارِ رائے پر پابندی کی بدترین مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ سرینگر میں بھارتی غاصب انتظامیہ کی جانب سے 8 کشمیری نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر بھارتی جبر و اسبتداد سے آزادی کے حق میں پوسٹ کرنے پر گرفتار کرنا فسطائیت کی بدترین مثال ہے۔ ایک بیان میں چیئرمین پاسبان حریت عزیر احمد غزالی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کے شہر خاص سرینگر میں 8 نوجوانوں کو بھارتی غاصب پولیس کی جانب سے آزادی، حق خودارادیت اور انصاف کے حق میں سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے کی پاداش میں گرفتار کرنا آزادی اظہارِ رائے پر پابندی کی بدترین مثال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گرفتار کئے گئے نوجوانوں میں سرینگر کے رہائشی ابرار مشتاق، ذوہیب ظہور، فرہاد رسول جبکہ ضلع کولگام کے رہائشی سجاد احمد لون کے علاوہ چار نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سفاک حکومت مقبوضہ جموں کشمیر میں بے گناہ کشمیری شہریوں کو ظلم و استہزاء کا شکار بنانے کیلئے ان کے خلاف سازشی اقدامات کا جواز پیش کرنے کیلئے اکثر انہیں حریت پسند تنظیموں کا کارکن قرار دیتی ہے۔ جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر کا ایک ایک شہری بھارتی جبر سے آزادی کا خواہاں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے دہشت پسندانہ اقدامات سے کشمیریوں کی حق پر مبنی مزاحمت آزادی کو نہ تو دبایا جا سکتا اور نہ ہی سوشل میڈیا صارفین کی اظہار رائے کی آزادی سلب کر کے بھارت اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔ انہون نے مقبوضہ کشمیر میں دس لاکھ بھارتی فوجیوں کے دباؤ اور جماؤ اور کالے قوانین کے بدترین استعمال کو کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکہ قرار دیتے ہوئے اسے فسطائیت کی بدترین صورتحال قرار دیا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی کریک ڈاؤن کیخلاف آواز اٹھائیں اور بھارتی جیلوں، اذیت خانوں، ٹارچر سیلوں اور فوجی کیمپوں میں گرفتار رکھے گئے کشمیری شہریوں کی رہائی کے لیے کردار ادا کریں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا کی بدترین
پڑھیں:
نئی دلی، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ
اجلاس میں کشمیری رہنماﺅں فاروق عبداللہ، محمد یوسف تاریگامی اور آغا روح اللہ مہدی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کا انعقاد ”فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر“ نے کیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی اور کشمیری سیاسی رہنمائوں، کارکنوں اور سابق بیوروکریٹس نے بھارتی دارالحکومت نئی دلی میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا جس میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کا انعقاد ”فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر“ نے کیا تھا۔ یہ اجلاس بھارتی پارلیمنٹ کے جاری مانسوں اجلاس کے موقع پر منعقد کیا گیا تاکہ ریاستی اور خصوصی حیثیت کی بحالی کے مطالبے کو پارلیمنٹ تک پہنچایا جا سکے۔سابق بھارتی مصالحت کار رادھا کمار نے اجلاس کے دوران کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد لائی جائے۔ اجلاس میں کشمیری رہنماﺅں فاروق عبداللہ، محمد یوسف تاریگامی اور آغا روح اللہ مہدی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔
سابق داخلہ سکریٹری Gopal Pillai سمیت 122 سابق سرکاری افسران کی دستخط شدہ ایک عرضداشت بھی بھارتی ارکان پارلیمنٹ کو پیش کی گئی جس میں ان پر ریاستی حیثیت کی بحالی کیلئے ایوان میں قرارداد لانے پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں کانگریس اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے کچھ ارکان پارلیمنٹ بھی شریک تھے۔ فاروق عبداللہ نے اس موقع پر کہا کہ ہم یہاں بھیک مانگنے کے لیے نہیں آئے ہیں، ریاستی درجہ ہمارا آئینی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2019ء کا فیصلہ غیر قانونی تھا جسے واپس لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی حیثیت کی منسوخی سے قبل جموں و کشمیر کے منتخب نمائندوں کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی۔
آغا روح اللہ مہدی نے کہا کہ جموں و کشمیر کو مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ کشمیر آج بھی درد و تکلیف کا شکار ہے، کشمیریوں کو ان گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے جو انہوں نے کبھی نہیں کیے۔ کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) کے سجاد کرگیلی نے کہا کہ لداخ کو دھوکہ دیا گیا ہے اور حق رائے دہی سے محروم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کو تبدیل کیا جانا چاہیے، ہماری زمین خطرے میں ہے۔