رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے علاقائی دہشتگرد نیٹ ورکس بشمول ٹی ٹی پی اور القاعدہ کیساتھ تعلقات سرحد پار سمگلنگ روکنے کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ اس منصوبے کے ابتدائی نتائج میں مشرقی افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اسلحے کی مارکیٹوں کی موجودگی کو دستاویزی شکل دی گئی تھی، جس میں سرحد پار سے جاری ہتھیاروں کی سمگلنگ کی نشاندہی کی گئی تھی، جس میں مقامی طالبان بھی شامل تھے۔ اسلام ٹائمز۔ افغانستان میں سوویت اور نیٹو افواج کی جانب سے چھوڑے گئے ہتھیار اب بھی اس کے مشرقی صوبوں کیساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی اضلاع میں بھی قابل رسائی ہیں، کیونکہ کابل کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں گولہ بارود کے غیر قانونی بہاؤ کو روکنے کیلئے انتہائی ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ پاکستان کے انگریز اخبار ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق انکشاف کیا گیا ہے کہ غیر رسمی اسلحے کی سمگلنگ میں پرانے ہتھیاروں کیساتھ ساتھ سابق افغان نیشنل ڈیفنس اور سکیورٹی فورسز کو فراہم کیے جانیوالے ساز و سامان سے حاصل ہونیوالا مواد بھی شامل ہے۔ جنیوا سے تعلق رکھنے والی تنظیم اسمال آرمز سروے کی جانب سے شائع ہونے والی اس تحقیق میں طالبان حکومت کے دور میں افغانستان میں اسلحے کی دستیابی کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔

یہ رپورٹ 2022 سے 2024 کے درمیان افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں غیر رسمی مارکیٹوں میں چھوٹے ہتھیاروں، ہلکے اسلحے، لوازمات اور گولہ بارود کی دستیابی اور قیمتوں کے بارے میں کی جانیوالی فیلڈ تحقیقات پر مبنی ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ طالبان کے برسراقتدار آنے اور سابقہ حکومت کے ہتھیاروں کے ذخیروں پر قبضے کے 3 سال سے زائد عرصے کے بعد، حکام نے کمانڈروں پر کنٹرول کو مضبوط کیا ہے اور شہریوں اور نجی کاروباری اداروں کی ہتھیاروں تک رسائی کو محدود کر دیا ہے۔تاہم نچلی سطح کے طالبان عہدیداروں کی خاموش منظوری کیساتھ سمگلنگ جاری ہے اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے نامزد دہشتگرد گروہوں بشمول کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کو مسلسل اسلحہ فراہم کرنے کیساتھ ساتھ بین الاقوامی منڈیوں میں روایتی ہتھیاروں کے نظام کے حصول کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے علاقائی دہشتگرد نیٹ ورکس بشمول ٹی ٹی پی اور القاعدہ کیساتھ تعلقات سرحد پار سمگلنگ روکنے کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ اس منصوبے کے ابتدائی نتائج میں مشرقی افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اسلحے کی مارکیٹوں کی موجودگی کو دستاویزی شکل دی گئی تھی، جس میں سرحد پار سے جاری ہتھیاروں کی سمگلنگ کی نشاندہی کی گئی تھی، جس میں مقامی طالبان بھی شامل تھے۔ سمگلروں کے ایک مستحکم نیٹ ورک کے ساتھ اس سرحد پر طویل عرصے سے سمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے، طالبان شورش کے دوران اکثر اسمگلروں سے ہتھیار خریدتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اور ہمسایہ ملک پاکستان میں اسلحے کی دستیابی اور قیمتوں کی حرکیات میں 2021 کے اواخر سے نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ افغانستان کے صوبوں میں قیمتوں میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا جبکہ پاکستان میں قیمتیں مستحکم رہیں۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ایک امریکی ایم 4 نیٹو اسالٹ رائفل کی قیمت ارگن (پکتیکا) میں 2219 ڈالر سے لے کر اسپیرا (خوست) میں 4817 ڈالر تک تھی۔ اس کے باوجود ننگرہار میں قیمتیں خوست کے برابر تھیں، جہاں امریکی ایم 4 رائفل کی کم ترین قیمت 4379 ڈالر تھی جبکہ کلاشنکوف طرز رائفل کی زیادہ سے زیادہ قیمت 1386 ڈالر تھی۔ پاکستانی سرحد کے قریب ننگرہار کے دیہی ضلع دربابا میں امریکی ایم 4 رائفل 3722 ڈالر میں فروخت ہورہی تھی اور مقامی سطح پر تیار کردہ کلاشنکوف طرز کی رائفل218 ڈالر میں فروخت کی جا رہی ہیں۔ محققین نے پایا کہ اس عرصے کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں میں نیٹو اور سوویت طرز کے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی قیمتیں نسبتاً مستحکم رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جاری فوجی آپریشن ’عزم استحکام‘ سے اگرچہ ہتھیاروں کی قیمتوں پر براہ راست اثر نہیں پڑا، لیکن مقامی ذرائع نے عندیہ دیا کہ اسلحے کے ڈیلر گرفتاریوں اور اسلحے اور گولہ بارود کی ضبطی کے خدشات کی وجہ سے مقامی مارکیٹوں میں نیٹو ہتھیاروں کی کھلے عام نمائش سے گریز کر رہے ہیں۔

تحقیق میں ہتھیاروں سے متعلق کچھ مخصوص رجحانات سامنے آئے، مثال کے طور پر ننگرہار اور کنڑ میں 2022 کے آخر سے 2024 کے وسط تک ایم 4 رائفلوں کی قیمت میں تقریباً 13 فیصد اضافہ ہوا، جس کی اوسط قیمت 1،787 ڈالر سے بڑھ کر 3،813 ڈالر ہوگئی۔ اسی دوران ایم 16 رائفلز کی فروخت 38 فیصد اضافے کیساتھ 1020 ڈالر سے بڑھ کر 2434 ڈالر ہوگئی۔ یہ اضافہ کم رسد، بڑھتی ہوئی طلب، یا دونوں کے امتزاج کی عکاسی کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس، اے کے پیٹرن رائفلز اور آر پی جی پیٹرن لانچرز کی قیمتوں میں اضافہ نسبتاً معمولی تھا، جبکہ چینی ٹائپ 56 رائفلز کی قیمتوں میں ممکنہ طور پر مارکیٹ کی دستیابی میں اضافے یا کم طلب کی وجہ سے قدرے کمی آئی۔ تاہم نائٹ ویژن ڈیوائسز کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور یہ اوسطاً 2575 ڈالر سے کم ہو کر 781 ڈالر رہ گئی ہے جو تقریباً 70 فیصد کمی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: افغانستان اور پاکستان میں اسلحے کی ہتھیاروں کی پاکستان میں پاکستان کے علاقوں میں گولہ بارود کی دستیابی قیمتوں میں کی جانب سے کی قیمتوں گیا ہے کہ سرحد پار گئی تھی کی قیمت ڈالر سے

پڑھیں:

افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد

قابل (ویب ڈیسک )پاکستان کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، ذبیح اللہ مجاہد
افغانستان کی طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔

افغان خبر رساں ادارے طلوع نیوز کو انٹریو میں ترجمان طالبان نے اس عمل کو افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ جس طرح پاکستان یہ مطالبہ کرتا ہے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہ ہو، اسی طرح ہم نے بھی استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان سے کہا ہے کہ وہ اپنی زمین اور فضائی حدود افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔

ترجمان طالبان نے بتایا ’’یہ درست ہے کہ امریکی ڈرون افغانستان کی فضاؤں میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ ڈرونز پاکستانی فضائی حدود سے گزر کر آتے ہیں۔ یہ ناقابلِ قبول ہے۔

انھوں نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ کچھ عناصر جو ماضی میں افغانستان کے مخالف رہے یا بگرام پر قابض ہونے کے خواہاں تھے اب خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ترجمان طالبان نے کہا کہ یہ قوتیں براہِ راست سامنے نہیں آتیں بلکہ دوسروں کے ذریعے اشتعال انگیزی اور دباؤ ڈالتی ہیں۔ ہم کسی بھی سازش کے مقابلے میں مضبوطی سے کھڑے ہیں اور خطے میں کسی غلط عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

استنبول مذاکرات سے متعلق انھوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ دوحہ اور استنبول کی ملاقاتوں میں پاکستان کا مؤقف یہی رہا کہ ٹی ٹی پی کو قابو کیا جائے جو پاکستان میں داخل ہوکر کارروائیاں کر رہے ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد کے بلوچ نے طالبان وفد نے پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جاتی اور پاکستان کے اندر کے معاملات پاکستان کو خود دیکھنا ہوں گے۔

خیال رہے کہ آج ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں افغانستان میں ڈرون حملوں کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ہمارا امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔

انھوں نے امریکی ڈرونز کے پاکستان سے افغان فضائی حدود میں جانے کے الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم نے خود اب تک کوئی باضابطہ شکایت بھی نہیں کی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟
  • فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں‘ طالبان
  • امریكی انخلاء كیبعد ہی ملک كو ہتھیاروں سے پاک کیا جا سکتا ہے، عراقی وزیراعظم
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں، طالبان کا الزام
  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں، طالبان کا الزام
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں؛ طالبان کا الزام
  • چین ، روس ، شمالی کوریا اور پاکستان سمیت کئی ممالک جوہری ہتھیاروں کے تجربات کررہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ
  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان