Express News:
2025-11-04@02:30:05 GMT

زباں فہمی نمبر242عید منائیں، خوشیوں کو گلے لگائیں

اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT

ہرسال عید آتی ہے تو فقط خوشیوں کے میلے ہی نہیں سجتے، بلکہ کہیں کہیں غم کا سماں یا پرچھائیں بھی دِکھائی دیتی ہے۔

اس پُرمسرّت موقع پر ہمیں اپنے پیارے یاد آتے ہیں جو ہم سے بچھڑگئے اور عید کے موقع پر اُن کی یاد ہی باقی رہی۔ اس سلسلہ مضامین کے مصنف کا بھی صدمہ ابھی تازہ ہے کہ 19جنوری 2025ء کی شب، میری پیاری بہن مجھ سے ہمیشہ کے لیے بچھڑگئی۔ یہاں ایک اہم دینی مسئلہ دُہرانا ضروری سمجھتا ہوں۔ بہت لوگ کہتے سُنائی دیتے ہیں کہ ہم اس مرتبہ عید نہیں منائیں گے، کیونکہ ہمارے ساتھ فُلاں نجی یا قومی سانحہ ہوا ہے۔ ہم سوگ منارہے ہیں ۔یا۔ یہ کہتے ہیں کہ اس مرتبہ ہم عید سادگی سے منائیں گے۔

ہماری حکومت بھی ایسی گزارش تقریباً ہرسال کرتی ہے۔ دینی تعلیمات کی روشنی میں صحیح یہ ہے کہ عید، رمضان المبارک میں بحسن وخوبی عبادات بجا لانے کی خوشی میں منائی جاتی ہے اور اِس کا کسی کی پیدائش، وفات، کسی انفرادی یا اجتماعی سانحے سے کوئی تعلق نہیں;نیز عید پر خوشیوں کا اظہار بھی سادگی سے ہونا چاہیے یعنی یہ کہ اسرافِ بے جا نہ ہو کہ کسی کی دل آزاری یا احساسِ کمتری کا سبب بنے، وہ یہ سوچے کہ کاش میرے پاس بھی اتنا ہوتا کہ مقابل کی طرح شان وشوکت، امارت اور سماجی رتبے کا اظہار کرتا۔

ہرسا ل کی طرح اِمسال بھی عیدالفطر کی آمد کے موقع پر بازاروں میں لوگوں کا بے پناہ ہجوم اور پھر عین عید کے دن لوگوں کے معمولات، بہ یک وقت کئی حقائق کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں:

ا)۔ لوگ مہنگائی کا رونا روتے ہیں، مگر خریداری کرنے والوں کی تعداد اور اخراجات سے اس پرچار کی نفی ہوتی ہے۔

ب)۔ عید منانے کے لیے جس قدر اہتمام کیا جاتا ہے، اس کا چوتھائی بھی رمضان المبارک کے دنوں میں نظر نہیں آتا۔ پورا مہینہ مسجدیں یکساں طور پر، نمازیوں سے بھری ہوئی نہیں ہوتیں;نمازیوں کی اکثریت وہی ہوتی ہے جو سال بھر باجماعت نماز کے لیے حاضر ہوتی ہے۔ فصلی بٹیروں کی طرح حاضر ہونے والے، ابتدائی چند دن، پھر آخری عشرے کی طاق راتوں میں اور پھر ’ختم ِ قرآن‘ کی محفل کے موقع پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ (کچھ عرصے قبل کسی نے سوشل میڈیا پر شوشہ چھوڑا کہ قرآن شریف کی تلاوت کے ایک دور کی تکمیل کو ’ختمِ قرآن ‘ کہنا بے ادبی اور ناجائز ہے تو سمجھ دار لوگوں نے علماء سے رجوع کیا اور یہ ثابت کیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں!)

ج)۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد عید کی خریداری اور اشیاء کی فروخت میں اس درجے منہمک ہوتی ہے کہ عبادات پس ِ پُشت ڈال کر سب کچھ کرتی ہے۔ ہر طرح کے مکروہات اور خُرافات کا مشاہدہ بھی عام ہے۔

د)۔ بعض لوگ رمضان شریف میں عبادت کریں نہ کریں، عید کے دن لمبی تان کر سوتے ہیں جیسے برسوں سے جاگے ہوئے ہوں، یہ طریقہ ہر لحاظ سے غلط ہے۔ اس معاملے میں غیر مسلموں سے سبق سیکھنا چاہیے کہ اکثر لوگ پورا ہفتہ خواہ کچھ نہ کریں، ایک مخصوص دن اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے اپنی عبادت گاہ کا رُخ ضرور کرتے ہیں۔

آج جب ہر طبقے کے لوگ ہر مسئلے کے حل اور ہر معاملے میں رہنمائی کے لیے Googleسے مدد لیتے ہیں، انٹرنیٹ ہی کو حَرفِ اوّل وآخر سمجھتے ہیں تو ایسے میں ضروری ہے کہ مُستند کتابی معلومات دُہرائی جائیں۔ خاکسار ایسے موقع پر اپنے سلسلہ ’سخن شناسی‘ اور ’زباں فہمی‘ میں شامل گزشتہ مضامین سے ضروری اقتباسات دوبارہ پیش کرنے میں حرج نہیں سمجھتا۔

اردو لغات میں عید سے متعلق مندرجات بھی بہت دل چسپ ہیں اور انھیں یاد کرنے اور کرانے کی ضرورت ہے ، کیونکہ نئی نسل کو تو ’’عیدمبارک‘‘ کے سواء کچھ معلوم ہی نہیں:

محاورے میں عیدکا چاند ہونا سے مراد وہ شخص جسے مدت دراز کے بعد، عین حالت انتظار یا حالت اشتیاق میں دیکھا جائے۔

عید منانا: معنیٰ بالکل صاف ہے۔

عید ہونا یا ہوجانا (فعل لازم): عید کا تہوار ہونا، نیز انتہائی خوشی ہونا، مراد برآنا۔

عید کے پیچھے چاندمبارک۔ کہاوت: تہوار گزرنے کے بعد مبارک باد دینا۔

عید کے پیچھے ٹر۔ کہاوت: برات کے پیچھے دھونسا۔ وقت گزر جانے کے بعد، یا ، بے موقع کسی کام کا کرنا، کیوں کہ جب تہوار نکل گیا تو خوشی کیسی اور جب برات چڑھ چکی تو باجے کس کام کے۔ (ٹر پنجاب کا ایک میلہ تھا جو عید کے دوسرے روز باغوں میں منایا جاتا تھا، یہ بعد میں دہلی میں بھی ہونے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل پنجاب باسی عید کو ’’ٹرو‘‘ کہتے ہیں۔)

یہاں ایک بات ازراہِ تفنن بھی کہی جاتی ہے کہ ’چھت پر (یا گھر سے باہر) نہ جانا، کہیں لوگ تمھیں دیکھ کر یہ نہ سمجھیں عید کا چاند نکل آیا۔ ایسے میں ایک صاحب نے یہ شعر کہا ہے:

ماہِ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز

شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی

                                    (جلیلؔ نظامی)

اب اس شعر میں کچھ ابہام محسوس ہوتا ہے۔ ذرا غورکریں توخود سمجھ لیں گے۔

عید کے موقع پر، خصوصاً عیدا لفطر عُرف چھوٹی یا میٹھی عید پر عیدی کا لین دین عام ہے، مگر روزاَفزوں مہنگائی نے اس معاملے میں بھی حالات بدل دیے ہیں۔ ہم اپنا ہی تجربہ اور مشاہدہ بیان کریں۔ پہلے جو رشتے دار، کسی خوشی کے موقع پر ملیں نہ ملیں، عید بقرعید پر ملنے آتے تو عیدی دے جاتے تھے ، پھر وہ سلسلہ کم ہوتے ہوتے ختم ہی ہوگیا۔ اب تو سیکڑوں میں ایک آدھ بھی بھولے بھٹکے آتا ہے۔ (صحیح لفظ سیکڑہ سے سیکڑوں ہے)، بقرعید پر بھی عالَم یہ ہے کہ لوگ کسی دوسرے کے ہاتھ گوشت بھِجوادیتے ہیں یا بڑی بے شرمی سے کہہ دیتے ہیں کہ اپنے گھر سے کسی کو بھیج دو، اپنا حصہ لے جاؤ یا تیسری صورت یہ کہ کچھ عرصے کے بعد آپ کے گھر کے آس پاس کہیں آنا ہوا تو باسی گوشت ڈیپ فریزر سے نکال کر دینے چلے آئے۔

عیدی کی بات ہوئی تو لگے ہاتھوں اس کی تعریف بیان ہوجائے:

عیدی۔ اسم مؤنث: (۱)۔ عید کا انعام، عید کا خرچ جو بچوں کو دیا جائے۔ (۲)۔ وہ نظم جو اُستاد لوگ بچوں کو عید سے ایک روز قبل، کسی خوش نما کاغذ پر لکھ کر عید کی مبارک باد دیتے ہیں اور اس میں حق اُستادی وصول کرتے ہیں۔(۳)۔ وہ مٹھائی اور نقدی وغیرہ جو عید کے دن سسرال سے آئے یا سسرال میں بھیجی جائے۔ (۴)۔ وہ خوش نُما کاغذ جس پر عید کے اشعار یا قطعہ لکھتے ہیں۔

؎میں وہ مجنوں ہوں کہ میرا کاغذِتصویر بھی

مثلِ عیدی باعثِ خوشنودیٔ اطفال ہے

               (ذوقؔ)

استاد ذوقؔ کو داد دیجئے کہ ایک طرف اپنے آپ کو مجنوں قراردے رہے ہیں جو ظاہر ہے کہ بچوں کے لیے آسان فہم اصطلاح نہیں اور دوسری طرف یہ بھی دیکھیے کہ عیدی کو بچوں ہی کی خوشنودی کا سبب قرار دے رہے ہیں یعنی یہ نہیں کہ اس کا تعلق کہیں لیلیٰ یا اُس کے گھرانے سے جوڑدیتے۔ یہ ہوتا ہے عصری تقاضوں کے ساتھ ساتھ کسی نکتے کا عمدہ بیان! .

....تعجب ہے کہ عیدی کے تین دیگر معانی کہیں گم ہوگئے ہیں اور آج اگر کسی اچھے پڑھے لکھے شاعر، ادیب یا کسی اور معتبر شخص سے بھی پوچھیں تو بہت مشکل ہے کہ وہ ایک سے دوسرا معنی بتا پائے۔ یہ ہوتا ہے کسی لفظ، ترکیب، اصطلاح ، محاورے، کہاوت یا فقرے کا رِواج کہ معانی محدود ہوکر رہ جائیں، خواہ مُثبَت ہوں یا منفی۔ اسی طرح چالو عوامی بولی(یا تحتی بولی یا ذیلی بولی) عُرف Slangکا معاملہ بھی ہے جس کا ذکر گاہے گاہے، زباں فہمی میں ہوتا رہتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب عید کارڈ وسیع پیمانے پر چھپا کرتے تھے اور ہر کوئی حسب ِ استطاعت، سستے مہنگے ہر طرح کے عیدکارڈ خرید کر اَپنے اعزہ ، دوست احباب اور واقفین کو بذریعہ ڈاک بھیجا کرتا تھا تب کچھ ایسے اشعار ان کارڈز پر چھپے ہوئے نظر آتے تھے:

دیکھا ہلا ل عید تو احساس یہ ہوا

لو ایک سال اور جدائی میں کٹ گیا

…… ٭ ……

ہلال عید کا   ہم باہم دیکھتے ہیں

گلے مِل رہی ہیں ہماری نگاہیں

…… ٭ ……

ہلال عید کو دیکھو تو روک لو آنسو

جو ہوسکے تو محبت کا احترام کرو

…… ٭ ……

تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے

شام تیری کیا ہے، صبح عیش کی تمہید ہے

صاحبو! اگراچھی اردو کا لطف اُٹھانا ہے اور عید ہی کے موضوع پر عمدہ اشعار سے حظ اٹھانا چاہتے ہیں تو مشاہیر سخن کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:

کلام برموضوع ِعید:نظیرؔ اکبرآبادی

یوں لب سے اپنے نکلے ہے اب بار بار آہ

کرتا ہے جس طرح کہ دل ِبے قرار آہ

ہم عید کے بھی دن رہے امیدوار آہ!

ہو جی میں اپنے عید کی فرحت سے شاد کام

خوباں سے اپنے اپنے لیے سب نے دل کے کام

دل کھول کھول سب ملے آپس میں خاص و عام

آغوش خلق گل بدنوں سے بھرے تمام

خالی رہا پر ایک ہمارا کنار آہ!

یہ پوری نظم 2023ء کے عید والے مضمون ’’عید منائیں، غم مٹائیں‘‘ (زباں فہمی نمبر 184) میں نقل کرچکا ہوں ، بس اس کا آخری شعر اور دیکھ لیں:

جس عید میں کہ یار سے ملنا نہ ہو نظیرؔ

اس کے اُپر تو حیف ہے اور صد ہزار آہ!

                        (اُپَر: اوپر)

ہر شب ، شب ِبرات ہے، ہرروز عید ہے 

سوتا ہوں ہاتھ گردن ِ مِینا میں ڈال کر

             (آتشؔ)

(پہلا مصرع یوں غلط مشہور ہے: ہرروز، روزِعید ہے، ہر شب ، شبِ برات)

اللّہ رے صبح ِعید کی، اُس شوخ کو خوشی

شانہ ہے اور زلف ِ مُعَنبر تمام رات

        (آتشؔ)

خدا شاہد ہے مجھ کو عید ہوتی

گلے سے تو نے لپٹایا تو ہوتا

       (ممتازؔ)

سب لوگ دیکھتے ہیں کھڑے چاند عید کا

مشتاق ہوں میں رشک قمر تیری دید کا

        (بہادرشاہ ظفرؔ)

آپ تو حق میں مِرے ہوگئے اب عید کا چاند

کہ برس دن میں ادھر آج کرم تم نے کیا

              (معروفؔ)

کب سے شب فراق ہوں مشتاق دید کا

خورشید ہوگیا ہے مجھے چاند عید کا

               (داغؔ)

گر میکدے میں عید منائی تو کیا ہوا

ایسا ہی شیخ تیر ا دوگانہ  قضا ہوا

            (داغؔ)

ماتمِ غیر میں تمھیں دیکھا

ورنہ یہ عید کس کے گھر نہ ہوئی

          (داغؔ)

یقیں جاں اس کو اے قاتل اسی دن عید ہوجائے

گلا جس روز رکھ دوں مَیں تِری تیغ ہلالی پر

                         (اسیرؔلکھنوی)

کبھی دکھاتا ہے صورت میں برسویں دن

غرض وہ مہر ِ لقا، چاند عید کا ٹھہرا

                         (اسیرؔلکھنوی)

عید رمضاں ہے آج با عیش و سرور

ہم کو بھی ادائے تہنیت ہے منظور

اس عید سعید کی خوشی میں حضرت

قومی بچوں کو یاد رکھیے گا ضرور

                                    (اسمٰعیل میرٹھی)

غرّہ شوال! اے نورنگاہ روزہ دار

آکہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار

                                    ( علامہ اقبال )

پیام عیش ومسرت ہمیں سناتا ہے

ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے

                        ( علامہ اقبال )

 

چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند

اپنی تصویر کہا ں بھول گیا عید کا چاند

اُن کے اَبروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے

اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چُبھا عید کا چاند

جانے کیوں آپ کے رُخسار مہک اُٹھتے ہیں

جب کبھی کان میں چُپکے سے کہا عید کا چاند

دُور ویران بسیرے میں دیا ہو جیسے

غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عید کا چاند

لے کے حالات کے صحراؤں میں آجاتا ہے

 

آج بھی خُلد کی رنگین فضاء عید کا چاند

تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں

گھول کر دَرد کے ماروں نے پیا عید کا چاند

چشم تو وُسعت ِ افلاک میں کھوئی ساغرؔ

دل نے اک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند

                        (ساغرؔ صدیقی)

ہوتی تھی مجھ کو عید سمندر میں اُس گھڑی

ٹھیرا جہاز جب کوئی ٹاپو نظر پڑا

                        (نامعلوم)

قتل کی سُن کے خبر، عید منائی مَیں نے

آج جس سے مجھے ملنا تھا گلے مل آیا

                        (نامعلوم)

ابھی انٹرنیٹ پر ایک شاعرہ شِفا کجگاؤنوی صاحبہ (ساکن جَون پور، ہندوستان) کا کلام دیکھنے کو ملا:

چلو ہم عید منائیں کہ جشن کا دن ہے

خوشی کے گیت سنائیں کہ جشن کا دن ہے

رخوں پہ پھول کھلائیں کہ جشن کا دن ہے

دلوں میں پریت جگائیں کہ جشن کا دن ہے

مگر رکو ذرا ٹھہرو یہ سسکیاں کیسی

خوشی کہ رت میں دکھوں کی یہ بدلیاں کیسی

سنو یہ غور سے مائیں بلک رہی ہیں کہیں

یہ دیکھو بچوں کی آنکھیں چھلک رہی ہیں کہیں

کسی کے عید کے جوڑے میں ہے کفن آیا

کہیں پہ زخموں سے لپٹا ہوا بدن آیا

کوئی تو کھلنے سے پہلے کلی کو لوٹ گیا

کہیں درخت ہی اپنی زمیں سے ٹوٹ گیا

کس نے کر دیے پامال سایہ دار شجر

جڑیں کہیں پہ کٹیں اور کہیں بچے نہ ثمر

کہاں ہیں وہ کہ جو خود کو خدا سمجھتے ہیں

وہ جو کہ امن و اماں کے فسانے کہتے ہیں

وہ جن کے ہاتھ میں رہتا ہے پرچم انساں

ہوئے ہیں ان کے سب افکار امن اب عریاں

اگر ہیں صاحب کردار تو زباں کھولیں

اگر ہیں صاحب ایماں تو پھر وہ سچ بولیں

ہیں مقتدر تو بس اب روک لیں حسام جور

یہ بہتی خون کی ندیاں مصیبتوں کا دور

پہ ان سے کوئی امید وفا کرے کیسے

جو بد دعا ہو مجسم دعا کرے کیسے

جہاں میں چار طرف چیخ ہے کراہے ہیں

ستم رسیدہ دلوں سے نکلتی آہیں ہیں

ہے شور نالہ و آہ و بکا چہار طرف

کہاں کی عید ہے ماتم بپا چہار طرف

منائے کیسے کوئی عید ہر طرف غم ہے

منائے کیسے کوئی عید آنکھ پر نم ہے

سنائے کیسے کوئی گیت ساز ٹوٹ گئے

جگائے کیسے کوئی آس اپنے چھوٹ گئے

مگر یہ عید کا دن بھی تو اک حقیقت ہے

کہ وجہ عید سمجھنا بھی اک عبادت ہے

چلو کہ روتے ہوؤں کو ہنسا کے عید منائیں

کسی کے درد کو اپنا بنا کے عید منائیں

دلوں سے اپنے عداوت مٹا کے عید منائیں

کسی کے لب پہ تبسم سجا کے عید منائیں

…… ٭ ……

یہاں ایک اہم بات عرض کرنا ضروری ہے۔ گزشتہ مضمون کے آخر میں محترم غلام محمد وامق کا ذکرہوا کہ اُنھوں نے (زباں فہمی نمبر 241 کی تحریر کے دوران میں) خاکسار کی نظم ’چڑیوں سے خطاب‘ کا ہریانوی میں ترجمہ کیا تو مترجمہ نظم بھی شامل کردی تھی ، مگر تکنیکی خرابی کے سبب وہ اشاعت سے محروم رہی۔اب ملاحظہ فرمائیں:

نظم(آزاد) ''چڑیوں سے خطاب''

شاعر: سہیل احمد صدیقی

(کراچی،پاکستان)

ہریانوی زبان میں ترجمہ:  چڑیاں گلّے بات

مترجم غلام محمد وامِق

(محراب پور، پاکستان)

چِڑیو بِلکل ناں ڈریو۔۔۔

کاگ سارے بی آجا وَیں۔۔۔

کبوتر کٹّھے بی آجا وَیں۔۔۔

پاچھے ناں ھٹیو۔۔۔

آپنا دانا چُگ دی رھیو۔۔

ڈر کَ ناں اُڈیو۔۔۔

ڈٹ کَ اُن تئیں سمجھائیو۔۔۔

ھام بی اُورَ اے کے باسی ساں۔۔۔

ھام بی تھارَ اے جِسے ساں۔۔۔

رب کا شُکَر کر کَ نَیں۔۔۔

آپنی روجی اَر بچّاں کا۔۔۔

دانا پانی چُگن واسطَ ۔۔۔

ھام تو روج اے پُھر پُھر کر کَ۔

آپنا حِصّہ لے جا واں ساں۔۔۔

آپنا دانا اے کھاواں ساں۔۔۔

چڑیو بلکل ناں ڈریو۔۔۔

٭٭٭٭٭٭

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہ جشن کا دن ہے کے عید منائیں عید کا چاند کے موقع پر کیسے کوئی زباں فہمی ہیں اور سے کوئی ہوتی ہے عید ہے کے بعد کی طرح ہیں کہ ہے اور عید کی عید کے کے لیے

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • ’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ہمارے ٹاؤن چیئرمینوں کی کارکردگی قابض میئر سے کہیں زیادہ بہترہے ، حافظ نعیم الرحمن
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • زباں فہمی267 ; عربی اسمائے معرفہ اور ہمارے ذرایع ابلاغ
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • ہم چاند پر 6 بار جاچکے ہیں، ناسا کا کارڈیشین کو جواب