Daily Ausaf:
2025-06-09@21:01:14 GMT

ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

ان دنوں ایک بار پھر وطن عزیز دہشت گردی کا شکار ہے۔ جس کے باعث ہمارے دو صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا بری طرح سے متاثر ہیں خاص کر بلوچستان کے حالت کافی زیادہ خراب ہیں۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے قومی سلامتی کا اجلاس بھی طلب کیا تھا اور اس میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کئی سخت فیصلہ بھی کیے گئے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان فیصلوں پر کب تک اور کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے اور اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس دہشت گردی کی لہر میں ملوث ہونے کے امکانات میں بھارت کے ساتھ افغانستان کو بھی قرار دیا جارہا ہے اور افغان حکومت کے ترجمان نے اس بات کی تردید کردی ہے کہ ان پر بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں اور اس ہی طرح بھارت بھی انکاری ہے پر اگر ہم ماضی میں جاکر دیکھیں تو ہمیں یہ شواہد ملتے ہیں کہ جب جب بھی بلوچستان میں حالت خراب ہوتے ہیں اس میں بھارت ہی ملوث نظر آرہا ہوتا ہے اور اکثر بیرون ملک بیٹھے بلوچ رہنما بھی بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کا کھل کر اظہار کرچکے تھے۔ اس دہشت گردی کی نئی لہر میں جہاں عوام کا کافی جانی و مالی نقصان ہوا اس سے کہیں زیادہ نقصان ہماری فوج کا ہوا ہے جس کا نہایت قیمتی سرمایہ فوجی نواجوں کی شکل میں جس کی جتنی بھی مزاحمت کی جائے کم ہے۔ دوسری جانب خیبرپختون خوا میں بھی دہشت گردوں نے اپنے پر پھلائے ہوئے اور اس کی لپیٹ میں اب کراچی بھی آتا جارہا ہے۔
کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں اگر ہم سولہ سو سال قبل کی اسلامی تاریخ پڑھتے ہیں تو ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں رمضان المبارک کا ماہ نہایت احترام کا سمجھا جاتا تھا اس میں جنگ و جدل اور خون خرابے سے اجتناب برتا جاتا تھا پر ہم آج کے جدید ترین دور میں زندگی کا سفر کررہے ہیں اور ہم تو اب زمانہ جاہلیت کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں، اب ہمیں کسی اسلامی ماہ کی حرمت اور احترام کا لحاظ تک نہیں رہا ہے اور یہ سب کس وجہ سے ہورہا ہے ان عوامل پر کوئی بھی توجہ نہیں دے پارہا ہے۔ حکمرانوں کو اپنی ہی پڑی ہے، ان کے اپنے مفادات ہے جس کے حصول کے لیے وہ تندہی سے کوشاں نظر آرہے ہوتے ہیں ان کو ملک اور عوامی مسائل سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا سوائے بیان بازی کے۔ ایک تعزیتی بیان دے دیا، دہشت گردی کے واقعہ کی مزاحمت کردی ’’اللہ اللہ خیر سلا‘‘ سلامتی کونسل کا اجلاس ہوگیا اور حکومت کا فرض پورا ہوگیا۔ ان عوامل پر کوئی بھی ذمہ دار ادارہ نہیں سوچتا کہ وطن عزیز میں اس طرح کے واقعات کیوں ہوتے ہیں کہ حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ عوام اپنے حقوق کے حصول کے لیے متشدد ہوکر اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہوکر اپنے نقصان کی پروا کیے بغیر عوام کا جانی و مالی نقصان کر بیٹھتے ہیں جس کا ازالہ کسی بھی طرح ممکن نہیں ہو پاتا۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ پوری سنجیدگی کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے غور و فکر کرکے ان علاقوں کی محرمیوں کو درو کرنا چاہیے جس کی وجہ سے وہاں کی عوام بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور ہماری سیکورٹی ایجنسیاں کو علم بھی نہیں ہو پاتا کہ ان کی ناک کے نیچے کیا کیا کارروائیاں عمل میں لائی جارہی ہیں۔ اگر حکومت پوری سنیجدگی کے ساتھ ان علاقوں کو وہ تمام وسائل اور ان کا حق ادا کردیں تو کبھی بھی اس طرح کے واقعات پیش نہ آئیں۔ انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا میں کوئی آر نہیں کہ ان علاقوں کے قدرتی وسائل سے اب تک آنے والے حکمرانوں نے بھرپور فوائد حاصل کیے اور اب تک کررہے ہیں پر ان علاقوں کے رہائش پذیر عوام کو ان کے جائز حق سے پوری طرح محروم بھی رکھا ہے تب ہی وطن عزیز پر بری نظر رکھنے والے پوری طرح سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ان علاقوں کے میں رہائش پذیز ملکی بھائیوں کو بھٹکا کر اپنے مفادات حاصل کررہے ہیں اور ہم اپنے ہی بھائیوں کو دہشت گرد بنتے دیکھ رہے ہیں اور بے بسی سے ان کو تباہ و برباد ہوتے دیکھ کر کچھ بھی نہیں کر پارہے کیونکہ یہ بات وطن عزیز کے ہر باشندہ کے علم میں ہے کہ وہاں کے وسائل پر کون قابض ہے اور کون بھرپور فائدے حاصل کررہا ہے اور کون محروم ہے پر وہی بات ہے کہ ’’نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے‘‘ ان تمام مسائل پر کئی بار بحث و مباحث ہوچکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کئی سیمنار اور کانفرنسیں بھی منعقد کی جاچکی ہیں جس کا کوئی حاصل وصول نہیں ہوا۔ اب بھی وہاں کی عوام بنادی حقوق سے محروم نظر آرہے ہیں۔ اگر اب بھی حکمران اور ان کو لانے والوں نے سنجیدگی کے ساتھ نہیں سوچا یا عمل کیا تو اللہ نے کرے کہیں ایک بار پھر سے دشمن اپنے داؤ یا اپنی چال میں کامیاب ہو جائے اور وطن عزیز ایک اور عظیم نقصان سے دوچار ہو جائے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دہشت گردی کے ان علاقوں ہیں اور کے ساتھ اور اس کے لیے ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔

ٹالسٹائی کا خیال تھا کہ گذشتہ دو صدیوں کے اندر اخلاقی ترقی ہوئی ہے لیکن حکومتیں بری طرح سے غیر اخلاقی ثابت ہوئی ہیں چنانچہ اس کے نزدیک دنیا کے مظلوم عوام کے مسائل کا واحد حل یہ ہی ہے کہ ان کے اندر وہ اخلاقی جرأ ت پیدا ہوجائے جس سے وہ ظالموں کے استحصال کا عدم تشدد کے ذریعے مقابلہ کرسکیں ۔ وہ کہتا ہے ” یہ دنیا نہ ہنسی مذاق کی جگہ ہے اور نہ دارو رسن کی وادی ہے اور نہ ہی کسی ابدی دنیا کا پیش خیمہ ہے ہماری دنیا خود ایک ابدی حقیقت ہے یہ دنیا خوبصورت اور دلکش ہے ہمیں اسے زیادہ حسین و دلفریب بنانا چاہیے ان لوگوں کے لیے جو ہمارے ساتھ زندہ ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو ہمارے بعد زندہ رہیں گے”۔ ستمبر 1860 میں ایک انگلستان کے عظیم ناول نگار چالس ڈکنس نے یکایک فیصلہ کیا کہ اسے اپنے ماضی سے تمام رشتے منقطع کر لینا چاہیے اور پھر اس نے اپنے بچوں کی موجودگی میں سارے خطوط اور دوسرے کاغذات نذر آتش کر دیئے ۔ ڈکنس کو ”زمانہ ” کی اہمیت کا غیر معمولی احساس تھا۔ زندگی کی جدوجہد میں انسانی فطرت کے جو نمونے ڈکنس نے پیش کیے ہیں وہ شیکسپیئر کے علاوہ کسی دوسرے انگریزادیب کے یہاں مفقود ہیں۔اس نے انسانی زندگی کے تمام اہم پہلوئوں پر غور وفکر کیا۔ اس کاناول Great Expectationایسے افراد کی داستا ن ہے جنہوں نے خود کو سماج اور روز مرہ زندگی سے قطع تعلق کرکے اپنی زندگی عذاب بنا رکھی ہے ۔ Miss Havishamاپنی نامرادیوں اور محرومیوں کا بدلہ سماج سے لینا چاہتی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خو دتنہا رہ جاتی ہے اور ایذا رسانی اس کی فطرت بن جاتی ہے ڈکنس کے زمانے میں قدیم روایتی قدریں تیزی سے ختم ہورہی تھیں اور لوگ نہ صرف قدیم بستیوں سے اجڑنے لگے تھے بلکہ صنعتی انقلاب اور مشینی تہذیب کے طفیل مرد، عورت اور بچے ”غیر انسان ” ہوتے جارہے تھے اس ماحول میں انسان محض ”چیز ” بنتا جارہا تھا ۔ اس ناول میں کردار وں کی اہم خصو صیت یہ ہے کہ وہ اس عجیب و غریب دنیا میں جینے پر مجبور ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے بلکہ خود کلامی کے سہارے زندہ رہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سماجی حالات نے ان کی آواز چھین لی ہے پریشان حال اور پر ا گندہ خیال انسان اپنی چھوٹی سی دنیا الگ بسائے ہوئے ہیں مکانات اپنے اپنے طور بنتے اور گرتے رہتے ہیں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔
ڈکنس اپنے سماج کے گہرے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ” انسان کے درمیان جنگ زرگری ہی ساری تباہی کی جڑ ہے زرپرستی اور زر کی ہوس نے اگر سماج کے بالا ئی طبقے کو دولت او ر فراغت بخشی ہے تو دوسری جانب غربا کے لیے گھٹن ، تنہائی اور پریشانی کا سامان فراہم کیا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ دولت جمع کرنے کی جدوجہد میں اہل زر بھی محفوظ نہیں رہتے اور خود ان کی زندگی بھی عذاب ہوکر رہ جاتی ہے ۔ شیکسپیئر اپنے ڈرامے King Learمیں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اور اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا ۔ سارتر کہتا ہے زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے جبکہ کیرک گرد کہتا تھا ” میں کبھی بھی بچہ نہیں تھا میں کبھی بھی جوان نہیں ہوا میں کبھی بھی زندہ نہیں رہا میں کبھی بھی کسی انسان سے محبت نہیں کر سکا زندگی کس قدر کھوکھلی اور لغوہے کوئی کسی کو دفن کرتاہے کوئی میت کے ساتھ جاتا ہے کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکتا ہے آخر ستر برس کی عمر کب تک ساتھ دے گی کیوں نہ اس زندگی کا فوری طورپر خاتمہ کردیاجائے کیوں نہ آدمی قبرستان میں ڈیرے ڈال دے کیوں نہ قبر میں گھس جائے ”۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95 فیصد انسانوں کے یہ ہی احساسات و جذبات ہیں کہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95فیصد انسانوں کی یہ ہی سو چ ہے کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ آج ہم Great Expectationکے کردار نہیں بن کے رہ گئے ہیں کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ آج 95 فیصد پاکستانی سارتر کی بات سے متفق ہیں کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے آج چند سو کو چھوڑ کر کوئی ایک پاکستانی دکھا دو جو دل سے ہنستا ہو جسے کوئی غم نہ ہو کوئی فکر یا پریشانی نہ ہو ۔ جو چین سے سو تا ہے جو پیٹ بھر کے روٹی کھا تا ہو ۔ خدا کے واسطے کسی ایک شخص کا پتہ بتادو جوروز اپنی قبر نہ کھو دتا ہو جس کے اندر ننگی چیخیں نہ چیختی ہوں جو روز نہ مرتا ہو اور روز نہ جیتا ہو ۔ اس وقت اپنے آپ کو پیٹنے کا دل چاہتا ہے ماتم کرنے کا جی کرتا ہے ۔ جب امیرو کبیر ، محلوں او ر اونچے اونچے تختوں پر بیٹھے موٹے موٹے پیٹ والے یہ بکوا س کرتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے ملک سے غربت کا خاتمہ ہورہا ہے خو شحالی آرہی ہے ، مہنگائی کم ہورہی ہے لوگوں کا سکون لوٹ رہا ہے ارے کوئی ان اندھوں ، بہروں اور کانوں کو ملک کی گندی اورغلاظت سے بھری بستیاں دکھا دے ۔ خون تھوکتے انسان دکھا دے اپنے آپ کو پیٹتی بہنوں ، اور بیٹیوں کو دکھا دے بھوکے سوتے بچوں کو دکھا دے۔ تڑپتی بلکتی سسکتی مائوں کو دکھا دے ۔ خدارا کوئی تو اٹھے جوان اندھوں، بہروں اور کانوں کو ملک کی بستیوں میں لے جائے ۔ جہاں انسان تڑپ اور بلک رہے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امیروں ، بااختیاروں ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور حکمرانوں تم ہم 95 فیصد انسانوں سے بالکل الگ ہوتم اور ہم کیسے ایک ہوسکتے ہیں جب کہ تم ہمارے غموں ، دکھوں اور تکلیفوں کو محسوس ہی نہیں کرسکتے تم تمہارے جیسے کیسے ہوسکتے ہو۔ تم ہمارے اپنے کیسے ہوسکتے ہو ۔ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ غربت ، افلاس کس بلاکا نام ہیں فاقوں کی تکلیف کیسی ہوتی ہے۔ بیروزگاری کا غم جسم کو کیسے کاٹتا ہے ۔ اپنے جسم سے نکلنے والا خون دیکھ کر کیسے دل تڑپتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں اور امیدوں کے قتل عام پر کیسے دل روتا ہے ۔ نہیں بالکل نہیں تم اور ہم الگ الگ ہیں اس لیے یہ ڈھکو سلے بازی بند کرو یہ ڈرامہ بازی اب نہیں چلے گی یہ منافقت اب ناقابل برداشت ہوچکی ہے کیونکہ تمہارا پاکستان الگ ہے اور ہمارا پاکستان الگ ہے ۔ تمہارے خون کارنگ الگ ہے اورہمارے خون کا رنگ الگ ہے تمہارے جسم الگ ہیں اور ہمارے جسم الگ ہیں ہمارے سارے المیوں ، ساری ذلالتوں ، سارے غموں اور دکھوں کے تم ہی ذمہ دار ہو۔ ہم صرف تمہاری ہی وجہ سے چیزیں بن کے رہ گئے ہیں ۔جب سکندر اعظم 325قبل از مسیح میں شمالی مغربی ہندوستان میں گھو ما تو اس نے پنجاب میں اور اس کے آس پاس مقامی باشندوں کے ساتھ ساری لڑائیاں جیت لیں لیکن وہ اس قابل نہ ہوسکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جو ش و خروش پیدا کرسکے کہ و ہ طاقتور شاہی نند ا خاندان پر حملہ کرسکیں ۔ جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا ، ( جو اب پٹنہ کہلا تا ہے ) اور جو ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا تاہم سکندر اعظم خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیا ر نہیں تھا ایک روز پر جو ش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے جین فلسفیوں کے ایک گروہ سے پو چھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں اس سوال کا جواب اس نے یہ پایا ”بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے ہی حصے کا مالک ہوسکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو سوائے اس کے آپ ہر وقت مصروف رہتے ہو اور کسی اچھائی کے لیے نہیں ۔ اپنے گھر سے اتنے میل ہامیل دور سفر کررہے ہو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو، آپ جلد ہی مر جائو گے اور تب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہوگے جو آپ کو اپنے اندر چھپا نے کے لیے کافی ہوگی ”۔ میر ے ملک کے امیروں ، بااختیاروں ، طاقتوروں ، حکمرانوںیہ ہی بات تمہارے سو چنے کی بھی ہے کہ تم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے پر یشانی کا باعث ہو۔ آج نہیںتو کل تمہیں مر ہی جانا ہے اور اس وقت تم صرف اتنی ہی زمین کے مالک ہوگے جو تمہیں اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی ۔ باقی تمہاری ساری دولت ساری چیزوں کے مزے دوسرے لے رہے ہونگے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت غیر جانبدارانہ تحقیقات اور ٹرمپ کی مصالحت سے انکاری ہے، بلاول بھٹو
  • بھارت کی جانب سے پانی روکنا ایٹمی آبی دہشت گردی، یہ بات جذبات میں نہیں کہہ رہے، بلاول بھٹو
  • امریکا میں بھارتی سفارت خانے کے سامنے سکھوں اور کشمیریوں کا احتجاجی مظاہرہ
  • امدادی کشتی پر اسرائیلی حملہ دہشت گردی ہے، اقوام متحدہ اور امریکی مسلم تنظیم کا شدید ردعمل 
  • امدادی کشتی پر اسرائیلی حملہ دہشت گردی ہے، اقوام متحدہ اور امریکی مسلم تنظیم کا شدید ردعمل
  • علی ظفر کی بے دردی سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل
  • وزیراعظم کا ایرانی صدر سے ٹیلیفونک رابطہ، اہم امور پر تبادلہ خیال
  • پاکستان مصر کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری میں دوطرفہ تعاون کو بڑھانے کا خواہاں ہے، وزیراعظم
  • یورپی حکام بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی سے روکیں، علی رضا سید
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟