حکومت کودی گئی ڈیڈ لائن ختم، اخترمینگل کا مستونگ سے کوئٹہ کیجانب لانگ مارچ کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
کوئٹہ(ڈیلی پاکستان آن لائن)بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا مستونگ میں لک پاس پر 6 روز سے دھرنا جاری ہے۔
لک پاس پر دھرنے کے باعث کراچی کوئٹہ اور تفتان شاہراہ پر ٹریفک معطل ہے۔ تحریک انصاف کا وفد بی این پی کے دھرنے میں پہنچا جس میں سلمان اکرم راجا، علامہ راجہ ناصر عباس اور دیگر صوبائی رہنما شامل تھے۔
بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے خواتین کی رہائی تک احتجاجی دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا اور کہا کہ خواتین کی ماورائے آئین گرفتاریاں قابلِ قبول نہیں، دو دن میں خواتین کو رہا نہ کیا گیا تو کوئٹہ مارچ کریں گے۔
نوبل انسٹیٹیوٹ نے عمران خان کی نوبل انعام کیلئے نامزدگی کا دعویٰ مسترد کردیا
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے لیے بے اختیار حکومتی وفد آیا تھا، بےاختیار بلوچستان حکومت کہیں اور دیکھ رہی ہے۔
بعدازاں بی این پی سربراہ اخترمینگل نے کوئٹہ لانگ مارچ کا اعلان کردیا اور کہا کہ حکومت کودی گئی ڈیڈ لائن ختم ہوگئی لہٰذا دھرنےکے شرکا کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ کرینگے۔
دوسری جانب بی این پی قافلےکو کوئٹہ میں داخلے سے روکنے کیلئے انتظامیہ کے اقدامات جاری ہیں، قومی شاہراہ لکپاس اور دشت میں مختلف مقامات پر خندقیں کھودی جارہی ہیں، مستونگ اور مختلف مقامات کو کنٹینرز لگا کر سیل کیا جارہا ہے۔
عاصم افتخارنے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کا منصب سنبھال لیا
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں سردار اختر مینگل کی قیادت میں بی این پی کا لانگ مارچ وڈھ سے شروع ہوا تھا تاہم مستونگ کے مقام پر راستے بند ہونے پر وہیں دھرنا دیا گیا تھا۔
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: لانگ مارچ بی این پی
پڑھیں:
مغوی اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی بازیاب، خصوصی طیارے کے ذریعے کوئٹہ منتقل
کوئٹہ:بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تمپ سے اغوا ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر محمد حنیف نورزئی کو چار ماہ بعد کامیاب آپریشن کے ذریعے بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ بازیابی کے بعد انہیں وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خصوصی طیارے کے ذریعے تربت سے کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کیچ، بشیر احمد بڑیچ نے میڈیا کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کامیاب ریسکیو آپریشن بلوچستان کی سیکیورٹی فورسز بشمول فرنٹیئر کور (ایف سی)، لیویز فورس، اور کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ کارروائی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ایران سرحد کے قریب خفیہ مقام پر کی گئی۔
یاد رہے کہ اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی کو 4 جون 2025 کو عید کی تعطیلات کے دوران کوئٹہ جاتے ہوئے ٹیگران آباد کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کر لیا تھا۔
وہ اس وقت اپنے خاندان، ڈرائیور اور گن مین کے ہمراہ سفر پر تھے۔ اغوا کار صرف انہیں اپنے ساتھ لے گئے جبکہ دیگر افراد کو چھوڑ دیا گیا۔
واقعے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے قبول کی تھی، جس نے اسے ایک انٹیلیجنس پر مبنی کارروائی قرار دیا تھا۔
ڈی سی کیچ کے مطابق بازیابی کے دوران اغوا کاروں کے ساتھ شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں چند ملزمان ہلاک جبکہ کچھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی کو بازیابی کے فوراً بعد تربت کے سول ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد ڈاکٹروں نے ان کی صحت کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔ اگرچہ جسمانی طور پر وہ محفوظ ہیں تاہم طویل قید کے باعث وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خصوصی طیارے کے ذریعے انہیں کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے جہاں ان کے مکمل علاج اور آرام کے انتظامات کیے گئے ہیں۔
حنف نورزئی بلوچستان سول سروس کے سینئر افسر ہیں جو ماضی میں مختلف اضلاع میں اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
ان کا اغوا بلوچستان میں سرکاری افسران کو درپیش خطرات کی ایک اور مثال ہے۔ حالیہ دنوں میں زیارت میں بھی ایک اسسٹنٹ کمشنر اور ان کے بیٹے کے اغوا کا واقعہ پیش آ چکا ہے۔
مقامی افراد، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ علاقے میں سیکیورٹی اقدامات کو مزید مؤثر بنائے اور سرحد پار عناصر کی مداخلت کو روکا جائے۔
ضلعی انتظامیہ نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے مزید سرچ آپریشنز بھی شروع کر دیے ہیں تاکہ مفرور ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔
حنف نورزئی کی بحفاظت واپسی پر مقامی آبادی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے صوبے میں امن و امان کی بحالی کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق وہ جلد اپنی ذمہ داریوں پر دوبارہ کام شروع کر دیں گے۔