بیجنگ : یکم اپریل سےچائنا پیپلز لبریشن آرمی کے ایسٹرن تھیٹر کی جانب سے تائیوان جزیرےکے ارد گرد مشترکہ مشقیں کی گئیں ۔ یہ سرگرمی لائی چھنگ ڈہ انتظامیہ  کی جانب سے بڑے پیمانے پر علیحدگی کی کوششوں پر مبنی اشتعال انگیزی کے لئے سخت سزا اور تائیوان کی علیحدگی پسند قوتوں کے لئے ایک سخت انتباہ ہے جو جان بوجھ کر آبنائے تائیوان میں امن کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور ساتھ ہی یہ سرگرمی  قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لئے ایک ضروری قدم ہے۔

حالیہ برسوں میں، بہت سے ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے رہنماؤں نے ایک چین کے اصول کا اعادہ اور حمایت کا اظہار کیا ہے اور 10 ممالک نے تائیوان کے ساتھ نام نہاد “سفارتی تعلقات” منقطع بھی کیے ہیں.

یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ ایک چین کے اصول کو برقرار رکھنا اکثریتی ممالک کی خواہش، عظیم راستبازی اور وقت کا رجحان ہے۔تاہم ، لائی چھنگ ڈہ نے ا س کے باوجود بھی ایک شر انگیزی کی کوشش کی ہے ۔ چند روز قبل لائی چھنگ ڈہ انتظامیہ نے تائیوان کے دفاعی بجٹ کو جی ڈی پی کے 3 فیصد سے زیادہ تک بڑھانے کا اعلان کیا اور تمام عوام کو فوجی بنانے کی کوشش کی ۔ یہ عمل تائیوان کے 23 ملین سے زیادہ لوگوں کو تائیوان کی علیحدگی کی شر انگیزی سے باندھ کر انہیں ” توپ کا بارود ” بنا دے گا۔

واضح رہے کہ جزیرے کے گرد پی ایل اے کی فوجی مشقوں کا ہدف تائیوان کے ہم وطن نہیں بلکہ تائیوان کی علیحدگی پسند سرگرمیاں ہیں ۔ تائیوان کی رائے عامہ نے لائی چھنگ ڈہ کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے آبنائے تائیوان کی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ پی ایل اے کی فوجی مشقوں نے تائیوان کے علیحدگی پسندوں کو مؤثر انداز میں متنبہ کیا ہے ۔

یہ عمل آبنائے تائیوان میں امن واستحکام اور تائیوان کے ہم وطنوں کی فلاح و بہبود کے لئے ایک مضبوط تحفظ کی علامت ہے۔ لائی چھنگ ڈہ سمیت تائیوان کی علیحدگی پسند قوتیں جتنی زیادہ اشتعال انگیز ہوں گی ، مین لینڈ کی جانب سے ان کے لئے سزا اتنی ہی طاقتور ہوگی، اور اتنی ہی جلدی تائیوان کی علیحدگی پسند قوتوں کا خاتمہ ہوگا!

Post Views: 1

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق ٹرمپ کا بیان، بھارت میں اشتعال، امریکی پرچم  روند ڈالا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالثی کی خواہش ظاہر کی ہے، جس کے بعد بھارت میں ایک غیر معمولی اشتعال انگیزی کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔

جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی جمہوریت کے نام نہاد دعوے دار ملک میں مسئلہ کشمیر کے حل میں امریکی دلچسپی کے خلاف منفی ردعمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، جو نہ صرف سفارتی آداب سے متصادم ہے بلکہ شدت پسندی کے اس رجحان کی عکاسی بھی کرتا ہے جس نے بھارتی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔

ٹرمپ کے اس بیان کے فوری بعد بھارت کی مختلف ریاستوں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس کی قیادت انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کی۔ ان مظاہروں میں نہ صرف امریکا کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی بلکہ احتجاج کے دوران امریکی پرچم کو پاؤں تلے روندا بھی گیا اور میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی پرچم کو سرعام نذر آتش بھی کیا گیا۔

کچھ مظاہرین نے امریکی پرچم کو زمین پر بچھا کر اس پر پاؤں رکھے، تھوکا اور پھر اسے جلا دیا۔ ایسے مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارت میں امریکی صدر کے بیان کو کتنی شدت سے مسترد کیا جا رہا ہے اور صرف پاکستان دشمنی میں ہندو انتہا پسند کس حد تک جذباتی اور انتقامی ردعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

احتجاج میں شامل افراد کی زبان سے نکلنے والے الفاظ میں شدت اور نفرت نمایاں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا عالمی سیاست میں گندا کردار ادا کر رہا ہے اور اپنی چالاکی کے ذریعے بھارت کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

مظاہرین نے امریکی صدر پر الزام عائد کیا کہ وہ پاکستان کے کہنے پر مسئلہ کشمیر میں مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں، جو بھارت کی خودمختاری کے خلاف سازش ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ امریکا کو صرف وہی اقوام پسند آتی ہیں جو اس کے مفادات کا تحفظ کریں اور اگر کوئی ملک ان سے اختلاف کرے تو وہ فوری طور پر اسے سیاسی طور پر کمزور کرنے کی مہم چلاتے ہیں۔

مظاہرین کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت میں ایک مخصوص نظریاتی طبقہ (ہندوتوا) نہ صرف خارجہ پالیسی کو مذہبی بنیادوں پر پرکھ رہا ہے بلکہ عالمی سفارتکاری کے معمولات کو بھی اسی نظریے کی عینک سے دیکھ رہا ہے۔ امریکا جیسے ملک کے خلاف یہ غصہ صرف ٹرمپ کے بیان تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے بھارت کی داخلی کمزوریوں اور ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کا بھی روپ اختیار کر لیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ غصہ دراصل بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی ان ناکامیوں کی پردہ پوشی ہے جو اسے کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل درپیش ہیں۔

کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارت کے اندرونی حالات بالخصوص کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی، مقبوضہ وادی میں مسلسل پابندیوں اور سیاسی قیدیوں کی موجودگی کی وجہ سے دنیا کی نظریں اب زیادہ تیزی سے اس خطے پر مرکوز ہو رہی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ صرف ایک داخلی مسئلہ ہے تو پھر عالمی سطح پر اس حوالے سے بات چیت کیوں ہوتی ہے؟ کیوں اقوام متحدہ میں کشمیر کا ذکر آج بھی موجود ہے؟ کیوں عالمی میڈیا کشمیر میں بھارتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے؟

اس کا ایک ہی جواب ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک بین الاقوامی تنازع ہے اور جب بھی کوئی طاقتور ملک اس تنازع کے حل کے لیے آواز بلند کرے گا، تو اس سے بھارت میں موجود انتہا پسند عناصر کو تکلیف ہو گی۔

متعلقہ مضامین

  • مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق ٹرمپ کا بیان، بھارت میں اشتعال، امریکی پرچم  روند ڈالا
  • ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے بیان پر بھارتی سیخ پا، امریکی پرچم نذر آتش
  • سائنس اور ٹیکنالوجی میں خود انحصاری چین کی ترقی کا  ایک طاقتور انجن ہے، چینی میڈیا
  • بھارت میں 250 مسافروں سے بھرا ائیر انڈیا کا طیارہ تباہ
  • بجٹ 2025-26 : سوشل میڈیا کی آمدنی پر کتنا ٹیکس دینا ہوگا؟
  • چین اور پاکستان 5 جی بیس اسٹیشن کے آلات کی آزمائش کر رہے ہیں، چینی میڈیا
  • ٹرمپ کی منفی پالیسیوں نے ایف 35 کے خریداروں کو پشیمان کر کے رکھدیا ہے، امریکی میڈیا
  • بجٹ عوامی ہوگا یا آئی ایم ایف کا؟‘ سوال پر بلال کیانی کا دلچسپ جواب بجٹ 2025-26 قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے سے قبل اسلام آباد میں وفاقی کابینہ اجلاس کیلئے پہنچنے والے اراکین کے آئندہ مالی سال کے بجٹ سے متعلق اہم بیانات سامنے آئے ہیں۔ عون چوہدری نے اج
  • جنگ کا کوئی جواز نہیں تھا، حملہ بلا اشتعال کیا گیا، شیری رحمان
  • گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو چین کی جانب سے تہذیبوں کے درمیان مکالمے کو فروغ دینے کی ایک اہم کوشش ہے، چینی وزیر خارجہ