Daily Ausaf:
2025-07-04@17:45:18 GMT

ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
ابھی جعفر ایکسپریس زخم تازہ تھے کہ خبیرپختون خوا میں مساجد پر بم دھماکہ شروع ہوگئے جس کے نتیجے میں کئی جید علماء کرام سمیت کئی قیمتی جانی نقصان بھی سامنے آیا اور اس کے ساتھ ہی کراچی سمیت وطن عزیز کے کئی شہروں میں بھی علماء پر حملے ہوئے جس میں کچھ علماء محفوظ رہے اور کچھ شہید ہوگئے اور ملک بھر میں سیکورٹی ہائی الرٹ کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ عید الفطر جیسے جیسے قریب آرہی ہے ویسے ویسے سیکورٹی کے حوالے سے خدشات بڑھتے جارہے ہیں بس دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھیں آمین۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جب بھی کوئی سنگین حادثہ ہوتا ہے اس پر فوراً سیاست شروع کردی جاتی ہے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دہشت گردی کے واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی باتیں بھی باعث حیرت ہیں کیونکہ یہ فرقہ وارانہ ایشو ہوہی نہیں سکتا جبکہ دہشت گرد کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی دین ہوتا ہے اور وہ تو خود بھی تباہی کا حصہ بن جاتا ہے، اس کا اپنا نام ونشان مٹ جاتا ہے اس لیے اس مسئلے کو مذہبی رنگ دینا درست نہیں۔ ایسے واقعات کے بعد انتظامیہ جائے واردات سے شواہد اکٹھا کرکے واردات کا سراغ لگانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اصل مسئلہ اس کی جڑ تک پہنچنے کا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ پتہ چلایا جائے کہ اس دہشت گردی کے پیچھے کس کس کا ہاتھ ہے، یہ کون لوگ ہیں جو وطن عزیز کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی دہشت گرد بغیر بیرونی مدد کے کارروائی نہیں کرسکتا۔ وہ کہیں تو رہتا ہوگا، اس کے ساتھی بھی ہوں گے اس لیے سب سے اہم پہلو ان کے نیٹ ورک تک پہنچنا کر اس کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ حکومت نے نائن الیون کے بعد اس سلسلے میں کافی تیزی کے ساتھ کام کیا تھے اور ملک سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑ بھی دیے تھے لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ ابھی تک ملک مکمل طور پر دہشت گردوں سے پاک نہیں ہوا اس لیے حکومتی اداروں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے نیٹ ورک کو مزید مربوط کریں تاکہ اس طرح کے واقعات سے محفوظ رہا جاسکے۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پوری قوم کو اس میں شریک ہونا پڑے گا۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے اندرونی طور پر بحیثیت ایک قوم بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ قومی یکجہتی کو قائم کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان حادثات کو مذہبی، بنیاد پرستی، لسانی یا نسل پرستی کا رنگ دینا بھی درست عمل نہیں ہے۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ہم مسئلے کے حل سے دور ہوتے چلے جائیں گے اور ہمارا دشمن بھی یہی چاہتا ہے۔ وطن عزیز اس وقت امریکہ، بھارت اور اسرائیل اتحاد کا بھی ہدف ہے۔ پڑوسی ملک افغانستان کی حکومت بھی گاہے بگاہے پاکستان پر الزام تراشی کرتی نظر آرہی ہوتی ہوئی ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے افغانستان پر مسلح کارروائیاں کی جاتی ہیں اور اس ہی طرح پاکستان کی طرف سے بھی افغان حکومت پر دباؤ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے چین وایران کے تعلقات کو خراب کرنے کی بھی کوشش ہے۔ پاکستان دشمن طاقتیں یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ پاکستان ایک غیر محفوظ ملک ہے تاکہ سرمایہ کاری کے تمام معاملات کو روکا جاسکے اور امریکہ کو یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان دہشت گردوں سے محفوظ جگہ نہیں ہے۔ پاکستان کا کھل کر امریکہ کا ساتھ دینا اور قبائلی علاقوں میں آپریشن کا موجودہ امن وامان کی ابتری سے گہرا تعلق ہے، حالیہ دہشت گردی کے چند واقعات کے مجرم اگر پکڑے جاتے اور انہیں سزا دی جاتی تو اس اندوہناک حادثے سے بچا جاسکتا تھا۔ اب جس شدت سے ملک بھر کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وطن عزیز کے کسی بھی صوبے میں کچھ ہوتا ہے تو اس کے اثرات پورے ملک پر پڑتے ہیں۔ ہر حادثے کے بعد افراتفری کا پیدا ہو جانا ایک فطری عمل ہے، عوام مشتعل ہو جاتے ہیں، جذبات بھڑک اٹھتے ہیں، آگ اور خون دیکھ کر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے، یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن عوام کو ایسے مواقع پر اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہیے۔
آخر میں یہ عرض کرنا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات اور خودکش بم حملوں کو روکنا مشکل کام ہے لیکن اتنا بھی مشکل نہیں کہ اس پر قابو نہ پایا جاسکے۔ جب حکومت کو اتنا پتہ چل جاتا ہے کہ دہشت گرد ملک میں داخل ہوگئے ہیں تو پھر ان کو پکڑنے میں کیوں ناکامی رہتے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ حکومت ہر شخص کی جان ومال اور اس کی آزادی کا پور اتحفظ کرے گی۔ ملک کے جس حصے میں بھی دہشت گردی ہو رہی ہے، حکومت کو چاہیے کہ اس کا جلد از جلد خاتمہ کرے اور اگر ہمیں ملکی مفاد میں اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرنی پڑے تو ایسا کرنے میں بھی دیر نہیں کرنی چاہیے تاکہ ملک بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ آسانی سے کیا جاسکے اور اس کے لیے حکمران سمیت تمام سرکاری اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی سنیجدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ تاکہ ہر قسم کی محرومیوں کا ازالہ کرکے وہاں کی عوام کو ہر ممکن سہولیات دی جائیں تاکہ وہاں کی عوام پرسکون انداز میں اپنے زندگی گزار بسر کرسکیں اور ملک بھر میں امن و امان کا دور دورا ہو پائے۔
ہم اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ وہ مہربان رب اپنا خاص فضل وکرم عطا فرمائیں، ہمیں نیک اور ایمان دار حکمران عطا فرمائیں، ہمیں اپنے سے محبت کرنا والا اور اس کی عزت و تکریم کرنے والا بنا دیں تاکہ ہم اپنے وطن کی محافظ بن کر اس کے مفادات کی حفاظت کر پائیں اور اس کو ترقی کے جانب گامزن کر پائیں آمین۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دہشت گردی کے کے واقعات ضرورت ہے جاتا ہے کہ دہشت کے ساتھ ملک بھر ہوتا ہے کرنے کی اور اس ہے اور

پڑھیں:

عالمی برادری دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان سے تعاون کرے، بلاول بھٹو زرداری

اسلام آباد میں عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور کوئی سرحد نہیں ہوتی، بھارت الزام تراشی کے بجائے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے عالمی کوششوں کا حصہ بنے، بھارتی قیادت خطے کے امن کیلئے مذاکرات کی میز پر آئے، کشمیر جیسے تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت ضروری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کیخلاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے، عالمی برادری دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان سے تعاون کرے۔ "دنیا کیلئے پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ" کے عنوان پر عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے، پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کیخلاف پورے عزم کے ساتھ برسرپیکار ہے، ہم نے اپنی آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کیلئے دہشت گردی کو شکست دینی ہے، ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشنز نے دہشت گردوں کی کمر توڑی۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کیخلاف ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے، پاکستان ہرگز دہشتگردوں کے سامنے نہیں جھکے گا، سرنڈر کرنا پاکستان کی ڈکشنری میں شامل نہیں، ڈیجیٹل پروپیگنڈا عصر حاضر کا ایک اور پیچیدہ چیلنج ہے، 2 دہائیوں سے مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مؤثر کردار ادا کیا، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 92 ہزار افراد کو سپردخاک کیا۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا ہے کہ افغانستان سے کہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے، طالبان حکومت آنے کے بعد افغان سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے حملوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت دوحہ معاہدے میں کئے گئے وعدوں کی پاسداری کرے، پاکستان دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ دنیا کے امن کیلئے لڑ رہا ہے، عالمی برادری دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان سے تعاون کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 65 فیصد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے، نوجوانوں کو روزگار اور ترقی کے مواقع فراہم کر رہے ہیں، نوجوانوں کو فائر وال کے بجائے تیز رفتار انٹرنیٹ دینے کی ضرورت ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور کوئی سرحد نہیں ہوتی، بھارت الزام تراشی کے بجائے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے عالمی کوششوں کا حصہ بنے، بھارتی قیادت خطے کے امن کیلئے مذاکرات کی میز پر آئے، کشمیر جیسے تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت ضروری ہے۔ سابق وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ بھارتی قیادت ہمارے ساتھ بیٹھے، بات کرے اور مسئلہ کشمیر حل کرے، بھارت پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی روش ترک کرے، بھارت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی صلاحیتوں سے سیکھے۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی کا ناسور
  • سرنڈر کرنا پاکستان کی ڈکشنری میں نہیں، بھارت مذاکرات کرے(بلاول بھٹو)
  • پاکستان دہشتگردی کیخلاف جنگ دنیا میں امن کیلئے لڑ رہا ہے، سرنڈر کرنا ہماری ڈکشنری میں نہیں: بلاول
  • بھارتی خفیہ ایجنسی کیلئے کام کرنے والے دہشت گردوں کو جیل بھیج دیا گیا
  •  طالبان حکومت کی وعدہ خلافی عدم استحکام کا باعث ہے، سرنڈر کرنا پاکستانی ڈکشنری میں شامل نہیں، بلاول
  • سرنڈر کرنا پاکستان کی ڈکشنری میں نہیں، بھارت امن کیلئے مذاکرات کرے: بلاول بھٹو
  • سرنڈر کرنا پاکستان کی ڈکشنری میں شامل نہیں,دہشتگردوں کی کمر توڑ دی: بلاول بھٹو  
  • پاکستان کی ڈکشنری میں سرینڈر کرنا شامل نہیں: بلاول بھٹو زرداری
  • عالمی برادری دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان سے تعاون کرے، بلاول بھٹو زرداری
  • جون میں دہشت گردی کے 78 واقعات ‘ 53 جوانوں سمیت 94 افراد شہید ہوئے