Express News:
2025-11-06@19:35:12 GMT

پاکستان اور سیاسی کشمکش

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

یہ دعویٰ تو شاید درست نہ ہوگا کہ 23 مارچ 1940 قرارداد لاہور کی آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس عام میں منظوری کے محض 7 سال کے قلیل عرصے میں مسلمانانِ ہند نے جنوبی ایشیا میں اپنے علیحدہ قومی وطن کی منزل حاصل کرلی، البتہ یہ 7 سالہ مدت علیحدہ قومی وطن کے قیام کی جدوجہد میں فیصلہ کن مرحلہ ضرور قرار دی جا سکتی ہے۔

برصغیر میں مسلمانوں کے علیحدہ قومی وطن کی فکری داغ بیل درحقیقت آزادی سے تقریباً 60 سال قبل سر سید احمد خان نے ڈال دی تھی جنہوں نے دو قومی نظریہ پر یقین رکھتے ہوئے کبھی انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار نہیں کی حالاںکہ کانگریس کا قیام ان کی وفات سے ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل ہی عمل میں آچکا تھا۔

دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانان ہند نے اپنے سیاسی حقوق کی جدوجہد جاری رکھی۔ سنہ 1906 میں نواب آف ڈھاکا سر سلیم اللّٰہ کی قیام گاہ پر نواب وقار الملک کی زیرصدارت اجلاس میں تشکیل پانے والی آل انڈیا مسلم لیگ سنہ 1937 تک مسلمانوں کے حقوق کے تناظر میں کوئی قابل ذکر کام یابی حاصل نہ کرسکی، حتیٰ کہ سن 1937 کے انتخابات میں اسے شکست کا سامنا تک کرنا پڑا، تاہم اسی اثناء میں نواب محسن الملک اور سر سلطان محمد شاہ آغا خان کی کاوشوں سے مسلمانوں کے لیے جداگانہ طریقہ انتخاب کا حصول اور علامہ اقبال کا خطبہ الہ آباد بہرحال اس دور کے اہم مظاہر میں شامل ہیں۔

خطبہ الہ آباد میں جنوب مشرقی ایشیاء کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا بطور خاص ذکر تو موجود نہیں لیکن خطبہ الہ آباد کے پیش کردہ نکات کا بالواسطہ اطلاق اس پر بھی ہوتا ہے جس کا اظہار 23 مارچ کی قرارداد لاہور، جسے بعد ازاں قرارداد پاکستان کے نام سے شہرت ملی، سے جھلکتا ہے۔ اس قرارداد کو متحدہ بنگال کے پریمیئر مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے پیش کیا اور مسلم اقلیتی صوبوں کی جانب سے اس کی تائید 'یو۔پی اسمبلی' میں قائد حزب اختلاف چوہدری خلیق الزماں نے کی۔ اسی قرارداد لاہور کی یاد میں 23 مارچ کو یوم پاکستان منایا جاتا ہے۔

 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک ایک سیاسی کشمکش میں اس وقت مبتلا ہوگیا جب بعض عاقبت نااندیش سیاست دانوں اور مذہبی راہ نماؤں نے ذمے داری کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے نادانستہ طور پر فوج کو ریاست پاکستان کے معاملات میں عمل دخل کی گنجائش فراہم کردی جس کے نتیجے میں فوج نے امورمملکت میں اپنے کردار کی تلاش شروع کردی۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے اسٹاف کالج کوئٹہ میں سنیئر فوجی افسران کو آئین کی پاس داری کی یاد دہانی کروائی جو کہ مسلح افواج کے حلف میں شامل تھی اور ہنوز شامل ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی وفات اور بعد ازآں پاکستان کی تاریخ کے واحد خودمختار وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل کے بعد طالع آزما سول و عسکری بیوروکریسی کو ہوس اقتدار کے حامل سیاست دانوں کے گٹھ جوڑ سے طاقت کے ایوانوں پر قبضہ جمانے کا موقع ملا۔ اسی دوران بعض ایسے درآمد شدہ عناصر بھی مذہب کے نام پر سرگرم عمل ہو گئے جو ماضی میں مطالبہ پاکستان کے حامی ہی نہ تھے۔

انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دینی و سیاسی افکار کا پرچار شروع کردیا بلکہ اقتدار پر قبضہ جمانے کے لیے بھی طبع آزمائی کی جب کہ پاکستان بالخصوص مغربی بازو میں وہ عناصر بھی رفتہ رفتہ متحرک ہوگئے جو سرے سے قیام پاکستان کے ہی مخالف رہے تھے۔ تحریک پاکستان کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت اپنی جدوجہد کو محض سیاسی منشور اور نعروں تک محدود رکھا تاکہ مخالفین کو اپنی تاویلات کے ذریعے عوام کو گم راہ کرنے کا موقع حاصل نہ ہوسکے۔

برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ قومی وطن کی جدوجہد میں مسلم لیگ کے سیاسی منشور اور نعروں کو پذیرائی حاصل ہوئی لیکن قیام پاکستان کے بعد جب درآمد شدہ مذہبی عناصر نے اسلام کی مختلف توجیہات پیش کرکے پین اسلام ازم کے نکتے پر متحد ہونے والی ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھیرنے کا انتظام شروع کردیا۔ دراصل تحریک پاکستان کے اکابرین نے 'پین اسلام ازم' کے ان ہی رجحانات پر اپنی عمارت تعمیر کی جس کی مستحکم بنیاد عدیم المثال تحریک خلافت میں مولانا محمد علی جوہر نے رکھی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے عروج کی داستان کا آغاز اس وقت ہوا جب تحریک خلافت کے کہنہ مشق اور عوامی سیاست کے تجربے کار رہنماؤں اور کارکنان نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ مولانا محمد علی جوہر نے مسلمانان ہند کے بارے میں یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ برصغیر کے مسلمان فرقہ پرست ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جذبہ اخوت کا دارومدار اس بات پر ہے یہ ان کا مقابلہ غیرمسلموں سے ہے، تاہم قیام پاکستان کے بعد جب غیرمسلموں سے مقابلہ باقی نہ رہا تو کوئی ایسی راہ نما فکری قوت باقی نہ رہی جو انہیں ایک قوم کے طور پر یکجا رکھ سکتی۔

پاکستان کی مسلم اکثریت، جس نے علیحدہ قومی وطن کے نام پر متحد ہوکر منزل حاصل کی تھی، وہ صوبائی و علاقائی بنیادوں پر بھی تقسیم ہونا شروع ہوگئی جو ایک فطری عمل تھا۔ بلوچستان میں ان رجحانات کو روکنے اور بلوچوں کی شناخت کے حوالے سے اپنے تحفظات دور کرنے کے لیے شہید وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے 'بلوچستان اسٹیٹس یونین' تشکیل دی جس میں صوبے کی چاروں ریاستوں کو مکمل رضامندی کے ساتھ نمائندگی دی گئی تھی۔

اس سیٹ اپ کو مکمل جمہوری انداز میں چلانے اور نظم و نسق و ترقی کے تناظر میں ملک کے سیٹلڈ ایریاز کے مساوی لانے کے لیے یہ ایک اہم اقدام تھا۔ اگر یہ نیٹ ورک قائم رہتا تو آج بلوچستان کے حالات پرامن ہوتے۔ ہندوستان و پاکستان کے درمیان ابتدائی بین الاقوامی معاہدوں کے تناظر میں برصغیر کی تقسیم کی وجہ سے تبادلۂ آبادی کے نتیجے میں دونوں ممالک کی نقل مکانی کرنے والی آبادی متروکہ املاک کی وارث قرار پائی تھی، تاہم پاکستان کے مقامی بااثر حلقوں نے متروکہ املاک میں جبراً اپنا ناجائز حصہ وصول کرنے کی تگ ودو شروع کردی جو غیرارادی طور پر بالآخر سیاسی کشمکش میں اضافے کا باعث بنی۔

آزادی کے فوراً بعد جہاں ایک جانب دائیں بازو کے انتہاپسند عناصر نے غیرذمے داری کا مظاہرہ کیا وہیں بائیں بازو کے عناصر نے بھی انتہاپسندی دکھاتے ہوئے ایک ایسے نوزائیدہ ملک، جو برصغیر کے مسلمانوں کی امنگوں کا ترجمان تھا، میں اشتراکی نظریات کی تبلیغ پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اقتدار پر قابض ہونے کی کوششیں بھی شروع کردیں۔ دائیں اور بائیں بازو کی ان قوتوں نے ملک میں جمہوریت کے استحکام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور اس بات کا بھی انتظار نہ کیا کہ یہ ملک عالمی برادری میں ایک ماڈرن اسلامی ریاست کے طور پر اپنا مقام بنا کر ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکے۔

16 اکتوبر 1951 سے سیاست دانوں کے ایک حلقے کی وساطت سے شروع ہونے والے ملک کے پہلے سول ملٹری نیکسس نے 17 اپریل 1953 کو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی غیرقانونی برطرفی اور اگلے سال 1954 میں دستورساز اسمبلی کی غیرآئینی و جبری تحلیل میں کلیدی کردار ادا کیا جس میں اعلٰی عدلیہ بھی ایک فریق کے طور پر سامنے آئی جس نے دستورساز اسمبلی کی جبری برطرفی کو قانونی تحفظ فراہم کردیا جو ملک کی سیاسی تاریخ میں عدلیہ کی سنگین ترین غلطی تھی۔

اس عدالتی فیصلے کے بعد نئی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے جس کے نتیجے میں ملک کی دوسری دستور ساز اسمبلی نے غیرمعمولی صورت حال میں قومی مفاد کے خاطر ایک سیاسی سمجھوتا کرتے ہوئے سنہ 1956 میں پاکستان کا پہلا آئین منظور کیا جس کے مندرجات کو مشرقی و مغربی پاکستان کے نمائندگان نے متفقہ طور پر تسلیم کیا اور بنگال نے قربانی دیتے ہوئے 'ون مین، ون ووٹ' کے مسلمہ جمہوری اصول کو 'پیریٹی' میں تبدیل کرنا منظور کیا، جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کی 54 فی صد آبادی کے لیے قومی پارلیمان میں صرف اتنی ہی نشستیں رکھی گئیں جتنی مغربی پاکستان کے ون یونٹ کی آبادی کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ون یونٹ کی تشکیل میں صوبہ پنجاب نے بھی مغربی پاکستان کے اندر اپنی اکثریتی آبادی کے باوجود اپنی کچھ نشستیں چھوٹے صوبوں کو دیں۔

مغربی پاکستان کے صوبوں کو آپس میں ضم کرکے ون یونٹ بنانے سے سنہ 1940 کی قرارداد لاہور میں دی گئی صوبائی خودمختاری تو درکنار، صوبوں کے علیحدہ وجود کو ہی ختم کردیا گیا۔ اس صورت حال نے مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا کیا جس نے ملک کی سیاسی کشمکش میں مزید اضافہ کیا۔

23 مارچ کا دن یوم پاکستان کے طور پر منایا جاتا ہے جب کہ 23 مارچ کو منانے کی ابتدا سنہ 1956 کے آئین کی منظوری کے نتیجے میں ملک کو 'ڈومینین اسٹیٹس' سے 'اسلامی جمہوریہ' بنائے جانے سے ہوئی، تاہم اس آئین کے موجب فروری 1959 میں شیڈیول عام انتخابات اکتوبر 1958 کے مارشل لا اور آئین کی منسوخی کے باعث منعقد نہ ہوسکے جس کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ مشرقی و مغربی بازوؤں کے مابین وفاق میں پیریٹی کے اصول کو ختم کرکے سنہ 1970 میں نئے انتخابات کروائے گئے لیکن آئین نہ بن سکا بلکہ ملک دولخت ہوگیا جس میں پیریٹی کی عدم موجودگی ایک بڑا سبب تھی۔

سنہ 1973 میں باقی ماندہ مملکت کی قومی اسمبلی نے ایک آئین منظور کیا حالاںکہ سنہ 1970 کے عام انتخابات کے منتخب کردہ اراکینِ قومی اسمبلی ایک متحدہ پاکستان کے آئین کی تیاری کے لیے منتخب ہوئے تھے نہ کہ صرف مغربی پاکستان کے لیے، تاہم مغربی پاکستان کے سیاسی عمائدین بالخصوص غالب اکثریت کے ترجمان ذوالفقار علی بھٹو اس 'اسٹیٹس مین شپ' کا مظاہرہ نہ کرسکے جو متحدہ پاکستان کے وجود کو برقرار رکھ سکتی تھی اور جس کی عوام کو ان سے بجا طور پر توقع تھی۔

سنہ 1973 کی آئین سازی سنہ 1956 کی آئین سازی کے مقابلے میں نسبتاً کافی آسان تھی کیوںکہ اب ملک کا ایک ہی بازو رہ گیا تھا اور دستور میں بنگال کے معاملات کا حل فراہم کرنے کی کوئی ضرورت ہی باقی نہ رہی تھی لیکن بدقسمتی اب بھی ساتھ تھی۔ ملک کو ایک دستور حاصل ہوجانے کے بعد بھی سنہ 1973 کے آئین کو دو مرتبہ طالع آزماؤں نے معطل کیا، تاہم اس بار وہ دستور کو منسوخ یا تحلیل نہ کر سکے جس کی وجوہات 1973 کے آئین میں 'ختم نبوت' کی بنیاد پر 'مسلمان' کی تعریف کا ہونا، دستور کی بنیاد سنہ 1949 کی 'قرارداد مقاصد' جس کو بانیان پاکستان پر مشتمل ملک کی اس اولین دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا (اسی پارلیمان میں خود قائد اعظم محمد علی جناح نے بحیثیت صدر اسمبلی آزادی کا پروانہ وائس رائے ہند سے وصول کیا تھا جس کے نتیجے میں اس دستور ساز اسمبلی کو تاج برطانیہ سے پیراماؤنٹ پاور منتقل ہوئی تھی) کا ہونا اور سب سے بڑھ کر 1973 کے آئین کو مکمل اتفاقِ رائے سے منظور کیا جانا تھا۔ اس کے برعکس آج اسی آئین میں چھبیسویں آئینی ترمیم اتفاق رائے کے بغیر ایک نامکمل پارلیمان سے منظور کروائی گئی ہے لہٰذا یہ ترمیم متنازعہ ہے اور یہ بھی ملکی سیاسی تاریخ میں کشمکش کی ایک بڑی وجہ قرار پائے گی۔

آج پاکستان سیاسی، معاشی، عدالتی اور انتظامی عدم استحکام اور سیاسی کشمکش کا شکار ہے اور ملکی معیشت میں آئی۔ایم۔ایف و دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے عمل دخل کی وجہ سے اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا خواب ایک افسانہ بن چکا ہے۔

ایسے حالات میں پاکستان کے تمام مسائل کا فوری حل ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد، تہذیبی اکائیوں کی بنیاد پر انتظامی یونٹوں کی تشکیل، مقامی حکومتوں کے ذریعے اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی، ملک میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے لیے مکمل فکری اتحاد کا قیام، اداروں کو اپنی آئینی حدود کا پابند بنانا، انصاف کی یکساں و بلا تاخیر فراہمی، وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کی ازسرنو تشکیل اور سب سے بڑھ کر ملک کی 65 فی صد نوجوان آبادی کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے آگے لانا موجودہ سیاسی کشمکش کو ممکنہ حد تک روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مغربی پاکستان کے دستور ساز اسمبلی قیام پاکستان کے علیحدہ قومی وطن قرارداد لاہور کے نتیجے میں مسلمانوں کے سیاسی کشمکش منظور کیا کے طور پر ا بادی کے محمد علی کی بنیاد ا ئین کی کے ا ئین ملک کی کے بعد

پڑھیں:

نیویارک میں تاریخ کا نیا موڑ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251106-03-3
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
نیویارک کی سب سے بڑی سیاسی کڑی میں حالیہ تاریخی شکست و فتح نے نہ صرف شہر کی اندرونی سیاست کو بدل دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر سیاسی رجحانات، معاشی ترجیحات اور سماجی توازن کے حوالے سے بھی نئے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ اس الیکشن کی سب سے نمایاں خبر زہران یا بالعموم بین الاقوامی خبروں میں جو صورت میں آیا، ممدانی کی کامیابی ہے، جو ایک ایسے عہد میں سامنے آئی ہے جب مہنگائی، رہائش کے بحران، عوامی نقل و حمل کی ناقص صورتحال اور معاشی عدم مساوات عام شہریوں کا روز مرّہ مسئلہ بن چکے تھے۔ ان کی انتخابی مہم نے یہی پیغام دیا کہ وہ عام طبقے کے مسائل کو فوقیت دیں گے اور یہی پیغام آخر کار ووٹرز تک پہنچا جس کا اظہار نتیجہ خیز ثابت ہوا۔

یہ نتیجہ صرف ایک مقامی سیاسی تبدیلی نہیں بلکہ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر ترقی پسند، اعتدال پسند اور قدامت پسند دھڑوں کے مابین جاری کشمکش کا عکاس بھی ہے۔ ممدانی کی پالیسی مفت بچوں کی دیکھ بھال، مفت بسوں کا تجربہ؍ پبلک بس سروِس، کرایہ منجمد رکھنے جیسی فوری عوامی فوائد پر مبنی تجاویز واضح طور پر ایک بائیں بازو اقتصادی ایجنڈے کی ترجمانی کرتی ہیں، جو بڑے کاروباری اور مالیاتی حلقوں کے خلاف ایک عوامی جوابی لہر کے طور پر سامنے آئی۔ اگرچہ یہ نظریاتی موڑ کچھ حلقوں میں پارٹی کے لیے موقع ہے، مگر دوسری طرف یہ خطرہ بھی ہے کہ شہر کی روایتی سرمایہ کاری، فنانسنگ اور پرائیویٹ سیکٹر کے تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا ہوں۔

انتخابی میدان میں جو جذباتی اور قومی سطح کے عنصر شامل ہوئے، وہ بھی قابل ِ غور ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے ممدانی پر کی جانے والی تنقید اور مخصوص حلقوں کی جانب سے اشتعال انگیزی نے اس الیکشن کو محض مقامی انتخاب سے بڑھ کر قومی، ثقافتی اور مذہبی بحث میں تبدیل کردیا۔ ٹرمپ کے کلمات اور تنقید نے نہ صرف انتخابی مہم کو ناروا کشیدگی میں ڈالا بلکہ اس نے مذہبی و نسلی بنیادوں پر ووٹ بینک کی تشکیل کی کوششوں کو بھی ہوا دی، جو طویل المدتی سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ سیاسی راہنما چاہے وہ صدر ہوں یا مقامی لیڈر جب ذمّے دار بیانیہ چھوڑ کر جذباتی حملوں کی راہ پر چلتے ہیں تو اس کے اثرات محض ووٹنگ تک محدود نہیں رہتے بلکہ وہ شہر کے بین النسلی اور بین المذہبی رشتوں پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔

اسی دوران قومی اور بین الصوبائی سطح پر پیدا ہونے والی سلامتی وانتظامی کشیدگی نے ووٹنگ کے عمل کو بھی متاثر کیا۔ نیو جرسی میں بننے والی بم خطرات کی اطلاعات نے انتخابی دن میں رکاوٹیں پیدا کیں، جس سے عوامی اعتماد اور انتخابی عمل کی روانی دونوں متاثر ہوئے۔ ایسے سنجیدہ سیکورٹی خدشات کا وجود اس امر کا ثبوت ہے کہ جدید عہد میں سیاسی مقابلہ آرائیاں اب صرف بیانات و وعدوں تک محدود نہیں رہیں؛ وہ کبھی کبھار عملیات اور خوف کی زبان اختیار کرلیتی ہیں، جس کا براہِ راست اثر شہری شمولیت اور جمہوری عمل کی سالمیت پر پڑتا ہے۔ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ شفافیت اور فوراً اقدامات کے ذریعے عوام کو تحفظ کا یقین دلائیں۔

زہران ممدانی کی ذاتی اور خاندانی شناخت نے بھی انتخابی کہانی کو عالمی سطح پر دلچسپی کا محور بنایا۔ ایک علمی و فنّی پس منظر رکھنے والا خاندان جہاں والد ماہر ِ علوم انسانی محمود ممدانی جیسے معتبر اسکالر ہیں اور والدہ میرہ نائر ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ فلم ساز نے ممدانی کے سیاسی بیانیے میں بین الثقافتی اور عالمی حوالے دیے، جو انہیں نیویارک کے کثیرالثقافتی معاشرے میں ایک فطری نمائندہ بناتے ہیں۔ یہ امر خاص طور پر اس لحاظ سے اہم ہے کہ بڑے شہروں کی سیاست میں شناخت، نمائندگی اور ثقافتی روابط عوامی قبولیت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ عمومی طور پر یہ کامیابی مقامی، قومی اور عالمی سطح پر کیا معنی رکھتی ہے؟ پہلی بات یہ کہ ممدانی کی جیت ترقی پسند فکر کے لیے حوصلہ افزا ہے اور اس سے امریکا کے شہری مراکز میں بائیں بازو کے مسودات کو تقویت ملے گی خصوصاً رہائش، صحت ِ عامہ، اور ٹرانزٹ کے حوالہ سے۔ دوسری بات یہ کہ عالمی سطح پر یہ ایک علامتی پیغام بھی ہے۔ متنوع، امیگرینٹ ہونے والی برادریوں کے نمائندے اعلیٰ سیاسی عہدوں تک پہنچ سکتے ہیں، جو امتیاز اور منافرت کے خلاف ایک مضبوط سماجی جواب ہے۔ مگر تیسری اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ عملی اقدامات کا مرحلہ سب سے مشکل ہوگا وعدے آسان ہیں؛ نفاذ، بجٹ، قانونی رکاوٹیں اور انتظامی صلاحیت وہ میدان ہیں جہاں ممدانی کا حقیقی امتحان ہوگا۔ شہر کے بجٹ، وفاقی فنڈنگ، اور پراپرٹی؍ ڈیویلپمنٹ سیکٹر سے متوقع کشمکش ان پالیسیوں کے نفاذ کو پیچیدہ بنائیں گی، اور یہی وہ میدان ہوگا جہاں سیاسی بصیرت، اتحاد سازی، اور پالیسی سازی کی تکنیکی مہارت درکار ہوگی۔

مزید برآں، یہ فتح اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ طاقتور شخصیات یا سیاسی دھڑے اگر مخالف بیانیہ چلائیں تو وہ وقتی طور پر تیز اثر دکھا سکتے ہیں مگر طویل مدتی سیاسی کامیابی کے لیے محض خوف یا نفرت کے جذبات کافی نہیں رہتے؛ عوامی روزمرہ مسائل اور ان کے حل کی پیشکش زیادہ پختہ بیانیہ ثابت ہوتی ہے۔ اور یہی وہ سبق ہے جو دیگر شہروں اور ممالک کے پالیسی سازوں کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے۔ معیشت، رہائش، ٹرانسپورٹ اور سماجی خدمات کی فراہمی ہی وہ شعبے ہیں جو شہری سیاست میں فیصلہ کن ثبوت بنتے ہیں۔

آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ نیویارک کی یہ نئی تاریخ محض ایک شہر کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک وسیع تر عالمی رجحان کی علامت ہوسکتی ہے جہاں نوجوان، متنوع اور سیاسی طور پر منظم ووٹر بلاواسطہ اقتصادی مساوات اور عوامی خدمات کو اپنی اولین ترجیح بنا رہے ہیں۔ آئندہ برسوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ممدانی کی پالیسیاں کس حد تک عملی جامہ پہن پاتی ہیں، اور کیا وہ نیویارک کو ایک ایسے ماڈل شہر میں تبدیل کرسکیں گے جو دیگر شہروں کے لیے پالیسی نمونہ بنے، یا وہ سرمایہ داری، وفاقی سیاسی دبائو اور مقامی انتظامی حقیقتوں کے بیچ پھنس جائیں گے۔ اس سوال کا جواب نہ صرف نیویارک کے شہریوں کے لیے بلکہ عالمی سیاسی منظر نامے کے لیے بھی اہم ہو گا۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • 27ویں ترمیم جو بھی منظور کرے گا پاکستان کی سیاسی تاریخ سے اُسکا نام مٹ جائے گا، مشتاق غنی
  • 27ویں آئینی ترمیم جو بھی منظور کرے گا پاکستان کی سیاسی تاریخ سے اُسکا نام مٹ جائے گا، مشتاق غنی
  • 27 ویں ترمیم کا سیاسی کھیل
  • نیویارک میں تاریخ کا نیا موڑ
  • عمران خان سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کیلیے کوششیں جلد رنگ لائیں گی‘ فواد چودھری
  • پی ٹی آئی سیاسی راستے کی تلاش میں
  • پاکستان کو 78 سال بعد پوری دنیا میں عزت ملی ہے، رانا ثناءاللہ
  • اظہر جاوید سماء ٹی وی پاکستان کے برطانیہ میں بیورو چیف مقرر
  • مختلف سیاسی جماعت کے لوگ فنکشنل لیگ میںشامل
  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش: آزاد کشمیر میں ان ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار