بانی تحریک انصاف کا دور سیاہ ترین تھا، ملک احمد خان
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
سپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عوام کی خدمت کے لیے دن رات محنت کررہی ہیں، وعدہ ہے ایک ایک یونین کونسل کو ماڈل بنائیں گے، ہر یونین کونسل کو بااختیار بنائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے کہا ہے کہ بانی تحریک انصاف کا دور سیاہ ترین دور تھا۔ اپنے آبائی حلقے میں تقریب سےخطاب کرتے ہوئے ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ ستھرا پنجاب کی ٹیم دن رات محنت کررہی ہے، قصبہ کھڈیاں میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہروں کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، بانی تحریک انصاف کا دور سیاہ ترین دور تھا۔
 
 سپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عوام کی خدمت کے لیے دن رات محنت کررہی ہیں، وعدہ ہے ایک ایک یونین کونسل کو ماڈل بنائیں گے، ہر یونین کونسل کو بااختیار بنائیں گے۔ ملک احمد خان نے مزید کہا کہ ہر یونین کونسل میں ستھرا پنجاب کنونشن کریں گے، قصبہ جات میں بھی کنونشن کریں گے، پنجاب کو صاف ستھرا بنانے کے لیے ہم سب نے وزیراعلیٰ پنجاب کا ساتھ دینا ہے۔ 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یونین کونسل کو بنائیں گے کے لیے
پڑھیں:
یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
بھارت میں یکم نومبر 1984 وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم ہوئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کردیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتلِ عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے، جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔
یکم نومبر 1984 بھارت کی سیاہ تاریخ کا وہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی۔ 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا، جس دوران ہزاروں سکھ مارے گئے جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ جریدہ ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کی شناخت اور پتوں کی معلومات حاصل کیں اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔
شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔
انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں گھروں کی نشاندہی کرتے، اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہوکر سکھ مکینوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے۔ یہ خونیں سلسلہ تین دن تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔
1984 کے سانحے سے قبل اور بعد میں بھی سکھوں کے خلاف بھارتی ریاستی ظلم کا سلسلہ تھما نہیں۔ 1969 میں گجرات، 1984 میں امرتسر، اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی فسادات کے دوران سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہی نہیں، 2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے سمندر پار مقیم سکھ رہنماؤں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔
18 جون 2023 کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا، جس پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔
ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے، جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔