جماعت اسلامی کی تاریخی جدوجہد سے بجلی کی قیمت کم ہوئی، حافظ نعیم
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
کراچی:
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ بجلی قیمتوں میں کمی جماعت اسلامی کی تاریخی و عوامی جدوجہد، 14 روزہ پنڈی دھرنے اور حکومت کا مسلسل تعاقب کرتے رہنے کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
جمعہ کو ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حافظ نعیم نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے 7.
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ ناجائز ٹیکسز اور ظالمانہ سلیب سسٹم ختم کیا جائے، 1994 سے تمام آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے اور کیپیسٹی چارجز کے نام پر اربوں روپے وصول کرکے جن لوگوں نے عوام کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے ان کو بے نقاب کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرول عالمی منڈی میں سستی ترین سطح پر ہے لیکن ملک میں قیمتیں کم نہیں کی جارہی ہیں، ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں بھی فوری کمی کی جائے اور پیٹرولیم لیوی کے ذریعے سے جو اضافی وصولی کی جارہی ہے وہ بند کی جائے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی کے پنڈی دھرنے، 28 اگست کو تاریخی ہڑتال اور عوامی جدوجہد و مزاحمت میں شریک ہونے والے تمام لوگوں، تاجروں، عوام اور کارکنوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، بجلی و پیٹرول کی قیمتوں میں کمی اور عوام کے حق کے لیے 7 اپریل کو لاہور میں مشاورت کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے اور پرامن جدوجہد و مزاحمت جاری رکھیں گے۔
پریس کانفرنس میں مرکزی نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی، امیر کراچی منعم ظفر خان، سیکریٹری کراچی توفیق الدین صدیقی، ڈپٹی سیکریٹری کراچی عبد الرزاق خان، رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق، سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری، پبلک ایڈ کمیٹی کے نائب صدر عمران شاہد، سینئر ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات عمران شاہد و دیگر بھی موجود تھے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی قیمتوں میں حافظ نعیم نے کہا کہ
پڑھیں:
میئر کراچی کی گھن گرج!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-2
کراچی آج جس صورتحال سے دوچار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، ملک کے اقتصادی پہیے کو رواں دواں رکھنے والے اس شہر کے مسائل و مشکلات کو مسلسل نظر انداز کرنے کے نتیجے میں روشنیوں کا شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی تباہی، ٹرانسپورٹ کے نظام کی زبوں حالی و بربادی، سڑکوں کی خستہ حالی، واٹر ٹینکرز اور ڈمپرز سے شہریوں کی ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات، سیوریج کے نظام کی خرابی، کچرا کنڈیوں سے اٹھتے ہوئے تعفن کے بھبکے، بے ہنگم ٹریفک، پانی کا مصنوعی بحران، جابجا کھلے مین ہول، اربن فلڈنگ، سیوریج لائن کا پانی کی لائنوں سے ملاپ، برساتی نالوں کی عدم صفائی، تجاوزات کی بھرمار، فٹ پاتھوں پر پتھارے داروں کا قبضہ اور صفائی ستھرائی کی مخدوش صورتحال شہر کے اختیارات پر قابض میئر کراچی کی اعلیٰ کارکردگی کا مظہر ہیں، یہ اعلیٰ کارکردگی اس وقت اور مزید نمایاں ہوجاتی ہے جب شہر میں بارش کی چند بوندیں برس جائیں۔ قومی خزانے سے شہر میں جہاں جہاں تعمیر و ترقی کے کام ہورہے ہیں اس کا حال بھی یہ ہے وہ بارش کے ایک ہی ریلے میں بہہ گئے ہیں جس کی واضح مثال شاہراہ بھٹو اور نئی حب کینال ہے۔ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود آج بھی شہر کی مختلف سڑکوں پر بارش کا پانی جمع ہے۔ شہر کی اس ناگفتہ بہ صورتحال پر جماعت ِ اسلامی طویل عرصے سے آواز اٹھا رہی ہے، حالیہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی جماعت اسلامی نے بھر پور آواز بلند کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت کراچی کو ہنگامی طور 500 ارب روپے اور صوبائی حکومت ہر ٹائون کو 2 ارب روپے ترقیاتی فنڈز دے۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور سالڈ ویسٹ کے اختیارات ٹائون کو منتقل کیے جائیں۔ جماعت ِ اسلامی کے ان مطالبات اور تنقید پر غور کرنے کے بجائے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سیخ پا ہیں کہتے ہیں کہ شہر میں سیوریج کے نظام کی خرابی کی ذمے دار جماعت اسلامی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے 2003 میں شہر کا ماسٹر پلان ادھیڑ کر رکھ دیا تھا، شہر کی پوری سڑکوں کو کمرشل کرنے کی اجازت جماعت اسلامی نے دی تھی، اب اس شہر میں منافقت نہیں چلنے دوں گا اور ان کو سخت الفاظ میں جواب دوں گا۔ لیجیے بات ہی ختم۔ کسی بھی سطح پر اقتدار کے منصب پر فائز افراد کا یہی وہ طرز عمل ہے جس نے تعمیر و ترقی کی راہوں کو مسدود کردیا ہے، خیر سگالی پر مبنی تنقید پر مثبت طرز عمل کو بالائے طاق رکھ کر جب اسے انا کا مسئلہ بنادیا جائے تو اسی طرح منافقت کے الزامات عاید کیے جاتے ہیں اور ترکی بہ ترکی جواب دینے جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس امر کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بارشوں سے اتنی تباہی نہیں ہوئی جتنی بدانتظامی، نااہلی اور بدعنوانی سے ہوئی ہے، کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں اپنا میڈیٹ جماعت ِ اسلامی کے حوالے کیا تھا مگر اس میڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اس ڈاکے کا لازمی نتیجہ وہی نکلنا تھا جو سامنے ہے۔ میئر کراچی کو آپے سے باہر ہونے اور الزامات عاید کرنے کے بجائے شہر کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لیے اپنی توانیاں صرف کرنی چاہییں۔ کراچی مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، کراچی کے شہری روز جن مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور شہر عملاً جس صورتحال سے دوچار ہے اس پر لفظوں کی گھن گرج اور منافقت کے الزامات سے پردہ نہیں ڈلا جا سکتا۔ شہر کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کر کے محض بلند و بانگ دعوؤں سے کراچی کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں عمل کے میزان میں دعوؤں کا کوئی وزن نہیں ہوتا، عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے اور بحیثیت میئر انہیں اس پر توجہ دینی چاہیے۔