Daily Ausaf:
2025-07-26@14:20:45 GMT

مقبولیت کا زعم احتسابی شکنجے میں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

گزشتہ دنوں فرانس سے ایک اہم خبر آئی ہے۔ اس خبر کا تعلق قانون کی بالادستی اور با اثر سیاسی طبقات کے احتساب سے ہے۔ فرانس میں دائیں بازو کی مشہور لیڈر میری لی پین کو نہ صرف کہ مالی بد دیانتی کے الزامات ثابت ہونے پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ہے بلکہ چار سال قید کی سزا بھی سنا دی گئی ہے۔ اس چار سال کی مدت میں میرین لی پین کسی قسم کی سیاسی سرگرمی اور انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکے گی۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ پاکستان میں بھی اس خبر پر متفرق آرا ء پائی جاتی ہیں۔میرین لی پین سے پہلے یورپ میں مقبول لیڈرز خاص طور پر دائیں بازو کی جماعتوں کی قیادت کو احتساب کے دائرے میں لانے کا رواج بہت کم تھا۔ فرانس میں میرین لی پین کو سزا ملنا اس کا ثبوت ہے کہ دنیا اب بدل رہی ہے، اور انصاف کے شکنجے میں مقبول لیڈر بھی کسے جا رہے ہیں۔ وہ زمانہ اب رخصت ہوا جب لیڈر اپنے اندھے پیروکاروں کے ذریعے ریاستوں کو بلیک میل کرتے تھے۔
ایک زمانہ تھا جب یورپ اور امریکہ میں دائیں بازو کے انتہا پسند اور پاپولسٹ لیڈرز قانون سے بالا تر سمجھے جاتے تھے۔ ان کے بیانیے، عوامی مقبولیت اور میڈیا پر دسترس کے باعث انہیں سزا دینا تو درکنار مقدمہ درج کرانا بھی مشکل ہوتا تھا۔ کم و بیش ایسی ہی صورتحال پاکستان میں بھی بن چکی تھی۔ سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے پیروکار اپنے بانی چیئرمین عمران خان کو قانون اور احتساب سے ماورا سمجھنے لگے تھے۔ رفتہ رفتہ پاکستان میں یہ غیر قانونی رجحان ختم ہونے لگا ۔
عمران خان جیسے مقبول لیڈر کو 190 ملین پائونڈ کرپشن اسکینڈل میں سزا دے کر ایک نئی مثال قائم کی گئی ۔ اس وقت مغربی میڈیا نے اس سزا کو ’سیاسی انتقام‘‘ قرار دینے کی کوشش کی، لیکن آج وہی مغربی معاشرہ فرانس کی میرین لی پین کو فنڈز کی خرد برد پر چار سال قید، جرمانہ اور الیکشن پر پابندی عائد کر کے پاکستان کے نقش قدم پر چلتا دکھائی دے رہا ہے۔
یہ محض اتفاق نہیں بلکہ عالمی سطح پر تبدیل ہوتے احتسابی نظام کے آثار ہیں۔ فعال ریاستیں یہ سمجھ چکی ہیں کہ اگر قانون کا نفاذ سب پر یکساں نہ کیا جائے تو جمہوریت محض ایک تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔
پاپولزم کی سیاست میں عوامی جذبات مشتعل کر کے اپنے قائد کے عیوب اور جرائم کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔قانون کی بالا دستی کو آتشی بیانیے سے چیلنج کیا جاتا ہے۔
عوامی جذبات کو احتسابی عمل کے مقابل کھڑا کیا جاتا ہے۔ریاستی اداروں کو کمزور کر کے بدعنوانی مسلط کی جاتی ہے۔ پاکستان نے عمران خان کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ پاپولسٹ لیڈر ہو یا عام شہری ، دونوں سے اگر جرم سرزد ہوگا تو انہیں یکساں انداز میں سزا دی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد عوامی سطح پر مقبولیت کے عروج کو جا پہنچے تھے ۔ ان کا کہا ہوا ہر لفظ ان کے سیاسی پیروکاروں کے لیے مقدس حکم کاسا درجہ رکھتا ہے۔ ان کے اندھے مقلد یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ان کے قائد سے کوئی جرم یا بشری غلطی سر زد ہو سکتی ہے۔
یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ سابق حکمراں جماعت کے بانی چیئرمین اپنی اعلیٰ کارکردگی یا بہترین حکمت عملی کی وجہ سے عوامی سطح پہ مقبول نہیں ہوئے بلکہ اشتعال انگیز بیانیے اور سیاسی مخالفین کے خلاف الزام تراشی کی بنیاد پر عوام کے جذبات سے کھیلتے رہے ہیں۔ ان کے پیروکار اپنے قائد کے مزاج کے خلاف کسی قانون اور عدالتی حکم کو تسلیم کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔ یہ افسوسناک امر ہے کہ احتساب اور انصاف کے نام پر سیاست میں مقبولیت حاصل کرنے والے سابق وزیراعظم نے اپنے عہد اقتدار میں مقبول زبانی دعوئوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ احتساب، انصاف اور شفافیت کے حوالے سے ان کا عہد اقتدار کسی لحاظ سے بھی مثالی نہیں تھا۔ آج مختلف مالی بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے پیروکار آئین، قانون اور جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ہر قیمت پر اپنے قائد کو قید سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یورپ میں میرین لی پین کو ملنے والی سزا نے ایک مرتبہ پھر یہ پیغام دیا ہے کہ مہذب معاشروں میں مقبولیت اور اعلیٰ عہدے کو بنیاد بنا کر قانون سے استثنا حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
سابق حکمران جماعت کی قیادت اور ان کے کارکنوں کو اس پہلو پر غور ضرور کرنا چاہیے کہ ان کے قائد پر عائد کیے گئے الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لیے صرف قانونی راستہ ہی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ قانون اور عدالت سے ماورا کوئی بھی اقدام آئین سے انحراف اور جمہوری اصولوں سے متصادم ہوگا۔ پاکستان نے سابق وزیر اعظم کے احتساب کے ذریعے نئی مثال قائم کر کے مغربی معاشرے کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ کوئی شہری آئین و قانون سے ماورا ء نہیں ہوتا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: میرین لی پین میں مقبول قانون اور لی پین کو اور ان

پڑھیں:

پنجاب حکومت کو گندم کی قیمتیں مقرر کرنے سے متعلق بنائے گئے قانون پر عملدرآمد کا حکم

لاہور ہائی کورٹ نے گندم کی قیمت مقرر نہ کیے جانے کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ سنادیا۔
عدالت نے پنجاب حکومت کو قیمتوں کےتعین سے متعلق بنائے گئے قانون پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔
عدالتی فیصلے میں محکمہ زراعت کی گندم کے فی من اخراجات کی رپورٹ کو شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق فی من گندم کی لاگت 3 ہزار 533 روپے ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سرکاری اداروں نے سیزن کے دوران آئین کے تحت اپنا کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی اخراجات کو مدنظر رکھ کر فی من قیمت کا تعین کیاگیا۔
عدالت نے نشاندہی کی کہ سرکاری وکیل کے مطابق قیمتوں کے تعین کے لیے قانون بنا دیا گیا ہے تاہم کم زمین والے اور ٹھیکے پر کاشتکاری کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ سرکاری اداروں نے تسلیم کیا ہے کہ گندم خوراک کا ایک بنیادی جزو ہے۔
یاد رہے کہ یہ درخواست صدر کسان بورڈ کی جانب سے 8 اپریل 2025 کو دائر کی گئی تھی جس میں وفاقی اور پنجاب حکومت سمیت دیگر اداروں کو فریق بنایا گیا تھا۔

Post Views: 9

متعلقہ مضامین

  • بھارتی پارلیمنٹ میں بہار متنازع قانون پر شدید احتجاج، کانگریس کا انتخابی بائیکاٹ کا عندیہ
  • بھارتی پارلیمنٹ میں بہار متنازع قانون پر شدید احتجاج،  کانگریس کا  انتخابی بائیکاٹ کا عندیہ
  • پنجاب حکومت کو گندم کی قیمتیں مقرر کرنے سے متعلق بنائے گئے قانون پر عملدرآمد کا حکم
  • پنجاب حکومت گندم کی قمیتیں مقرر کرنے کے قانون پر عملدرآمد کرے، لاہور ہائیکورٹ
  • لاہورہائیکورٹ کا پنجاب حکومت کو گندم کی قمیتیں مقررکرنے سے متعلق قانون پرعملدرآمد کا حکم
  • اسمبلی سے منظور ہونے سے پہلے ٹریفک وارڈن نے قانون کا نفاذ کیسے کردیا؟ رکن پنجاب اسمبلی امجد علی جاوید
  • طویل عرصے سے مفرور پی ٹی آئی رہنما مراد سعید کیا سینیٹ کا حلف اٹھائیں گے؟
  • شہباز شریف سے مولانا فضل الرحمان کی ملاقات، قانون سازی پر تحفظات سے آگاہ کیا
  • سینیٹ الیکشن خوش اسلوبی سے ہوئے: بیرسٹر گوہر
  • تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پی ٹی آئی کا ملک میں آئین و قانون کی بحالی، منصفانہ انتخابات کیلئے نئی سیاسی تحریک شروع کرنے کااعلان