عید الفطر پر عوام کے لیے حکومتی فطرانہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
شاید آج بروز سوموار بتاریخ31مارچ عید الفطر ہو جائے ۔ ’’شاید ‘‘ اس لیے کہ کوئی پتہ نہیں چاند صاحب نکلیں ، نہ نکلیں ۔ یا حکومت چاند چڑھائے یا نہ چڑھائے ۔ ہم سب عوام بھی منتظر ہیں اور مساجد میں بیٹھے معتکفین حضرات بھی ۔ سب کی خوشیاں اور اُمیدیں نئے چاند سے وابستہ ہیں ۔
ہماری عیدیں اور شبراتیں گو، مگو کی کیفیات کے ساتھ ہی منائی جاتی ہیں ۔اور 2025کی یہ عید الفطر بھی کیا عید ہے ؟ عید تو مضبوط قومی اتحاد اور قومی یکجہتی کی طاقت سے خوشیوں اور مسرتوںکے ساتھ منائی جاتی ہے۔
ہم سب کو اپنے دلوں اور گریبانوں میں جھانک کر دیانتداری سے جائزہ لینا چاہیے کہ کیا اِس عید الفطر پر ہمیں یہ سب نعمتیں دستیاب ہیں؟ہماری معاشی رَگ جس طرح آئی ایم ایف کی گرفت میں ہے، ایسے میں ہمیں علامہ اقبال کا یہ شعر شدت سے یاد آتا ہے:عیدِ آزاداں شکوہِ ملک ودیں /عیدِ محکوماں ہجومِ مومنیں!
2025ء کی یہ عید الفطراِس حال میں منائی جا رہی ہے کہ(1) ابھی چند دن قبل ہی جعفر ایکسپریس ٹرین کے اغوا کا نہائت پریشان کن سانحہ وقوع پذیر ہُوا ہے (2) بلوچستان میں بعض شر پسند قوتیں قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں (3) ایک نام نہاد ’’بلوچستان یکجہتی کمیٹی‘‘(YBC) مرکزِ گریز قوتوں کی زبان بول رہی ہے ۔
اِس پُر اسرار تنظیم کے کچھ مرکزی عہدیدار ، اپنے نجی مفادات کے کارن، حراست میں لیے گئے ہیں (4)اِسی حراست کے خلاف اختر مینگل صاحب کی اپنے علاقے، وَڈھ ، سے بجانبِ کوئٹہ احتجاجی ’’لانگ مارچ‘‘ ۔مبینہ طور پر اُن کی احتجاجی ’’ریلی‘‘ کے آس پاس خود کش دھماکا بھی ہُوا ہے (5) فضاؤں میں کسی نام نہاد آپریشن کی بازگشت بھی بھنبنا رہی ہے (6) مبینہ6نہروں کے خلاف سندھ کی کچھ سیاسی جماعتیں اور سندھ کی حکومت سراپا احتجاج ہیں (7) پی ٹی آئی عید کے بعد سڑکوں کو گرم کرنے کا عندیہ دے رہی ہے ، جب کہ حکومت عید کے بعد نئی اے پی سی بلانے کا پروگرام بنا رہی ہے (8)ٹی ٹی پی کے دہشت گرد عید کے آس پاس بھی پاکستان میں خونریزی سے باز نہیں آ رہے (9) ہم نے جمعتہ الوداع یوں ادا کیا ہے کہ ہماری مساجد پر مسلّح پہریدار ایستادہ تھے ۔
اب ہم عید الفطر بھی بندوقوں کے سایوں میں منائیں گے ۔ کیا عیدین ایسے منائی جاتی ہیں؟ اور وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان ایسے ’’اسلام کے قلعہ‘‘ میں؟ واقعہ یہ ہے کہ نام نہاد جہادِ افغانستان نے پچھلے 40برسوں سے ہمارا ذہنی سکون، امن اور پائیدار سیاسی ماحول برباد کر رکھا ہے ۔
عید الفطر دراصل روزہ داروں کا انعام ہے۔ حقیقی رُوحانی مسرت کا دِن ۔ عید پر تقریباً ہر مسلمان گھرانہ، اپنی استطاعت کے مطابق، فطرانہ نکالتا ہے۔ اور ہر گھرانے کا سربراہ ، اپنی جیب کے مطابق، خوشی سے اپنے بچوں کو عیدی دیتا ہے ۔مستحقین میں خیرات بھی تقسیم کی جاتی ہے۔ہماری مرکزی حکومت نے بھی ، کمال فیاضی سے، اِس عید الفطر کے ایام میں عوام کو’’ عیدی ‘‘دی ہے ۔ کوئی اِسے ’’ حکومتی تحفہ‘‘ کہہ رہا ہے ۔ کوئی اِسے عوام کے لیے نکالے گئے ’’حکومتی فطرانے‘‘ کا نام دے رہا ہے ۔ اور کوئی اِسے عوام کو دی گئی’’ نئی خیرات‘‘ سے موسوم کررہا ہے۔
سوچ اپنی اپنی ، خیال اپنا اپنا۔ حکومت نے 2025 کی اِس عید الفطر کے مسعود موقع پر پاکستانی عوام کو بجلی کی مَد میں یوں عیدی دی ہے کہ اَب بجلی کے ایک یونٹ پر عوام کو ایک روپے کا باکمال ریلیف ملے گا۔ اِسی عید الفطر کے مبارک ایام میں حکومت نے عوام کو پٹرول کی مَد میں بھی عظیم الشان آسانی یوں دی ہے کہ اَب عوام کو ایک لٹر پٹرول پر ایک روپیہ کم ادا کرنا پڑے گا۔ عید کے پُر مسرت موقع پر پاکستان کے عوام کے لیے حکومت کی اِس بے مثل فیاضی ، عوامی ریلیف اور مہربانی بارے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے گویا حاتم طائی کی قبر پر لات ہی مار دی ہے۔
ہم سب نے یہ رمضان المبارک یوں سسکتے، ترستے اور سہکتے ہُوئے گزارا ہے کہ نہ پوری بجلی ملی، نہ پوری گیس اور نہ سستی چینی ۔ اب مارچ کے بجلی بِلز آئے ہیں تو وہ فروری کے بجلی بلز سے تین گنا زیادہ ہیں۔ ایک روپیہ فی یونٹ بجلی ’’سستی‘‘ کرکے حکومت نے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے ۔ ساتھ ہی مگر وزیر خزانہ سسکتے اور سہکتے عوام کو اُمید دلا رہے ہیں کہ ’’عنقریب وزیر اعظم شہباز شریف مزید بجلی سستی کرنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔‘‘ سارا رمضان ہم سب چینی مافیا کے ہاتھوں یوں لُٹتے رہے کہ چینی150روپے فی کلو کے بجائے 180روپے خریدنے پر مجبور کر دیے گئے ۔
شہباز حکومت نے اپنے وزیروں اور مشیروں کی تنخواہوں میں 188فیصد اضافہ کرکے انھیں خوش اور خورسند تو کر دیا ہے مگر عوام کی باری آتی ہے تو بجلی کی قیمت میں صرف ایک روپیہ فی یونٹ اور پٹرول کی قیمت میں ایک روپیہ فی لٹر کا ریلیف؟ عوام کا مذاق مت اُڑائیے : سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم / بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے ! عوام کو ریلیف دینے کی باری آئے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف نہیں مانتا ، مگر جب اپنی مراعات اور مالی مفادات کی باری آئی تو کسی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پروا کیے بغیر راتوں رات اپنے وزیروں اور مشیروں کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافہ؟ انتہائی مراعات یافتہ سرکاری طبقات کا یہ تماشہ عوام دیکھ رہے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے عوام کو دی گئی اِس عیدی یا خیرات یا فطرانہ نے میٹھی عید کو کڑوا کر دیا ہے۔ کیا حکومت اپنے اِنہی عوام مخالف اقدامات کے پس منظر میں عوام سے توقع رکھتی ہے کہ اُس کے حق میں نعرے لگائے جائیں یا اس کی تعریف و تحسین کی جائے ؟ ناممکن !یاد رکھا جائے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے عوامی مفادات و احساسات کے منافی یہ دلشکن اقدامات وزیر اعلیٰ پنجاب کے متعدد اور متنوع عوام دوست اقدامات پر بھی منفی اثرات مرتّب کررہے ہیں۔
اللہ بھلا کرے جناب مفتاح اسماعیل کا جوبجلی ، گیس اور سولر انرجی میں حکومت کی عوام سے کی گئی مسلسل اور نہ رکنے والی زیادتیوں کا پردہ چاک کررہے ہیں ۔ مہنگی ترین بجلی عوام کے لیے اِسقدر ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے کہ اب عوام نجی ٹی ویوں کے مذہبی پروگراموں میں علمائے کرام سے ایسا وظیفہ پوچھ رہے ہیں کہ بجلی میٹروں پر دَم کرنے سے بِلز کم آئیں۔ حکومت پر عوامی اعتماد کی نوبت یہ آگئی ہے کہ عوام بجلی اور سولر انرجی کے نرخوں بارے وفاقی وزیر برائے بجلی ، اویس لغاری، پر یقین کم کررہے ہیں اور مفتاح اسماعیل پر زیادہ ۔ اِس کا بھگتان کسی اور کو نہیں ، نون لیگ کو بھگتنا پڑے گا۔
نون لیگی حکومت شکر کرے کہ اُس کی پیدا کردہ کمر توڑ مہنگائی نے ابھی پنجاب میں وہ آتشناک حالات پیدا نہیں کیے جو باقی تینوں صوبوں میں بوجوہ پیدا ہو چکے ہیں ۔پنجاب کے عوام کو مگر مزید ایزی نہ لیا جائے ۔ اب گرمیاں پھر نازل ہو رہی ہیں ۔ عوام ابھی سے بجلی بلز کی ہوشربائیوں سے پریشان ہو رہے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ حکومت اور پاکستان کی مراعات یافتہ اشرافیہ ٹیکس دہندگان اور بجلی کے صارفین کو آسان ہدف سمجھ کر مسلسل اِن پر چاند ماری کررہی ہے۔ حکومت اور اشرافیہ مگر اپنی مراعات میں کمی کرنے پر ہرگز تیار نہیں ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عوام کے لیے عید الفطر ایک روپیہ حکومت کی حکومت نے کہ حکومت عوام کو رہے ہیں سے عوام ہے کہ ا رہی ہے عید کے
پڑھیں:
بارشیں اور حکومتی ذمے داری
گلگت، سوات، بونیر، جڑواں شہروں سمیت ملک کے مختلف حصوں میں موسلا دھار بارشوں سے تباہی، ندی نالوں میں طغیانی، سیلابی ریلوں میں بہہ کر 6 بچوں، باپ، بیٹی سمیت 16 افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ کئی زخمی ہوگئے، بابو سر ٹاپ پرکئی سیاح پانی میں بہہ چکے ہیں، جن کی تلاش کے لیے ریسکیوکارروائیاں تاحال جاری ہیں۔
سڑک 15 مقامات سے بلاک ہے اور 4 اہم رابطہ پل بھی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ پاک فوج نے اسکردو میں ریسکیو آپریشن کرتے ہوئے 40 سے 50 گاڑیوں میں پھنسے ہوئے سیاحوں کو بحفاظت نکال لیا، لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بند سڑکیں کھول دیں۔
مون سون سیزن پاکستان کے لیے ایک اور تلخ حقیقت بن کر سامنے آیا ہے۔ جہاں ایک طرف بے رحم بارشیں برسیں، وہیں دوسری طرف انسانی غفلت، حکومتی لاپرواہی اور ادارہ جاتی کمزوری نے اس آفت کو ناقابلِ تلافی سانحے میں بدل دیا۔ خیبر پختون خوا،گلگت بلتستان، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت کئی علاقوں میں طوفانی بارشوں، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی، وہ صرف موسمی یا فطری آفت نہیں، بلکہ ایک منظم حکومتی و انتظامی ناکامی کی داستان ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں مون سون سیزن اب ایک قدرتی معمول سے بڑھ کر ایک انسانی بحران کی شکل اختیارکرچکا ہے۔ اس بار جولائی میں ہونے والی ہلاکتیں، جن کی تعداد درجنوں سے بڑھ کر سیکڑوں تک جا پہنچی، صرف بارش یا سیلاب کا نتیجہ نہیں، بلکہ ناقص انفرا اسٹرکچر، سیاحتی علاقوں میں انتظامی غفلت اور قبل از وقت انتباہی نظام کی غیر فعالیت کی علامت ہے۔
سیاح، جن میں مرد ، خواتین اور بچے شامل تھے، اپنی چھٹیوں کو خوشگوار بنانے کی امید لیے شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں، مگر کمزور پُل، ندی نالوں کے قریب غیر محفوظ کیمپنگ اور مسلسل بارشوں کے باوجود حکومتی خاموشی ان کی زندگیوں کا چراغ بجھا دیتی ہے۔یہ المیہ فقط چند علاقوں تک محدود نہیں۔ اسلام آباد جیسے دارالحکومت میں بھی نکاسیِ آب کا ناقص نظام عوامی زندگی کو مفلوج کردیتا ہے۔
راولپنڈی کا نالہ لئی ایک بار پھر خبروں میں ہے جہاں بارش کے بعد پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو جاتی ہے اور حکومتی ادارے فقط ’’ الرٹ جاری‘‘ کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات، جنھیں ملکی معیشت کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے، بدترین انفرا اسٹرکچر، بغیر پلاننگ کی تعمیرات اور غیر تربیت یافتہ مقامی انتظامیہ کی وجہ سے انسانی جانوں کے لیے خطرناک بن چکے ہیں۔
اگر ہم ان حادثات کا غیر جذباتی، حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاحتی علاقوں میں مون سون کے دوران بغیر کسی نگرانی کے عوام کو جانے کی اجازت دینا دانشمندی ہے؟ جب متعلقہ اداروں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کئی دن پہلے موصول ہو جاتی ہے، توکیا یہ اداروں کی ذمے داری نہیں کہ وہ متاثرہ علاقوں میں سیاحت پر وقتی پابندی عائد کریں؟ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پالیسی ہمیشہ ردعمل پر مبنی ہوتی ہے، پیشگی حکمتِ عملی کا فقدان ہمیں ہر بار انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے سے سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے، بارشوں کا نظام غیر متوازن ہو چکا ہے، اور فلیش فلڈز اب ایک معمول بن چکے ہیں۔ برساتی جھیلوں اور تالاب کا رجحان بھی ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ یہ اگر ہوں تو ان سے زیر زمین سطح آب، جو ہمارے شہری علاقوں میں تیزی سے نیچے جارہی ہے، اسے بڑھانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
ہمیں اپنے موسمیاتی پیٹرن کا عمیق مطالعہ کر کے ضرورت کے مطابق منصوبے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سال مون سون میں سیکڑوں جانوں اور اربوں روپے کے نقصانات کا سلسلہ رک سکے اور اربن فلڈنگ کا مستقل اور دیر پا حل تلاش کیا جائے۔ بارش سے ہونے والے حادثات کو دیکھا جائے تو ان میں انتظامی سے زیادہ انسانی غفلت نمایاں نظر آتی ہے۔ ہر سال حکومت کی جانب سے مون سون سے قبل احتیاطی تدابیر اختیارکرنے کی ترغیب دی جاتی ہے مگر شہریوں کی جانب سے حکومتی ہدایات کو نظر اندازکیا جاتا ہے، اگر عوام سب کچھ حکومت پر چھوڑنے کے بجائے اپنے تئیں بھی برسات کے موسم میں تھوڑی سی احتیاط کریں تو بارشوں سے ہونیوالے جانی نقصان کی شرح کو بہت کم کیا جا سکتا ہے۔
ملک میں حالیہ اموات صرف قدرتی آفات کی وجہ سے نہیں ہوئیں، بلکہ یہ ریاستی نااہلی، ناقص شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی بے حسی کا نتیجہ تھیں۔ ہم نے اپنے قدرتی نالوں پر تجاوزات قائم کیں، درخت کاٹ کر عمارتیں بنائیں، کھلی زمینوں کو سیمنٹ اور تارکول میں بدل دیا اور بارش کے پانی کے قدرتی بہاؤ کو بند کردیا۔ جب پانی کا راستہ بند ہوتا ہے تو وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے، اور پھر اس کی راہ میں جو بھی آئے، وہ تباہی کی زد میں آ جاتا ہے۔اس المیے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ حکومتوں نے عوام کو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی خطرات کے بارے میں شعور دینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
پارلیمان کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر باقاعدہ قانون سازی کرے، صوبائی اسمبلیاں اس کی توثیق کریں اور ہر سطح پر اس پر عملدرآمد کی نگرانی کی جائے۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ ان سانحات کے بعد بھی کوئی بڑی پالیسی تبدیلی یا سنجیدہ تجزیہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حادثات کے بعد چند روزہ اخباری بیانات، کچھ دکھاوے کی میٹنگز اور پھر حسبِ معمول خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ نہ ہی کوئی باقاعدہ انکوائری کی جاتی ہے، نہ ہی ذمے داران کا تعین ہوتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، نئے موضوعات زیرِ بحث آجاتے ہیں اور پچھلے حادثات محض یاد داشت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
شدید بارشیں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ سمجھی جا رہی ہیں، جو آنے والے وقت میں پاکستانیوں کی طرز زندگی کو بدل کر کے رکھ دے گی، اس بگڑتی ہوئی صورت حال کی ایک بڑی وجہ شمالی علاقوں، خاص طور پر گلگت بلتستان میں گلیشیئرزکے تیزی سے پگھلنے کو قرار دیا جا رہا ہے، ایک وقت میں ان گلیشیئرزکی تعداد سات ہزار سے زیادہ بتائی جاتی تھی، لیکن ان کا غیر متوقع طور پر تیزی سے ختم ہونا پاکستان بھر میں بدلتے موسموں کا واضح ثبوت ہے۔ درختوں کی تیزی سے کٹائی اور ان کی جگہ نئے درخت نہ لگانے سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو مزید سنگین بنا دیا ہے، ایک غیر یقینی مستقبل کی جھلک 2010 میں ہنزہ وادی میں عطا آباد جھیل کے قیام کے ساتھ دیکھی گئی۔سیاحت کو اگر محفوظ بنایا جانا ہے تو اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔
سب سے پہلے تو مون سون سیزن کے دوران حساس علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں پر مکمل یا جزوی پابندی عائد کی جائے۔ اس حوالے سے ایک جامع منصوبہ بندی درکار ہے جس میں مقامی حکومت، پولیس، محکمہ موسمیات، اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ادارے باہم مربوط ہو کر فیصلے کریں۔ دوسرا، مقامی کمیونٹیز کو اس حوالے سے تربیت دی جائے کہ وہ خود بھی قدرتی آفات میں بروقت ردعمل دے سکیں، اور باہر سے آنے والے سیاحوں کی حفاظت کر سکیں۔
تیسرا، سیاحوں کے لیے ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جائے جس میں سفر سے پہلے رجسٹریشن، راستوں کی معلومات اور خطرناک علاقوں سے اجتناب جیسی ہدایات لازمی ہوں۔ انفرا اسٹرکچرکی تعمیر میں پائیداری اور موسمی حالات کو مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔ یہ بات اب بار بار ثابت ہو چکی ہے کہ کمزور پل، ناقص سڑکیں اور غیر محفوظ ہوٹل یا کیمپنگ ایریاز حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ اگر حکومت سیاحت کو معیشت کا انجن بنانا چاہتی ہے، تو اسے انفرا اسٹرکچر پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بھی ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ ان میں شفافیت اور پائیداری کو یقینی بنایا جائے۔موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں بھی ہمیں اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
درختوں کی بے دریغ کٹائی، جنگلات کی تباہی اور بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات نے لینڈ سلائیڈنگ اور زمین کی کمزوری میں اضافہ کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کو نہ صرف ایک جامع نیشنل کلائمیٹ ایڈاپٹیشن پالیسی کی ضرورت ہے بلکہ اس پالیسی کو ضلعی سطح تک نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ مقامی سطح پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکیں۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسانی جان صرف ایک عدد نہیں، بلکہ ایک خاندان، ایک نسل اور ایک خواب کا نام ہوتی ہے۔
جب ایک سیاح کسی حادثے کا شکار ہوتا ہے، تو اس کے پیچھے رہ جانے والے افراد عمر بھر کے دکھ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگر ایک جان بھی محفوظ کی جا سکتی ہو تو اس کے لیے اقدامات کرنا حکومت اور معاشرے دونوں کی اخلاقی ذمے داری ہے۔آخر میں، ہمیں بحیثیتِ قوم یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم ہر سال مون سون میں سانحات کا سامنا کرنے کو اپنی تقدیر سمجھ چکے ہیں، یا ہم اس دائرے کو توڑ کر ایک ذمے دار، محفوظ اور منصوبہ بند معاشرہ بننے کے لیے تیار ہیں؟ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کا آغاز آج، ابھی اور یہیں سے ہونا چاہیے۔ قدرتی آفات کو ہم نہیں روک سکتے، مگر اپنے رویوں، پالیسیوں اور ترجیحات کو ضرور بدل سکتے ہیں تاکہ قدرتی آفات سے جنم لینے والے مسائل پر جلد از جلد قابو پا سکیں۔