بیساکھی میلہ: بھارت کے ساڑھے 6 ہزار یاتریوں کو ویزے جاری
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
پاکستان نے بیساکھی میلے میں شرکت کے لیے بھارت کے 6500 سے زائد یاتریوں کو ویزے جاری کر دیئے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں عالمی امن اور سکھ ازم کے کردار پر سیمینار
پیر کو پاکستان ہائی کمیشن نئی دہلی سے جاری اعلامیے کے مطابق یاتری 10 سے 19 اپریل تک پاکستان میں ہونے والی سالانہ تقریبات میں شرکت کریں گے۔
مزید پڑھیے: بیساکھی کے تیوہار پر وزیراعظم محمد شہباز شریف کا پیغام
یاتری دیگر مقدس مقامات کے علاوہ گوردوارہ پنجہ صاحب، گوردوارہ ننکانہ صاحب اور گوردوارہ کرتار پور صاحب کی یاترا کریں گے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان ہائی کمیشن نئی دہلی کے ناظم الامور سعد احمد وڑائچ نے کہا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے بڑی تعداد میں ویزوں کا اجرا لوگوں، ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کی پالیسی کا مظہر ہے۔
مزید پڑھیں: سکھوں کے 50 رکنی وفد کا خیبرپختونخوا میں سکھ دور کے تاریخی مقامات کا دورہ
سعد احمد وڑائچ نے کہا کہ پاکستان مقدس اور مذہبی مقامات کے دوروں میں سہولت فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
واضح رہے کہ مذہبی مقامات کے دوروں سے متعلق سنہ 1974 کے پاک بھارت پروٹوکول کے فریم ورک کے تحت ہر سال بھارت سے یاتریوں کی بڑی تعداد مختلف مذہبی تہواروں/مواقع میں شرکت کے لیے پاکستان کا دورہ کرتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارتیوں کو پاکستانی ویزے جاری بیساکھی میلہ پاکستان ہائی کمیشن نئی دہلی سکھ یاتری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارتیوں کو پاکستانی ویزے جاری پاکستان ہائی کمیشن نئی دہلی سکھ یاتری
پڑھیں:
خرابات فرنگ
تقریباً دو ہفتے پہلے ‘ علامہ عاصم صاحب کا فون آیا۔ ڈاکٹر وحیدالزماں طارق صاحب نے گھر پر ایک ادبی محفل رکھی ہے اور آپ نے ضرور آنا ہے۔ برادرم عاصم‘ بذات خود ایک حیرت انگیز شخصیت کے مالک ہیں۔ قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں تو خیر وہ ہیں ہی۔ مگر‘ ایک حد درجہ مخلص‘ مہذب اور مرنجان مرنج انسان بھی ہیں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ طالب علم‘ ڈاکٹر وحید الزماں کو قطعاً نہیں جانتا تھا۔ خیر تھوڑی دیر بعد‘ ڈاکٹر صاحب کا فون آ گیا۔ بتانے لگے کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ہیں۔ معلوم پڑا کہ میرے سے چار سال سینئر تھے۔
فدوی بھی اسی علمی درسگاہ سے فیض یاب ہوا ہے۔ بہر حال برف پگھلنی شروع ہو گئی۔ مختص دن اور شام کو ان کے گھر پہنچا۔ تو بیسمنٹ میں دوست جمع ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے تعارف ہوا۔ اندازہ نہیں تھا کہ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو ہیں‘مگر فارسی میں بھی پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔
لاہور کی قدآور ادبی شخصیات موجود تھیں۔ اوریا مقبول جان جو میرے دیرینہ رفیق ہیں، اپنے مخصوص انداز میں چہک رہے تھے ۔ اوریا کے سیاسی خیالات اپنی جگہ۔ مگر‘ ادب پر اس کی کمال گرفت ہے۔ باتیں ہوتی رہیں۔ تھوڑی دیر میں ‘ محترم مجیب الرحمن شامی بھی آ گئے۔ ان کی باتوں کی شائستگی ‘ محفل کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ چار گھنٹے ہر زاویہ سے باتیں ہوتی رہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے صاحب قلم اور صاحبان علم کا ایک ایسا گلدستہ اکٹھا کیا ہوا تھا جن کی دل آویز خوشبو ‘ ہمیشہ اپنا احساس دلاتی رہے گی۔
ڈاکٹر صاحب‘ فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔میری پسندیدہ ترین شخصیت‘ علامہ اقبال کے کام پر گہری نظر ہے۔ ڈاکٹر وحیدالزماں جو فوج کے میڈیکل کے شعبہ سے ریٹائرڈ بریگیڈیئر بھی ہیں۔ انھوں نے کمال محبت سے اپنی ایک کتاب کی دو جلدیں عنایت فرمائیں۔ یہ ان کی لندن کے قیام کے قصے تھے۔ نام تھا خرابات فرنگ۔ اس جمعہ اور ہفتہ کو قدرے فرصت تھی ۔
لہٰذا دونوں جلدیں پڑھ ڈالیں۔ بہت عمدہ کتابیں نکلیں۔ محترم الطاف حسن قریشی‘ اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں۔کتاب کا اسلوب بیانیہ ہونے کے باوجود اتنا دلکش اور مؤثر ہے کہ قاری محسوس کرتا ہے جیسے وہ خود ہائیڈپارک کارنر کی بینچ پر بیٹھا ہو یا برٹش میوزیم کی راہداریوں میں گم ہو چکا ہو‘‘۔ مادام تساؤ کا میوزیم‘‘ ہویاٹر افالگر اسکوائر ‘وکٹوریہ گارڈن ہو یا نیشنل گیلری ‘ ہر مقام کا ذکر اس انداز سے کیا گیا ہے کہ صرف جگہیں ہی نہیں بلکہ ان سے جڑے ثقافتی اور فکری پہلو بھی روشن ہو جاتے ہیں۔کتاب کا نام ’’خرابات فرہنگ‘‘ خود ایک استعارہ ہے۔ ’’خرابات‘‘ یعنی وہ جگہ جہاں روح شکست کھا جائے‘ جہاں دل کو قرار نہ آئے۔ اور ’’فرنگ‘‘ یعنی مغرب‘ جہاں تہذیب ہے‘ ترقی ہے‘ لیکن روحانیت گم ہے۔
شامی صاحب رقم طراز ہیں کہ طارق کا لاحقہ انھوںنے خود لگایا یا تخلص رکھ لیا‘ معنویت میںاضافہ ہو گیا۔ وحید الزماں طارق طب کے ڈاکٹر ہیں اور ادب کے بھی۔ میڈیکل میں کمال حاصل کیا‘ تو ادب کی طرف رجوع کر لیا۔ اقبال کے کلام سے ناتہ جوڑا تو اس کے شارح اور مفسر بن گئے۔ ایک عالم کو گرویدہ بنا لیا۔ اقبال کا فارسی کلام فارسی سے نابلد لوگوں کو سمجھا دیا۔
اب کچھ کتاب سے لیے ہوئے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔قطبین میں سے ایک قطب کا انتخاب: مغرب میں اہل ایمان کی تذبذب کی کیفیت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ پاکستان میں لوگ اپنی پارسائی کا بھرم رکھ کر چھپ چھپا کر گناہ کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن وہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہوتا ہے۔ انسان اپنی حرکات و سکنات سے اپنی شناخت کا تعین کرتا ہے۔ یا تو وہ صحیح مومن بن جاتا ہے یا پھر مغرب کی چکا چوند روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اگر آپ کی تربیت صحیح ہوئی ہو تو انسان ان خرافات سے دور بھاگتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دقیانوسیت سے باہر نکلنا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں :
بہ افرنگی بتان دل باختم من
ز تابِ دیریان بگدا ختم من
دیار فرنگ میںاپنے تقویٰ اور پرہیز گاری کو قائم رکھنا مشکل تو تھا لیکن ناممکن نہیں۔ ہمارا انگلستان میں حال کچھ یوں تھا کہ بقول علامہ اقبال:
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
انگریز معاشرے کے مسائل اور خوبیاں: انگریز معاشرے کے اپنے مسائل تھے اور خوبیاں بھی تھیں جو سامنے آ جاتی تھیں۔ انگریزقوم کے افراد کسی حد تک آگے بڑھتے اور پھر وہیں رک جاتے تھے۔ اور اسے مغربی تہذیب کا نام دیتے جس کی جھلکیاں ان کی مصوری‘ موسیقی اور ڈراموں میں دکھائی دیتی تھیں۔ وہی حال ان کے تجارتی اشتہارات کا تھاجن سے ان کی زیر زمین ریل گاڑیاں اور ڈبل ڈیکر بسیں تک مزین ہوا کرتی تھیں ایسی تصاویر اور آرٹ بچوں کے کچے ذہنوں پر اثر انداز ہوا کرتے تھے۔
پاکستان کے تارکین وطن کی برطانیہ میں پیدا ہو کر پرورش پانے والی نسل کو یہ سب کچھ نارمل دکھائی دیتا تھا اور وہ اس اخلاقی نظام پہ انگلیاں اٹھاتے تھے جس کی تلقین ان کے قدامت پسند بزرگ کیا کرتے تھے۔ پھر اگر انھیں پاکستان یا اسلامی معاشرے میں کچھ دیر کے لیے وقت گزرانا پڑتا تو انھیں وہاں پر اگر انھیں منافقت یا مصلحت اندیش خاموشی نظر آتی تو وہ ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دیتے تھے جن کا جواب دینے سے ہمارے اکثر بڑے قاصر ہوتے تھے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کہتے کچھ ہیں اور ہمارا عمل کچھ اور ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات میں ہم پردہ پوشی سے کام لیتے ہیں۔
انگلستان سے ٹوٹتا ہوا تعلق: ہم 2018 میں عمان ایئرکے ذریعے ابو ظہبی سے مسقط اور وہاں سے مانچسٹر پہنچے۔ یارکشائر‘ گلاسگواسکاٹ لینڈ‘ لندن‘ اسٹیو ینیج‘ کیمبریج اور پھر مانچسٹر ‘ ہر سو اداسی تھی۔ اس بار خالہ بلقیس ‘ بھائی جان امان اللہ اور آنٹی نجمہ واحد سے ہم آخری بار ملے تھے۔ عید پر گلاسگو گئے تو ابھی بشیر مان صاحب بھی زندہ تھے لیکن سخت بیمار تھے۔ انھیں ایک پھیپھڑے میں سرطان ہو چکا تھا اور ان سے ہم آخری بار 2016 میں ان کے اپارٹمنٹ میں ملے تھے۔
اب وہ سب لوگ اس دنیا میں نہیں رہے۔پروفیسر لانگسن تو 1989 میں ہی وہا ں سے نکل مکانی کر گئے تھے۔ وہ بھی سویٹزر لینڈ میں جا کر جنیوا جھیل کے کنارے مدفون ہیں۔ مسز ڈینس لانگسن سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ بنات ولا اور شرلی رچمنڈ کا کچھ علم نہیں۔ ماؤراٹمبوری وفات پا چکی ہیں۔ رولف اور جیکی فروری 1988 میں ہی وہاںسے ہل چلے گئے تھے۔ جیرالڈ کاربٹ اور اس کی بیگم وفات پا چکے تھے۔ ڈاکٹر شرلی رچمنڈ بھی نہیں رہیں۔ جو باقی ہیں ان سے بھی ملاقات مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
آخرمیں ڈاکٹر وحید الزماں نے جو کچھ‘ اس کتاب کے متعلق لکھا ہے۔ عرض کرتا ہوں۔کمبل پوش نے ’’عجائبات فرنگ‘‘ تصنیف کی تھی‘ وردی پوش نے ’’خرابات فرنگ‘‘ رقم کی ہے۔ بریگیڈیئر وحیدالزماں طارق صاحب کی یہ تصنیف لطیف سفر نامہ بھی ہے اور حضر نامہ بھی ۔ انھوںنے جوانی میں انگلستان کی شان دیکھی تھی‘ وقت پیری انھیں یہ خیال آیا کہ دیکھا ہے جو کچھ میں نے‘ اوروں کو بھی دکھلا دوں۔ سو کتاب کے نام کی مناسبت سے انھوںنے ہمیں خرابات کی سیر تو کرائی ہے لیکن نام کے برعکس بھی بہت سے دل کش مقامات دکھائے ہیں۔ اس تصنیف میں سیر مقامات بھی ہے اور احوال حیات بھی۔ یہاں انھوںنے ہماری ملاقات ایک ایسے پاک دل و پاک باز شخص سے کرائی ہے جس پر اقبال کا یہ مصرع صادق آتا ہے: بے داغ ہے مانند ِ سحر اس کی جوانی۔ یہ شخص وحیدالزماں طارق ہے جو خود تو رنگین مزاج نہیں ہے لیکن اس کا اسلوب تحریر بہت رنگین ہے۔
بہر حال ‘ وحید صاحب نے انگلستان میں اپنی یادوں کو حد درجہ دلکش انداز میں محفوظ کیا ہے۔ یہ دونوں جلدیں ‘ واقعی پڑھنے کے قابل ہیں۔