Express News:
2025-09-18@21:44:15 GMT

شاعری ، عظیم یونانی اساتذہ کی نظر میں

اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT

تمام اصنافِ ادب میں شاعری سب سے ممتاز ہے۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں تخیل اور وجدان کا بہت عمل دخل ہے ،سقراط،افلاطون ،ارسطو، سوفوکلیز،ہومر اور لان جائے نس فکرِ انسانی کی تاریخ میں علم و دانش کے عظیم شارح سمجھے جاتے ہیں۔ افلاطون تمام فلسفیوں میں بہت ممتاز مقام کا حامل تھا۔وہ 17سال کی عمر میں عظیم فلاسفر و استاد سقراط کا شاگرد بنا۔

اس کے بعد اس نے ایتھنز میں اپنی اکیڈمی بنائی جہاں اس نے کوئی 40سال تک علوم فلسفہ کا درس دیا۔ اکیڈمی میں ارسطو اس کا شاگرد رہا۔81سال کی عمر میں افلاطون کی موت ایک شادی میں شرکت کے دوران ہوئی۔اس کی وفات پر تمام ایتھنز نے ماتم کیا۔افلاطون ایک بہت اچھے کردار کا حامل فلاسفر تھا۔وہ اخلاق سے گری ہوئی ہر چیز کا مخالف تھا۔اس نے اپنے استاد سقراط کے خیالات کو بے پناہ وسعت دی۔اس کی کتاب ری پبلک ایک مثالی ریاست سے متعلق ہے۔

 افلاطون کی نثر بالکل شاعری کی طرح ہے۔وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ اسے شاعری اور شاعروں سے محبت ہے، وہ ہومر کی بہت تعریف بھی کرتا تھا۔اس کے باوجود عظیم لوگوں میں وہ پہلا شخص ہے جس نے شاعری کی مخالفت کی اور کہا کہ شاعری جھوٹ اور فریب کی ماں ہے۔اس نے کہا کہ اس کی تجویز کردہ مثالی جمہوری ریاست میں شاعر کے لیے کوئی جگہ نہیں، کیونکہ شاعری اخلاقیات کے منافی ہے۔اس کے خیال میں شاعری جذبات کو بھڑکاتی ہے۔شاعری کسی کو بھی عمدہ شہری نہیں بنا سکتی۔

شاعری میں دروغ گوئی بہت زیادہ ہوتی ہے۔شاعری کی بنیاد نقالی پر ہے اور تمام شاعر نقال ہوتے ہیں۔ شاعر حقیقت سے دور لے جاتے اور سفلی جذبات کو ابھارتے ہیں جس کی وجہ سے نفسِ انسانی کا مضبوط اور پاکیزہ عقلی حصہ کمزور ہو جاتا ہے ،شاعری انسان کے کردار و اخلاق کو تباہ کر دیتی ہے،جب کہ عقلی سچائی سب سے بڑی سچائی ہے۔افلاطون ان شعراء کو قابلِ برداشت سمجھتا ہے جو معلمِ اخلاق ہوں ۔چونکہ شاعری جنون اور دیوانگی کے زیرِ اثر کی جاتی ہے اس لیے شاعری انسان کو جنون کی طرف لے جاتی ہے۔

افلاطون شاعری سے اس لیے بھی الرجک ہے کہ یہ سچائی کی علمبردار نہیں ہے چنانچہ شاعری کو بے اخلاقی کے الزام سے بچانے کے لیے اس کے چاہنے والوںنے Theory of Inspiration کو فروغ دیا۔اس نظریہ کے مطابق شاعری کی زبان لوگوں کی زبان سے جدا ہوتی ہے کیونکہ شاعر صاحبِ جنون ہوتا ہے۔وہ شاعری کو الہامی کیفیت میں لکھتا ہے اور وہ عام اخلاقی اصولوں سے مبرا ہوتا ہے۔

افلاطون نے الہامی نظریہ کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے اور کہتا ہے کہ شاعر نمود و نمائش کے شکنجے میں جکڑا ہوتا ہے اور اصلیت و عملیت سے بے خبر ہوتا ہے۔حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ عقل ہے جو انسان کو رفعتوں اور بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن شاعر جذبات سے مغلوب ہو کر لکھتا ہے۔ جذبات کا مرکز عقل نہیں بلکہ بدن ہے اور یہ بدن حیوانی و جبلی تحریکات سے بھرا ہوا ہے۔عقل چونکہ بدن سے بالاتر ہے،اس لیے عقل کی ہی رہنمائی میں زندگی کا سفر کرنا چاہیے لیکن اس کا کیا کیجیے کہ شاعری عقل کو ناپختہ اور مصلحت اندیش سمجھتی ہے۔شاعری دماغ میں ہلچل پیدا کر کے عقل ، اور بدن کے توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔

شاعری گھٹیا انسانی جذبات کو نہ صرف اپیل کرتی ہے بلکہ انھیں استعمال میں لاتی ہے۔اس طرح افلاطون کے مطابق شاعری سفلی جذبات کو بھڑکا کر عملی و عقلی توازن کو بگاڑتی ہے اور عدل و خیر کے تمام راستوں کو بند کر دیتی ہے۔افلاطون کے مطابق انسانی مسرت کے لیے ضروری ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھا جائے اورعقل کو مضبوط کیا جائے۔اس کی مثالی ریاست میں شاعروں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ شاعر شہرت حاصل کرنے کی تگ و دو میں جذبات کو بھڑکاتا ہے ۔ شاعری عقل کی Ascendency اور Aristrocracyمیں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

افلاطون کے عظیم شاگرد ارسطو کے شعر و ادب کے بارے میں اپنے استاد سے اختلافات تھے۔تنقید کے میدان میں ارسطو وہ پہلا فرد ہے جس نے بہت گہرا اثر ڈالا تحریکِ احیائے علوم Renissanceسے 19ویں صدی تک اس کی بات کو ادب میں حتمی تصور کیا جاتا تھا ۔بیسویں صدی میں اس کے نظریات پر بہت تنقید ہوئی لیکن اس کے باوجود اس کے مقام اور مرتبہ میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔افلاطون کے برعکس ارسطو نے کہا کہ شعر کارآمد،با اخلاق اور معاشرے کو سنوارنے کے کام آ سکتا ہے۔

ارسطو کے مطابق یہ صحیح ہے کہ فنون کی بنیاد نقالی ہے لیکن یہ کھوکھلی نقالی نہیں۔اس میں شاعر کا اپنا تخیل اور حقائق بھی کارفرماہوتے ہیں اور بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔شاعر کی حقیقت ارسطو اس طرح سامنے لاتا ہے کہ شاعری کا عمل مورخ کے عمل سے زیادہ سنجیدہ اور با مقصد ہے۔ارسطو کہتا ہے کہ شاعر تخلیق کرتا ہے اور مورخ صرف واقعہ بیان کرتا ہے۔تاریخ کو تخیل کی مدد سے جہانِ نو تخلیق کرنے کی اجازت نہیںہے۔مورخ ماضی کے حالات تک محدود ہے جب کہ شاعر ماضی،حال اور مستقبل میں تخیل سے رنگ بھرتاہے۔شاعر وہ واقعات بھی بیان کر سکتا ہے جو تاریخ میں نہ ہوں بالکل فرضی ہوں مگر پھر بھی شاعر کے بیان میں زیادہ چاشنی،شاعرانہ سچائی اور اصلیت ہوتی ہے۔ اس نظریہ کے لیے ارسطو نے لا آف پروبیبلیٹی کو بنیاد بنایا ہے۔

شاعر کا فطرتِ انسانی کا گہرا مطالعہ،اس کا وسیع تر علم اس کو عام حقیقتوں کو نظر میں رکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔شاعرکے لیے کسی ایک موضوع کی پابندی ضروری نہیں،اس لیے ارسطو شاعری کو تاریخ سے برتر جانتا ہے۔ارسطو کے شاعری کے بارے میں نظریات نے پوری دنیا پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔بعض دانشوروں نے یہاں تک کہا ہے کہ ارسطو نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے جوش و خروش میں آ کر حد سے تجاوز بھی کر جاتا ہے۔یوںاس نے شاعری اور تاریخ کو خواہ مخواہ حریف بنا دیا ہے۔حقیقت میں یہ ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ فن و ادب کے دو الگ الگ دھارے ہیں۔ارسطو کا اختلاف افلاطون کے شاعری سے متعلق نظریے سے تھا۔ارسطو کے موقف کی بنیاد فلسفہ پر ہونی چاہیے تھی۔اس نے شاعری کا تاریخ سے جو موازنہ کیا ہے وہ کسی قدر بے محل لگتا ہے۔

یونان میں سقراط،افلاطون اور ارسطو کے بعد ایک اور عظیم نقاد Longinusلان جائے نس پیدا ہوا۔ اس کی اصل شناخت کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔اتفاقاً اس کا رسالہ زمانے کی دست برد سے محفوظ رہا۔اس کے کام کی بدولت زمانے کو تنقید کے نئے اصول ملے۔اس کے رسالے کا ترجمہOn the Sublimeکے ٹائیٹل سے ہوا۔اس کے مطابق ادب،ادیب اور قاری تینوں ادبی مسئلے کی بحث کے لازمی اجزا ہیں۔لان جائے نس کے بقول اعلیٰ و ارفع ادب سامع و قاری کو تخیل و جذباتی تجربے کی اونچی حد پر لے جاتا ہے۔یہ ایک ایسا شاعر و ادیب کرتا ہے جس کے خیالات بلند ہوں۔

جذبے کی شدت کے علاوہ اسے زبان و بیان پر حد درجہ عبور اور ملکہ حاصل ہو۔ایسا ادب قاری کو وجد میں لا سکتا ہے۔لان جائے نس نے بلاغت کے خطیبانہ وسائل اور شاعری کی جذباتی اساس کو باہم ملا کر ادب اور ادبی مطالعہ کا ایک نیا راستہ وضع کیا۔اسکاٹ جیمز نے اسے پہلا رومانوی نقاد قرار دیا۔لان جائے نس کی وفات کے بعد ادبی تنقید کی دنیا میں بڑا عرصہ خلا رہا،پھر تیرھویں صدی میں دانتے نے اس خلا کو پر کیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: لان جائے نس ارسطو کے شاعری کی کہ شاعری کے مطابق جذبات کو کرتا ہے جاتا ہے ہوتا ہے ہے شاعر کہ شاعر ہے اور اس لیے کے لیے

پڑھیں:

شہید ارتضیٰ عباس کو خراجِ عقیدت؛ معرکۂ حق میں عظیم قربانی کی داستان

معرکۂ حق کے دوران بھارت کی بزدلانہ جارحیت کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں قربان ہوئیں، جن میں ایک کمسن اور معصوم شہید ارتضیٰ عباس بھی شامل ہے۔

ارتضیٰ عباس ان نہتے شہریوں میں سے تھا جنہیں بھارت نے نام نہاد ’’آپریشن سندور‘‘ کے دوران اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔

شہادت کے وقت ارتضیٰ عباس کے والد، لیفٹیننٹ کرنل ظہیر عباس، خود لائن آف کنٹرول کے محاذ پر دشمن کے خلاف صف آراء تھے۔ کمسن بیٹے کی شہادت اُن کے فرائض کے آڑے نہ آئی اور وہ بدستور محازِجنگ پر موجود رہے۔

یہ جذبہ اس بات کی گواہی ہے کہ دشمن کی بزدلانہ کارروائیاں نہ تو ہماری عوام کے حوصلے پست کر سکتی ہیں اور نہ ہی ہمارے جوانوں کے عزم کو متزلزل کر سکتی ہیں۔

قوم معصوم شہید ارتضیٰ عباس کو سلامِ عقیدت پیش کرتی ہے، جن کی قربانی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 22ستمبر: عظیم اسلامی مفکر، مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا 46واں یوم وفات
  • چین کا ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘: ایک عظیم جہاز کے پرسکون سفر کا نقشہ
  • فلم “731” لوگوں کو کیا بتاتی ہے؟
  • شہید ارتضیٰ عباس کو خراجِ عقیدت؛ معرکۂ حق میں عظیم قربانی کی داستان
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا آزاد کشمیر کے مختلف تعلیمی اداروں کا دورہ، طلبہ، اساتذہ کیساتھ گفتگو
  • مظفرآباد، مرکزی جامع مسجد میں عظیم الشان سیرت النبیؐ کانفرنس
  • چوتھی نصاب تعلیم کانفرنس ڈیرہ مراد جمالی میں منعقد ہوگی، علامہ مقصود ڈومکی
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ خصوصی نشست
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ نشست
  • اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو