Express News:
2025-11-03@19:19:50 GMT

نئی عالمی تجارتی کشمکش کے مضمرات

اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران یوم آزادی کے موقع پر یورپی یونین اور 46 ممالک پر نئے تجارتی محصولات کے نفاذ کا اعلان کیا۔

امریکی صدر نے کہا کہ حاصل شدہ محصولات کو امریکا میں ٹیکس کی شرح کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یورپی یونین پر 20 فیصد اضافی ٹیکس، چین پر 34 فیصد اور جاپان پر 24 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا۔ بھارت پر 26 فیصد، اسرائیل پر 17 فیصد اور برطانیہ پر 10 فیصد ٹیرف لگایا جائے گا، جب کہ اب پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔

 کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محصولات بڑھانے کے لیے عالمی تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے۔ امریکی صدر کے بظاہر یہ اقدامات امریکی تجارتی تعلقات میں عدم توازن کو درست کرنے اور ملکی صنعتوں کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے ہیں، تاہم ان فیصلوں سے عالمی قیمتوں پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جب کہ امریکی کاروباری شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

ماہرین اقتصادیات خبردار کر رہے ہیں کہ ان محصولات کے نتیجے میں تجارتی جنگ چھڑ سکتی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بڑے امریکی تجارتی شراکت داروں کے ساتھ ایک نئی تجارتی جنگ امریکا اور عالمی نمو کو تباہ کردے گی، جب کہ صارفین اور کمپنیوں، دونوں کے لیے قیمتیں بڑھنے کا سبب بن جائے گی۔ متعدد امریکی تجارتی شراکت داروں اور اتحادی ممالک نے اس تجارتی پالیسی کو پسند نہیں کیا ہے، جب کہ جوابی ٹیرف لگائے جانے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں، جس سے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسی نے دنیا کی بڑی معیشتوں کے درمیان جنگ جیسا ماحول بنا دیا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس سے عالمی ترقی سست پڑسکتی ہے اور افراط زر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بظاہر صدر ٹرمپ کے فیصلے کے اثرات پاکستان تک نہیں پہنچ رہے لیکن ماہرین اس سلسلے میں ایک محتاط پالیسی کی ضرورت پر بات کر رہے ہیں جو صدر ٹرمپ کے دور میں پاک امریکا تجارت میں آنے والے ممکنہ رکاوٹوں سے نمٹ سکے۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان علاقائی تجارت کو مضبوط بنائے اور کینیڈا و میکسیکو میں امریکی مہنگی اشیا کی وجہ سے پیدا مسابقتی گنجائش کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔

 صدر ٹرمپ کی خارجہ، داخلی اور تجارتی پالیسی نے عالمی سطح پر کشیدگی پیدا کر دی ہے اور ممالک اپنی خود مختاری کو برقرار رکھنے کی فکر میں متبادل طریقوں پر غورکررہے ہیں۔

دنیا کے کئی ممالک میں ڈالرز کے بجائے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت کا عمل کچھ سالوں سے بڑھا ہے، سب سے پہلے چین نے دیگر ممالک کے ساتھ اپنی کرنسی میں تجارت شروع کی، چین نے اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کی پالیسی اس وقت اختیارکی جب امریکا کی مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ ہو رہا تھا، لٰہذا یورپ نے بھی اسی سمت میں قدم بڑھایا اور یورپی یونین نے یوروکو عالمی تجارت میں ایک مضبوط کرنسی کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، تاہم یہ رجحان تیزی سے مقبول ہوا اورکئی ممالک نے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارتی معاہدے کیے تاکہ ڈالرز پر انحصارکم کیا جاسکے۔

دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مشتمل برکس گروپ جن میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ ہیں، یہ گروپ اقتصادی، سیاسی اور تجارتی تعاون کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے اور عالمی سطح پر ڈالرکے بجائے متبادل مقامی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کو صدارت سنبھالنے کے بعد جب بھی موقع ملا، وہ برکس ممالک کو بھاری ٹیرف عائد کرنے سے ڈراتے رہے ہیں، صدرٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ برکس ممالک خود کو ڈالر سے دورکررہے ہیں اور ہم دیکھتے ہی رہیں گے، ان نام نہاد حریف ممالک کو واضح طور پر وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ طاقتور امریکی ڈالرکو بدلنے کے لیے نہ تو نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی کسی دوسری کرنسی کی حمایت کریں گے، اگر ایسا نہ ہوا تو انھیں 100 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 یہی نہیں بلکہ انھیں امریکا کی عظیم مارکیٹ میں اپنا سامان بیچنا بھی بھولنا پڑے گا، یہ ممالک کوئی اور احمق ملک تلاش کرسکتے ہیں اور انھیں امریکا کو بھی الوداع کہنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کی 150 فیصد ٹیرف کی دھمکی نے برکس گروپ کو توڑ دیا ہے۔ عالمی تناظر میں اس دھمکی کے دور رس نتائج نکلیں گے، کیونکہ امریکا پرکوئی بھروسہ نہیں کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے اقدامات برکس ممالک خاص کر روس اور چین کو ایسے اقدامات کرنے پر مجبورکرسکتے ہیں جس سے امریکا کی معاشی بالادستی کو شدید خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

تیزی سے متحرک عالمی منظرنامے میں، براعظم ایشیا کو تبدیلی کا سامنا ہے، جو معاشی انضمام کے مشترکہ عزم کی وجہ سے ہے اور یہ خطے کی معاشی ترقی و عالمی ترقی کے لیے انتہائی اہم بھی ہے۔ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل براعظم ایشیا قوت خرید کے لحاظ سے عالمی پیداوارکا تقریباً ایک تہائی حصہ رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف نے ایشیا کے لیے 2025 کے لیے چار اعشاریہ چار فیصد شرح نمو کا تخمینہ لگایا ہے جب کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایشیا کے لیے اپنے چار اعشاریہ نو فیصد نموکے برقرار رہنے کی پیشگوئی کی ہے، جس سے عالمی معاشی توسیع کے ایک اہم محرک کے طور پر ایشیائی خطے کے کردارکی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس امید افزا نکتہ نظر کے باوجود، ایشیا کو مسلسل جغرافیائی سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں بڑھتی ہوئی تجارتی رکاوٹیں، عالمی تناؤ اور معاشی غیر یقینی کی صورتحال جیسے محرکات شامل ہیں۔ یہ سب وہ عوامل ہیں جو خطے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

 ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ جغرافیائی سیاسی تناؤکے درمیان، چین کی اقتصادی رفتار خطے میں استحکام کی علامت بنی ہوئی ہے۔ داخلی چیلنجوں اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نئے سرے سے دباؤ کے باوجود چین کی حکومت نے واضح اور مستقل پالیسی اپنا رکھی اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار سست نہ پڑے۔ چین مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کی سرمایہ کاری کو وسعت دینے، بنیادی ڈھانچے اور تجارتی رابطوں کو مضبوط بنانے کے امکانات بھی پیش نظر رکھے ہوئے ہے۔

 ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ امریکی حکومت درآمد کنندگان پرجو ٹیکس عائد کرتی ہے، اسے بالآخر امریکی صارفین ہی برداشت کرتے ہیں۔ حقائق نے بار بار ثابت کردیا ہے کہ تجارتی جنگ اور ٹیرف جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہے اور تجارتی تحفظ پسندی صرف ’’ نقصان‘‘ لاتی ہے، نہ کہ تحفظ۔ بیشتر ماہرین اقتصادیات کے مطابق اس خطرناک تجارتی اقدام سے معیشت کے بدحال ہو جانے اورکئی دہائیوں پرانے اتحادوں کو بھاری نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

گرتی ہوئی اسٹاک مارکیٹ یا صارفین کی ناراضگی کے بارے میں انتباہی علامات کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا پسند نہیں کیا۔ محصولات کے حوالے سے بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاروں، صارفین اورکاروباری اداروں کا اعتماد ختم کر رہی ہے۔

فیڈرل ریزرو بینک آف اٹلانٹا کے ماہرین اقتصادیات نے کہا کہ ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ کارپوریٹ شعبے کے مالیاتی سربراہوں کو توقع ہے کہ اس سال قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور نئے کارکنوں کی بھرتی اور ترقی میں کمی ہوگی۔ پریشان سرمایہ کاروں نے ممکنہ نقصانات کے مدنظر اپنے اسٹاک کو جارحانہ طور پر فروخت کرنا شروع کردیا ہے۔ فروری کے وسط سے تقریباً پانچ ٹریلین امریکی ڈالرکا صفایا ہوچکا ہے۔ ٹرمپ کے اس اقدام سے ممکنہ طور پر ہر طرف سے جوابی کارروائی کا خدشہ بھی ہے۔ اس کے باوجود وائٹ ہاؤس نے اعتماد کا اظہارکیا ہے۔

 گو ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’ سب سے پہلے امریکا‘‘ کے نعرے کو عملی شکل دینے کی بھرپورکوشش کی ہے۔ ایک مضبوط رائے یہ بھی ہے کہ اس سے دنیا بھر میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے، اگر چین، یورپ اور دیگر ممالک تجارتی محاذ پر ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو امریکی معیشت کا عالمی تجارتی نظام میں کردار کم ہو جائے گا۔ مستقبل میں امریکا اور دیگر ممالک نئے تجارتی معاہدے کریں گے جس سے موجودہ حالات بدل جائیں گے اور نئی تجارتی پالیسیاں بننے لگیں گی۔ عالمی تجارت کو پر امن رکھنے کے لیے عالمی تنازعات کا حل بہت ضروری ہے، اگر جنگوں اور تنازعات کا ماحول برقرار رہا تو عالمی تجارت بھی متاثر ہوتی رہے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ماہرین اقتصادیات میں اضافہ ہو عالمی تجارت تجارتی جنگ ڈونلڈ ٹرمپ اور تجارتی امریکی صدر کے باوجود فیصد ٹیرف سے عالمی ٹرمپ کے جائے گا کے ساتھ رہے ہیں سکتا ہے ہے اور کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ

غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال، فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پرکسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہا ہے۔

دنیا کے بعض صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اس کام پر لگایا گیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزورکیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لیے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں، وہ کیے جائیں۔

 حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شایع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ تشویش، اس لیے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرستی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔

جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انھوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے، لٰہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر کے عوام کو اس لیے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس سے بڑی پریشانی مسلمانوں کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملے پر غورکیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔

ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وارکیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔

لہٰذا امریکی صدرکے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔

امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے؟

کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں، لٰہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل غلامی کے مترادف ہے، اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزورکریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی شکست ہوگی۔

ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے، اگرکسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔

امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے’’ فریبِ امن‘‘ منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔

سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چین ، روس ، شمالی کوریا اور پاکستان سمیت کئی ممالک جوہری ہتھیاروں کے تجربات کررہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ
  • ’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
  • پاکستان میں اے آئی کا استعمال 15 فیصد سے بھی کم، یو اے ای اور سنگاپور سرفہرست
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • غزہ کیلیے امریکی منصوبے کی حمایت میں مسلم ممالک کا اجلاس کل ہوگا
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  • غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات، اقتصادی و تجارتی تعاون پر تبادلہ خیال